• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مولانا اسلام علی شاہ…
تراویح کی نماز کا نام تراویح
تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور اس کا معنی آرام کرنے کے ہیں تو اس کا نام تراویح بعد میں رکھا گیا ہے کہ ہر چار رکعات کے بعد آرام کرتے ہیں اور یہی معنی ترویحہ کا ہے۔
تراویح کا حکم
تراویح کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔ چھوڑنے پر باز پرس ہوگی اور پڑھنے پر اجر عظیم کے ساتھ مغفرت ملے گی۔ اگر کوئی پورا قرآن نہیں سن سکتا تو چھوٹی سورتوں کے ساتھ گھر میں پوری تراویح پڑھ کر اپنے آپ کو مؤاخذہ سے بچا سکتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور رمضان کی عبادت
رمضان میں نبی اکرم ﷺ جس طرح عبادت کیا کرتے تھے غیر رمضان میں اس طرح نہ کرتے بلکہ رمضان میں بہت ہی زیادہ کوشش کرتے تھے اور آخری عشرے میں تو کمر کس کر خود بھی عبادت کیا کرتے تھےاور گھر والوں کو بھی جگا کر رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو آدمی رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کے حصول کیلئے کھڑا ہو یعنی عبادت کرے تو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں ۔
نماز تہجد اور تراویح میں فرق
رمضان کی عبادت اور غیر رمضان کی عبادت میں بہت بڑا فرق ہے ۔رمضان کے قیام کو نبی اکرم ﷺ نے مسنون قرار دیا۔ تہجد کے ساتھ ساتھ دوسری نماز بھی پڑھاکرتے تھے جو بعد میں تراویح کے نام سے مشہور ہوگئی۔اس لئے تہجد علیحدہ نماز ہے اور تراویح علیحدہ نماز ہے۔ تہجد رمضان اور غیر رمضان میں پڑھی جاتی ہے جس کی طرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اشارہ کیاہے بخاری شریف کی روایت میں ہےکہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے یہ تہجد کبھی بھی جماعت سےنہیں پڑھی بلکہ اپنی اپنی پڑھی ہے۔ یہ انفرادی نماز ہے اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی اور بعض علماء فرماتے ہیں اس کی فرضیت نبی ﷺ پر آخر تک باقی رہی۔ ابتداء میں یہ عام مسلمانوں پر بھی فرض تھی مگر پانچ نمازوں کی فرضیت کے بعد اس کی فرضیت عام مسلمانوں کیلئے منسوخ ہوگئی اور تراویح کی نماز یہ صرف رمضان میں عشاء کے بعد جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے تراویح کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ رمضان کی راتوں کے قیام کو میں نے مسنون قرار دیا اور فرمایا جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی غرض سے قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ اور فرمایا جو آدمی امام کے ساتھ کھڑا رہے یہاں تک کہ وہ نماز ختم کردے تو اس کیلئے رات بھر عبادت کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔خود بھی آپ رمضان میں بہت زیادہ عبادت کرتے تھے مالا یجتہد فی غیرہ کے الفاظ آتے ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور نماز تراویح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین دن تراویح کی نماز با جماعت مسجد نبوی میں پڑھی مگر آپ رحمۃ للعالمین تھے ، لوگوں کے ہجوم اور شوق کو دیکھ کر امت پر فرضیت کے ڈر کیوجہ سے آپ نے اس کی جماعت ترک کردی اور گھر میں پڑھی اور صحابہ کرام مسجد میں ٹولیوں کی شکل میں اور گھروں میں پڑھتے رہے۔ یہاں تک آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔
خلفاء راشدین اور تراویح
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں بھی اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سالوں میں عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو آگے کھڑا کر کے بیس تراویح ایک امام کے پیچھے پڑھانا شروع کروائیں۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی بیس رکعات تراویح پڑھائی جاتی رہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بیس رکعات تراویح پڑھواتے اور خود وتر پڑھایا کرتے تھے۔
تراویح اور اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب نماز تراویح شروع کروائی تو بڑے بڑے صحابہ موجود تھے۔ مفسر قرآن عبدا للّٰہ بن عباس، فقہیہ امت عبد اللہ بن مسعود، راز دار پیغمبر ام المؤمنین عائشہ اور دیگر صحابہ کرام یہ سب موجود تھے ان میں سے کسی ایک نے بھی اعتراض نہیں کیا بلکہ سب نے ابی کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑے ہو کر عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعات پڑھیں۔ تین خلفاء اور کبار صحابہ کرام کا بیس رکعات پڑھنا اس بات پر دلیل ہے کہ تراویح بیس رکعت پڑھنا سنت رسول ہے اس وقت سے لیکر آج تک بلا ناغہ ہر سال حرمین شریفین اور مسجد اقصی میں بیس رکعات پڑھائی جاتی ہیں۔
تراویح کی رکعات
تراویح کی رکعات کے بارے میں نبی اکرم ﷺسے کوئی صحیح روایت نہیں مگر یہ ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن عباس سے ہے کہ نبی اکرم ﷺ بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھا کرتے تھے اگرچہ روایت میں ضعف راوی کی وجہ سے ہے مگر اس روایت کے ساتھ ان تین خلفاء کا عمل اور جمیع صحابہ کرام کا اجماع مل چکا ہےچنانچہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےاپنے دور حکومت میں بیس رکعت تراویح اور وتر جماعت کے ساتھ پڑھانا شروع کئے اور ان کے بعد تینوں خلفاء نے اور جمیع صحابہ نے بیس رکعات پڑھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات شروع کیں تو کسی ایک صحابی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر اعتراض نہیں کیا بلکہ سب نے ان کے عمل کی تائید کرتے ہوئے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیس رکعات تراویح پڑھیں۔ محدثین کا اصول ہے کہ اگر کسی ضعیف روایت کے ساتھ تسلسل عمل مل جائے تو وہ روایت بھی مضبوط روایت بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اور صحابہ کرام کا اجماع اس بات پر دلیل ہے کہ ان کے پاس نبی اکرم ﷺ کے عمل میں سے کوئی چیز تھی تو تب ہی انہوں نے بیس رکعات شروع کروائیں اور اس پر کسی ایک صحابی نے اعتراض نہ کیا اور نہ ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اعتراض کیا جن سے بخاری کی وہ روایت منقول ہے۔ جس میں آٹھ رکعات تہجد کا ذکر ہے اور موجودہ محققین اسے تراویح سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ اس میں تروایح کا نام تک نہیں ۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ لہٰذا حضرت عمر فاروق کا یہ اقدام عین سنت ہے۔فتاوی ابن تیمیہ ج 2، ج:22ص 434} اسی طرح سعودی کے نامور عالم اور مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے سابق قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم فرماتے ہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین {مسجد حرام اور مسجد نبوی } میں کبھی بھی بیس سے کم تراویح نہیں پڑھیں گئیں۔
علماء امت اور تراویح
امام ابوحنیفہ کے نزدیک تراویح بیس رکعات ہیں امام مالک کے مشہور قول کے مطابق تراویح 36 رکعات ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں مجھے بیس رکعات پسند ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے نزدیک بیس رکعات تراویح ہے۔امام ترمذی فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت عمر اور حضرت علی اور دیگر صحابہ کا ہے۔علامہ نووی فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور اس کے سنت ہونے پر سب علماء کا اجماع ہےاور یہ 20رکعات ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ تراویح 20 رکعت ہیں اور یہ سنت موکدہ ہیں۔شیخ عبدالقادری جیلانی فرماتے ہیں کہ تراویح سنت ہے اور 20رکعت ہیں۔
تازہ ترین