• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے اجلاس میں یہ ہوش ربا انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران سے غیر قانونی پٹرول اسمگلنگ سے حکومت کو سالانہ60ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جسے روکنے کیلئے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، آئی جی ایف سی نے بتایا کہ اسمگلنگ روکنا کسٹمز کا کام ہے ہم نے صرف سکیورٹی دینا ہوتی ہے کسٹم حکام اسمگل شدہ پٹرولیم مصنوعات کو جرمانے لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بارڈر پر لوگوں کا روزگار ہی اسی سے وابستہ ہے۔سینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ میں لوگوں کے علاوہ ادارے بھی ملوث ہیں۔سینیٹر شمیم آفریدی نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں یہ کام سرکاری سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ پہلے یہ کام بڑی گاڑیوں میں ہوتا تھا اب پک اپ رکشہ اور موٹر سائیکل والے بھی کر رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان ایران سرحد پر طویل عرصہ سے پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ جاری ہے جس کا اب تک تدارک نہیں کیا گیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اسمگلنگ کم سے کم کرنے کیلئے کسٹمز اور ایف سی کا عملہ بڑھایا جائے۔ اس تجویز پر بلاتاخیر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ سرحد کے ساتھ ساتھ پاک ایران مشترکہ مارکیٹیں قائم کرنا بھی ضروری ہیں اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور اسمگلنگ میں کمی آئے گی لوگوں کیلئے روزگار کے دیگر مواقع پیدا کرنا بھی اس مقصد کے لئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اجلاس میں بتایا گیا کہ سرحدی علاقوں میں دو ہزار کلومیٹر شاہراہوں پر کوئی پٹرول پمپ نہیں، اسمگلنگ روکنے کیلئے قانونی پٹرول پمپ قائم کرنا بھی ضروری ہیں۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے پر حکومتی سطح پر سنجیدگی اختیار کی جائے اور قانون سازی کے ذریعے تادیبی اقدامات کے علاوہ لوگوں کیلئے روزگار کی سہولتیں بھی یقینی بنائی جائیں۔ ایران کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقے غربت و افلاس کا شکار ہیں۔ وہاں چھوٹے صنعتی زون بنانے سے بھی اسمگلنگ روکنے میں مدد ملے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین