• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی دیر انتظار کے بعد اچانک ہی دروازہ کھلا اور دو پولیس اہلکاروں کے نرغے میں وہ کمرے میں داخل ہوا۔ اگلے چند لمحوں میں پولیس اہلکار اسے سامنے کرسی پر بٹھا کر کمرے سے باہر جاچکے تھے، سانولی رنگت، اجڑے ہوئے بال، آنکھیں بالکل سرخ جیسے کافی دیر سے روتے ہوئے ابھی چپ ہوا ہو، سفید شلوار قمیص میں ملبوس میرے سامنے بیٹھا ہم وطن پاکستانی مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا، اس سے پہلے میں اس سے سلام دعا شروع کرتا اس نے اچانک اور غیر متوقع طور پر اپنا سر میرے اور اپنے درمیان موجود ایک مضبوط اور موٹے شیشے سے ٹکرانا شروع کر دیا۔ وہ دھاڑیں مار کر رو بھی رہا تھا اور فریاد بھی کر رہا تھا کہ مجھے یہاں سے نکالیں، میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ اسی شور شرابے کو سن کر پولیس اہلکار ایک بار پھر کمرے میں داخل ہوئے اور اسے خاموش کرانے کی کوشش کی لیکن وہ خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا لہٰذا وہ اسے اٹھا کر واپس لے جانے لگے تو میں نے پاکستانی بھائی سے خاموش ہونے کو کہا اور پولیس اہلکاروں سے اسے ایک موقع اور دینے کی درخواست کی جس کے بعد پاکستانی بھائی نے خاموشی اختیار کی اور پولیس نے اسے ایک موقع فراہم کیا۔ میں اس وقت جاپان کے ایک حراستی مرکز میں موجود تھا جہاں غیر قانونی طریقے سے جاپان میں داخل ہونے والے یا غیر قانونی طور پر جاپان میں رہائش اختیار کرنے والے افراد کو قید رکھا جاتا ہے۔ یہاں زیادہ تر وہ افراد تھے جو واپس اپنے وطن جانا نہیں چاہتے تھے یا ان کے کیس عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔ رمضان کے دنوں میں پاکستانی سماجی شخصیات خصوصی طور پر ایسے حراستی مراکز کا دورہ کرتی ہیں اور یہاں قید مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئے سحر و افطار سمیت نقد رقم بھی فراہم کرتی ہیں تاکہ ان مجبور و لاچار افراد کی کچھ مدد ہو سکے۔ میرے سامنے بیٹھے پاکستانی کی عمر 24برس تھی اس کا نام ارسلان تھا۔ یہ پنجاب کے ایک بڑے شہر سے تعلق رکھتا تھا اور ایک ایجنٹ کو 20لاکھ روپے کی خطیر رقم دے کر ویزہ لگوا کر جاپان پہنچا تھا۔ مزید تفصیل میں ارسلان سے ہی جاننا چاہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت انسانی اسمگلنگ کا رجحان بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، پاکستان میں مہنگائی میں شدید اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ملازمتیں نہیں ہیں، اب چند لاکھ سے کاروبار کرنا بھی ممکن نہیں لہٰذا گائوں کے ہر فرد کی یہ خواہش ہے کہ ان کے گھر کا ایک جوان بیرون ملک جاکر دولت کمائے اور گھر کے معاشی حالات بہتر کرے، جس کے لئے لاکھوں روپے درکار ہیں چونکہ ہمارے کئی خاندان والے جاپان اور کوریا میں مقیم ہیں لہٰذا میرے گھر والے مجھے جاپان ہی بھیجنا چاہتے تھے، ایجنٹ سے معاملات طے ہوئے، 20لاکھ روپے میں جاپان پہنچانے کی بات طے ہوئی جس کے بعد والد نے تمام جمع پونجی جس میں والدہ کے زیورات بھی شامل تھے جبکہ زمینوں میں سے دو ایکڑ زمین بھی گروی رکھوا کر 20لاکھ روپے جمع اور پھر ایجنٹ کے حوالے کئے جس کے چند ہفتوں کے بعد میرے پاسپورٹ پر جاپان کا ویزہ لگا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ویزہ اصلی ہے یا جعلی لیکن میں خوش تھا کہ اب جاپان جائوں گا، لاکھوں کمائوں گا اور گائوں میں اپنے سادہ سے مکان کو کوٹھی میں تبدیل کروں گا، پھر چند دنوں بعد پورا گھر مجھے لاہور ایئر پورٹ تک الوداع کہنے آیا، اس کے لئے بھی ادھار لیا گیا تھا، ایئر پورٹ پر ایجنٹ نے صرف اتنا کہا کہ جاپان امیگریشن پر کوئی بھی سوال کریں تو خاموشی اختیار کرنا اور جب باہر نکلنا تو ایک نمبر ایجنٹ نے دیا کہ اس پر فون کرنا، وہ بندہ تمہیں لینے بھی آئے گا، رہائش بھی دلائے گا اور کم سے کم تین لاکھ ماہانہ کی نوکری بھی لگوائے گا۔ ارسلان ایجنٹ کے دکھائے ہوئے انہی خوابوں میں گم جاپان پہنچا اور امیگریشن حکام نے چند منٹوں میں اندازہ لگا لیا کہ ویزہ جعلی ہے۔ پھر اس کو پوچھ گچھ کے کمرے میں بٹھا کر معلومات حاصل کیں، اسے واپس پاکستان بھیجنے کی آفر بھی کی لیکن وہ جان دینے پر تیار تھا کیونکہ جو ادھار اس کے گھر والوں پر چڑھ چکا تھا، جو زمینیں گروی تھیں اور جو خواب اس کے گھر والوں نے دیکھے تھے، وہ ٹوٹتے تو اس کے گھر میں کئی اموات ہو سکتی تھیں، لہٰذا اس نے جیل جانے کو ترجیح دی اور گزشتہ ایک ماہ سے وہ جاپان کی امیگریشن جیل میں ہے۔ 200سے زائد پاکستانی اس وقت جاپان کی امیگریشن جیل میں ہیں، سب کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں، پاکستان میں ایجنٹ مافیا سادہ لوح افراد کو باہر بھجوانے کا جھانسا دے کر لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، جاپان ہی نہیں یہ ایجنٹ لوگوں کو دنیا بھر میں غیر قانونی طریقے سے بھیج رہے ہیں۔ ایک طرف پاکستانی پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں، دوسری جانب پاکستان بھی عالمی سطح پر بدنام ہو رہا ہے۔ حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انسانی اسمگلنگ پر قابو پانے کے لئے موثر اقدامات کرے، روزانہ کبھی ایران کے راستے یورپ جانے والے پاکستانیوں کی اموات اور گرفتاریوں کی خبریں آتی ہیں، کبھی یورپ میں، کبھی دبئی میں تو کبھی سعودی عرب میں غیر قانونی پاکستانیوں کی گرفتاری کی خبریں آتی ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی بدنامی کا سبب بننے والوں کو گرفتار کرے، جہاں تک ارسلان کی بات ہے تو وہ اب بھی پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا، وہ جاپان کی جیل سے رہا ہوکر جاپان میں ہی ملازمت کرنا چاہتا ہے لہٰذا میں اسے اس کے حال پر چھوڑ کر باہر نکل آیا کیونکہ کئی اور پاکستانی میرا انتظار کر رہے تھے۔

تازہ ترین