• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سیاسی و فوجی قیادت کا علاقائی امن و استحکام کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا تجدیدِ عزم اس حکمت عملی کا مظہر ہے جس پر مملکتِ خداداد اپنے قیام کے وقت سے عمل پیرا رہی ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے، اقوام متحدہ کے امن دستوں کے ساتھ مل کر انسانی ابتلا کے علاقوں میں حالات معمول پر لانے، عشروں سے جنگ زدہ افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں میں سہولت کاری کرنے، فلسطین و کشمیر سمیت دنیا کے ہر حصے میں ظلم و ستم کے شکار افراد کو بنیادی حقوق دلانے اور کرۂ ارض کو ہر قسم کے خطرات سے بچانے میں تعاون پاکستان کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ کئی عشروں سے عالم اسلام کی مشکلات میں اضافے کا جو سلسلہ جاری ہے اس کا ہدف افغان جنگ کے شعلوں کی صورت میں خود پاکستان بھی بنا۔ بھارت کے مختلف شہروں اور افغانستان میں قائم قونصل خانوں سمیت کئی مقامات سے آپریٹ ہونے والے دہشت گردوں کی سرگرمیاں اگرچہ عوام اور فوج کے تعاون سے کچل دی گئیں لیکن کچھ عرصے سے ایک طرف پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے غیر ملکی نیٹ ورکس کو فعال کرنے کی واضح کوششیں سامنے آ رہی ہیں، دوسری جانب مشرق وسطیٰ کو کھنڈر میں تبدیل کرنے والی طاقتیں باقی ماندہ مسلم ممالک میں انتشار و عدم استحکام پیدا کرنے کا کام بڑی فنکاری سے کر رہی ہیں۔ دشمن قوتوں کا مسلم امہ کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار مسالک کے اختلافات، عرب وعجم کی تفریق اور دیگر تعصبات کو ابھارنا رہا ہے اور اب بھی ہے۔ سعودی عرب میں تیل کے کنوئوں کو نشانہ بنانے کی کوشش، یمن کی سنگین صورتحال، علاقائی سمندر میں غیر ملکی سفینوں کی سرگرمیوں اور دھمکیوں کے تناظر میں وطنِ عزیز کے آس پاس کا خطہ خطرے سے دوچار نظر آرہا ہے جبکہ پلوامہ حملے کا نام لے کر پاکستان پر ایک مکمل جنگ مسلط کرنے کی کوشش کو ہماری مسلح افواج کی مستعدی اور منتخب قیادت کے تدبر کے باعث ناکام بنایا جا چکا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن اور تل ابیب سے آنے والے بعض بیانات سے تہران کیلئے جنگ کے خطرات میں کسی قدر کمی کے اشارے ملتے ہیں پھر بھی مسلم ممالک کے باہمی اختلافات کو مصالحتی کوششوں کے ذریعے دور کرنے اور مسلم امہ کی بقا و سلامتی کیلئے مسلم ریاستوں کے درمیان اشتراک و ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں 30اور 31مئی کو اسلامی کانفرنس تنظیم کی سربراہی کانفرنس کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے۔ عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل کی سطح پر مشاورتی رابطے اور ایرانی وزیر خارجہ سمیت مسلم ممالک کے نمائندوں کے دورے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ اسلام آباد کے لئے صورتحال کی نزاکت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے بعض ایسی پیشگی شرائط عائد کر دی گئی ہیں جن کا بظاہر مقصد اسلام آباد کے لئے دوست ملکوں کی اعانت کے حصول میں تاخیر کا امکان پیدا کرنا معلوم ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں اگرچہ وطن عزیز کے لئے سنگین چیلنج مضمر ہیں تاہم اسے برادر مسلم ملکوں کے اختلافات دور کرنے اور ان کی بکھری ہوئی قوت مجتمع کرنے کی کوشش میں کردار ادا کرنے کی سعادت بھی ملی ہے۔ بدھ کے روز منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کی کارروائی اور وزیراعظم سے آرمی چیف کی ملاقات کی تفصیلات ظاہر کرتی ہیں کہ سعودی عرب کا یکم جولائی سے 3سال تک ہر ماہ تقریباً 12ارب روپے کا تیل ادھار دینے کا فیصلہ ادائیگیوں کا توازن بہتر بنانے کا ذریعہ بنے گا۔ دوسری جانب اندرونِ ملک حکومتی اقدامات کے نتائج کرنسی مارکیٹ میں ٹھہرائو اور ڈالر کا نرخ مستحکم کرنے کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اسٹاک مارکیٹ انڈکس میں 1195پوائنٹس کا زبردست اضافہ اور انڈیکس کی 34ہزار کی حد بحال ہونا بہتر صورتحال کی نشاندہی ہے، جبکہ مالی سال کے پہلے 10ماہ میں جاری کھاتوں کے خسارے میں 27فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ نتائج حکومتی اقدامات کے درست رخ پر ہونے کا اشارہ ہیں اور متقاضی کہ قومی زندگی کے تمام حلقے معیشت بہتر کرنے کی کوششوں میں ہر ممکن تعاون کریں۔

تازہ ترین