
مخدوم امین فہیم، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حاجی فضل قادر کے علاوہ فیڈریشن کے اعلیٰ عہدیداران، بزنس مینوں، تاجروں اور شہر کی معزز شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
تقریب کے روز پنڈال مہمانوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور ایوارڈ یافتہ ایکسپورٹرز کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے کیونکہ انہیں اس بات کی خوشی تھی کہ آج انہیں سال بھر کی محنت کا صلہ ملنے والا تھا۔ تقریب میں پاکستان کے وہ تمام ایکسپورٹرز موجود تھے جنہوں نے توانائی کے شدید بحران اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باوجود ملک کو 25 بلین ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ فراہم کیا تھا۔اس سال پاکستان بھر کے 54 سے زیادہ سرکردہ ایکسپورٹرز کو مختلف کیٹگریز کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ ایوارڈ کی فہرست میں ایسی کیٹگریز بھی شامل تھیں جو اُن اداروں یا شخصیات کیلئے مختص تھیں جنہوں نے کارپوریٹ سوشل رسپونسیبلٹی (CSR) کے تحت سماجی خدمات انجام دی ہوں۔ پاکستان میں لوگ CSR سے اتنے واقف نہیں مگر آہستہ آہستہ اداروں میں اس کے بارے میں آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔ CSR کا مقصد کروڑوں روپے کا منافع کمانا ہی نہیں بلکہ ان اداروں پر یہ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کہ وہ معاشرے کو بدلے میں کیا دے رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں ادارے CSR کی مد میں سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں جس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بل گیٹس کی کمپنی مائیکرو سافٹ ہر سال CSR کی مد میں اربوں ڈالر مختص کرتی ہے۔ مجھے اس بات پر بڑا فخر ہے کہ CSR کے تحت دیا جانے والا گولڈ میڈل صدر پاکستان نے مجھے میک اے وش پاکستان کے بانی صدر کی حیثیت سے میری سماجی خدمات کے صلے میں عطا کیا اور گولڈ میڈل پہناتے ہوئے صدر پاکستان نے میک اے وش فاؤنڈیشن پاکستان کی سماجی شعبے میں خدمات کو بھی سراہا۔ اس کے علاوہ ہمارے ادارے بیگ گروپ نے ڈینم فیبرک کی بہترین ایکسپورٹ پر ایکسپورٹ ٹرافی بھی حاصل کی جو میرے بھائی اختیار بیگ نے وصول کی۔
یہ مسلسل 14 ویں مرتبہ ہے کہ ہمارے گروپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔ ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ کی ایک کیٹگری نوجوان ایکسپورٹرز کیلئے مختص کی گئی تھی جس کا مقصد یوتھ کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔ اس کیٹگری میں ایک نوجوان لڑکی نے اسپیشل ایکسپورٹ ایوارڈ حاصل کیا جس کی کمپنی کی ایکسپورٹ اتنی زیادہ تو نہیں تھی مگر ایوارڈ دے کر سراہنے سے ان میں جذبہ پیدا ہوگا اور کل آگے چل کر ان کا شمار ملک کے بہترین ایکسپورٹرز میں ہوگا۔ صدر پاکستان نے اپنی تقریر میں ایکسپورٹرز کو یقین دلایا کہ ”حکومت ان کی مشکلات سے غافل نہیں اور بہت جلد توانائی کے بحران اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال پر قابو پالیا جائے گا اس لئے ایکسپورٹرز بددل نہ ہوں“ جس کا بزنس کمیونٹی نے خیر مقدم کیا۔
موجودہ حالات میں جب ملک توانائی کے شدید بحران اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا شکار ہے ایسے میں ایکسپورٹ ہدف کا حصول خوش آئند بات ہے جس کا تمام تر سہرا بزنس کمیونٹی خصوصاً ایکسپورٹرز کو جاتا ہے۔ ایکسپورٹ ٹرافی ایوارڈ ملنے سے جہاں ایک طرف ایکسپورٹرز میں ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی خدمات کو سراہا گیا وہاں اُس ایکسپورٹرز کے ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور جن بیرونی کمپنیوں کو آپ اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے ہیں انہیں ایک مثبت پیغام جاتا ہے کہ جس کمپنی سے وہ کاروبار کررہے ہیں اس کمپنی کو حکومتی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے جس سے ان کے اعتماد میں اضافہ اور اس کمپنی کی مصنوعات پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔
گزشتہ مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی تقریباً 3.7 فیصد رہی اور ہم نے 2 فیصد جی ڈی پی توانائی کے بحران جبکہ ایک فیصد امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث ضائع کردی، اس طرح تقریباً 630/ارب روپے ہم نے جی ڈی پی کی مد میں ان 2 مسائل کے باعث ضائع کر دیئے جبکہ ان مسائل کی وجہ سے گزشتہ سال ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر رہی۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت میں کمی تب ہی آسکتی ہے جب پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 5 سالوں تک متواتر سالانہ 6 فیصد ترقی کرے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقت کا ضیاع کئے بغیر ہنگامی بنیادوں پر طویل المدت اور مختصر المدت توانائی کے منصوبے شروع کرے۔ طویل المدت منصوبوں میں نئے ڈیمز کی تعمیر جبکہ مختصر المدت منصوبے میں پاک ایران گیس پائپ لائن جیسا منصوبہ شامل ہے۔
مجھے ایک ایرانی سفارتکار نے بتایا کہ ایران اپنے حصے کی گیس پائپ لائن پاکستان کی سرحدوں تک بچھاچکا ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے781کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر پر ابھی تک کوئی پیشرفت نہ ہونے کے برابر ہے جس کی تعمیر کیلئے پاکستان کو ایک ارب 50 کروڑ ڈالر درکار ہیں۔ اگر پاکستان اس منصوبے پر ڈیفالٹ کرتا ہے تو اسے معاہدے کی رو سے بڑی پینلٹی ادا کرنا ہوگی جبکہ ایران نے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے پاکستان کو قرضے کی بھی پیشکش کی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکہ کو یہ باور کرایا جائے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ایران پر پابندیاں عائد ہونے سے پہلے طے پایا تھا اس لئے یہ منصوبہ ایران پر عالمی پابندیوں کے زمرے میں نہیں آتا اور دباؤ میں آئے بغیر اس منصوبے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ ملک کو توانائی کی شدید قلت سے چھٹکارا حاصل ہو اور پاکستان کی صنعت پوری استعداد سے کام کر سکے جس سے ایکسپورٹ کی صورت میں بیرونی زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور بیروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی جس کی پاکستان کوآج اشد ضرورت ہے۔