• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اپنی ہمسائیگی کے اعتبار سے خوش قسمت نہ رہا، ایک طرف بھارت تھا جو تقسیم ہند کے خلاف اور قیام پاکستان کا مخالف تھا تو دوسری طرف ہمارے برادر اسلامی ملک افغانستان نےبھی حقائق کو تسلیم نہ کرتے ہوئے علی الاعلان قیام پاکستان کی مخالفت کی اوراب تک مخالفانہ رویہ جاری رکھے ہوئے ہے۔معاملات تاریخ کا حصہ ہیں کہ بھارت نے کس طرح کشمیر پر بزور بندوق قبضہ کرکے پاکستان پر 1948ءمیں جنگ مسلط کر دی اور جب معاملات ہاتھ سے جاتے دیکھے تو اقوام متحدہ کا رخ کیا اور کشمیر کے جسدکو ایک لکیر سے دو حصوں میں ایسا تقسیم کیا کہ لاکھوں کشمیریوں کے لہو سے بھی یہ لکیر دھل نہیں پائی کہ زنگ آلود عالمی ضمیر پر خون مسلم سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں بلکہ دنیا کو امن کی ضمانت اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی آبرومندانہ حل نہیں نکل آتا۔باقی سارے معاملات گویا ضمنی ہیں اصل قضیہ یہی ہے جو بھارت کی ڈھٹائی اور کہہ مکرنی کی مثال ہے کہ اس نے 70برس گزرنے کے باوجود کشمیریوں کا حق رائے دہی نہیں دیا۔کشمیر کے علاوہ بھارت کا دوسرا مسئلہ پاکستان سے خودساختہ ازلی دشمنی ہے ،جو ہمیں تقسیم ہند کے وقت عروج پر دکھائی دی اور پاکستان کے برعکس بھارت میں روز افزوں رہی، ولبھ بھائی پٹیل ایسے شدت پسند اسے بڑھاوا دیتے رہے اور اس کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’ہمیں پاکستان کو دوبارہ بھارت کا حصہ بنانے تلک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے‘‘ولبھ بھائی پٹیل لوگوں کے جذبات کے ساتھ کامیابی سے کھیل کھیلتا رہا لیکن افسوس کہ بھارت میں سیاست کا چلن ہی مسلم اور پاکستان دشمنی بن گیا۔دونوں ملک جنگ آزما بھی ہوئے اور ابھی چند ماہ قبل توحالات اس نہج پر آن پہنچے تھے کہ کوئی دن اس اندیشے سے خالی نہ گزرتا تھا کہ جنگ اب ہوئی کہ تب !پٹیل کے پیرو کار نریندر مودی کیا چاہتے تھے خودبھارت کے سنجیدہ اور باشعور حلقوں نے اس کی علانیہ مذمت کی کہ مودی اپنی سیاست کیلئے فوج اور جنگ سے گریز کریں!مودی نے یہ بازی البتہ اپنے تئیں بڑی ہوشیاری سے کھیلی اور وہ جو چاہتے تھےحاصل کرلیا یعنی ایوان زیریں کی 542میں سے 350سیٹیں بی جے پی اور اتحادیوں کی ہیں جو ایک بڑی کامیابی قرار دی جا ر ہی ہے ۔نریندر مودی نے اسے جمہوریت کی کامیابی قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر مودی کو مبارک باد دیتے ہوئے خطے میں امن و خوشحالی کیلئے مل کر کام کرنے کی امید ظاہر کی، انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن اور خطے کی ترقی و خوشحالی کیلئے مودی کے ساتھ کام کرنے کیلئے پُرامیدہوں، جواب میں مودی نے کہا کہ وہ عمران خان کی نیک خواہشات پر شکر گزار ہیں ہم نے ہمیشہ خطے میں امن کو ترجیح دی۔یہ حقیقت ہے کہ اپنی سیاست کیلئے ایسے کھیل بھارتی سیاستدان عرصہ درازسے کھیلتے آئے ہیں ، جیسا کہ مودی نے پلوامہ اور اس کے بعد کھیلا، بلاشبہ اس کا سہرا پاکستان کے سر ہے کہ اس نے تدبر و تحمل کا ثبوت دیا اور خطے کے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں محفوظ بنائیں۔اس کے باوجود کہ وزیر اعظم مودی کا کردار مثبت نہیں رہا، بھارت میں ان کی انتخابی کامیابی ’’جارحیت پسندی‘‘ کی دلیل بھی قرار دی جارہی ہے ۔عموماً یہ ہوتا ہے کوئی بھی شخص اپنی دوسری مدت اقتدار میں پہلے سے مختلف ہوتا ہے ،چنانچہ باخبر رہنا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔امید ہے کہ اب نریندر مودی ایک حقیقی مدبر اور امن پسند رہنما جیسا رویہ اختیار کریں گے۔ مثبت انداز میں مختلف ہوں گے ۔وزیر اعظم پاکستان نے اپنے اسی قومی بیانیے کا اظہار کیا ہے جو فروری میں بھارتی پائلٹ کی رہائی کے وقت کیا تھا۔بھارت کے باشعور اور دانشور طبقات کو بھی اب آگے آنا ہو گا، وہ ماضی کی تلخیوں کو جو خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے سر پر ایٹمی جنگ کی تلوار لٹکائے ہوئے ہیں، دفن کرنے کی سعی کریں گے۔یہ امید بے جا نہیں کہ اب بھارت حکومتی سطح پر معاملات حل کرنے سے کاوشوں کا آغاز کرے گا تاکہ یہ خطہ پائیدار امن کی طرف اپنا سفر شروع کر سکے۔

تازہ ترین