• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین نیب کا معاملہ، کڑیاں PMہائوس سے جوڑنا مناسب نہیں، فردوس عاشق

کراچی (ٹی وی رپورٹ)مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نےکہا ہے کہ چیئرمین نیب کے معاملے پر پارلیمانی کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں، ڈیس انفارمیشن کا ایشو ہے تو ڈیس انفارمیشن قانون موجود ہے، چیئرمین نیب کے واقعے کی کڑیاں وزیراعظم ہائوس سے جوڑی جارہی ہیں جو نامناسب ہے، زرداری ، پرویز مشرف کے مقابلے میں عمران خان کی ترجمانی آسان ہے کیونکہ ان پر کرپشن کا داغ نہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔میزبان سلیم صافی نے چاند کے معاملے میں تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے پوری کوشش کی مفتی منیب الرحمن اس پروگرام کا حصہ بنیںلیکن وہ شمولیت پر آمادہ نہیں تھے۔ انہوں نے اپنا ردِ عمل ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے دیا ہے جس میں انہوں نے ہمارے پروگرام اور کالم میں اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دینے کے بجائے صرف مجھ پر طنز کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ جس روز مفتی منیب اعلان کر رہے تھے کہ رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اسی وقت دوسری طرف پشاور میں مفتی شہاب الدین اعلان کر رہے تھے کہ ایک درجن سے زائد لوگوں نے چاند دیکھا ہے سوال یہ ہے کہ کیا پشاور پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور ان دونوں مفتیوں میں سے کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے ، مفتی منیب فرماتے ہیں کہ رویت کے معاملے پر شریعت کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے لیکن کیا شریعت کی منشاء صرف مفتی منیب ہی جانتے ہیں، اخلاقیات کا تقاضا نہیں کہ انہیں اس مصنب سے خود ہی ہٹ جانا چاہیے۔ جس وقت مفتی منیب الرحمن اعلان کر رہے تھے کہ چاند نظر آنے کی شہادت نہیں ملی اسی وقت لنڈی گوتل میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر زادہ نورالحق قادری کی مسجد میں لوگ تراویح کی تیاری کر رہے تھے اب اس کمیٹی سے بڑھ کر متنازعہ مذہبی کمیٹی اور کیا ہوسکتی ہے۔ مفتی منیب صحیح فرماتے ہیں کہ شریعت کے مطابق ہی فیصلہ ہونا چاہیے لیکن کیا شریعت کی منشاء کیا مفتی منیب ہی جانتے ہیں کیا اس ملک میں کوئی دوسرا عالم دین نہیں جو اُن کی طرح متنازعہ نہ ہو مفتی منیب کی کمیٹی ایک ایگزیکٹو آرڈر سے قائم ہوئی ہے جبکہ ا سکے برعکس میں نے جس ادارے کی طرف معاملے کو لوٹانے کی بات کی تھی وہ آئینی ادارہ ہے یعنی اسلامی نظریاتی کونسل ۔ کیا اخلاقیات کا تقاضہ نہیں ہے کہ کسی منصب یا جگہ پر اگر لوگوں کا تنازعہ ہو تو اس منصب سے وہ شخص خود ہی ہٹ جائے۔ ملک کی سلامتی کے حوالے سے اس معاملہ کو منفی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے خیبرپختونخو فاٹا میں پختونخوں کو بتایا جاتا ہے اس ریاست میں چاند کے حوالے سے آپ کی گواہی بھی تسلیم نہیں کی جاتی یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ ملک کا درد رکھنے والے لوگوں کے لئے بڑا اور اہم بن جاتا ہے۔ ہماری خواہش ہوگی آپ کو بڑے سے بڑا منصب حکومت دے دے ہم چاہتے ہیں کہ اُن سوالوں کا جواب ملے یاپھر یہ حکومت جس کے ایک آرڈر پر آپ بیٹھے ہیں وہ اس کمیٹی کے لئے کسی ایسے عالم دین کوآپ جیسے عالم دین کو ہم جیسے عام انسان کو نہیں یقینا جو دوسرا شخص آپ کی جگہ پر بیٹھا ہوگا تو وہ بھی شریعت کے مطابق فیصلہ کرے گا ہم اس مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اور امت کا اتفاق چاہتے ہیں۔مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ زندگی میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں آپ جیسے گائیڈ کرنے والے ساتھ ہوں تو معاملات آسان ہوجاتے ہیں۔ چیئرمین نیب کے واقعے کی کڑیاں وزیراعظم ہائوس سے جوڑی جارہی ہیں جو نامناسب ہے، وزیراعظم نے نیب کو استحکام دیا گزشتہ دور کے روایتی طریقوں سے نکل کر نیب کو ریاستی ادارہ مانتے ہوئے انہیں سپورٹ کیا۔ چیئرمین نیب کہتے ہیں بابر اعوان اور فردوس عاشق اعوان کے کیسز کے بارے میں دبائو ہے۔ اسکے جواب میں فردوس عاشق نے کہا کہ وہ اسکی تردید کرچکے ہیں۔ جاوید چوہدری کو چاہیے کہ درخواست دیں کہ میں نے صحیح لکھا ہے اور چیئرمین نیب غلط کہہ رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے چینل سے چیئرمین نیب کے حوالے خبر چلی اسکے جواب میں فردوس عاشق کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے وزیراعظم نے ناصرف اسکی مذمت کی بلکہ ایکشن بھی لیا ۔ پیمرا نے انہیں نوٹس بھی دیا ہوا ہے اور چھ دن کا وقت دیا ہے کہ وہ ثابت کریں۔ توانائی کا محکمہ ایک وزیر چلا سکتا ہے انفارمیشن کا کیوں نہیں چلا سکتا کیا آپکی صلاحیتوںپر اعتماد نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ پہلے سے ٹیم بنی ہوئی ہے حکومت آنے کے بعد اس ٹیم نے جاری رکھا جب سے میں آئی ہوں بہت سی چیزیں دیکھ رہی ہوں اور چاہتی ہوں کہ اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا کروں۔نیب کو ایسے حکومتی لوگوں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے جو غلط ہیں ۔ علی محمد خان نے جو درخواست سعودی سفیر کو لکھی ہے اس حوالے سے فردوس عاشق نے کہا یہ میرے نوٹس میں نہیں ہے پہلے میں چیک کرلوں پھر اس پر بات کرسکتی ہوں، اس طرح نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی طور پر میچورٹی کی ضرورت ہے ۔ کچھ ڈپلومیٹک آداب ہیں ہمیں اپنی نیشن کی خودداری کو گروی نہیں رکھنا چاہیے ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان الطاف احمد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے چھ مئی کو انتخابی الیکشن پروگرام دیا تھا اور اس پر انتہائی جوش و خروش پایا جاتا ہے ایک تاثر یہ بنا ہے جس کو زائل کرنا ضروری سمجھتا ہوں عام لوگ سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی سے ترمیمی بل پاس ہونے کے بعد اپنی انتخابی سرگرمیاں روک دی ہیں ایسی کوئی بات نہیںہے۔احمد بلال جو پلڈاٹ کے سربراہ ہیں انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ جو خیبرپختونخوا اسمبلی کے لئے اگر ایک حلقہ میں بارہ امیدوار تھے تو یہاں چھبیس سامنے آئے ہیں اسکے جواب میں ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی بھی قرارداد کا کسی بھی فورم پر الیکشن پروگرام پر کوئی اثر نہیں پڑے گااور ہم صرف آئین کے تحت چلیں گے آئین میںیہ ہے کہ آرٹیکل 106 میں ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بائونڈ ہے کہ چھبیس جولائی 2018 ء؁ سے 25 جولائی 2019 ء؁ تک الیکشن کمیشن انتخابات کرائے گا یہ کافی مشکل مرحلہ ہے تھا جس سے ہم گزر کر آئے ہیں ۔

تازہ ترین