• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز اِن دنوں جس نوعیت کے معاشی بحران سے دوچار ہے، اس کا اندازہ عوام کی بدحالی سے بہ خُوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ یا ڈالر کی اونچی اُڑان پاکستانی روپے کو بے قدر کرتی رہے، اس کی ذمّے داری سابقہ حکومتوں پر ہو یا پھر اسے موجودہ حکومت کی نااہلی قرار دیا جائے، قصور داخلی پالیسیز کا ہو یا بدلتی عالمی صُورتِ حال اس کی وجہ ہو، لیکن سزا بے چارے عوام ہی کو بھگتنی پڑ رہی ہے، جیسے ان بدتر معاشی حالات کے اصل ذمّے دار وہی ہوں، حالاں کہ عوام تو اس معاملے میں بے قصور ہیں۔ یوں تو منہگائی کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن حالیہ چند ماہ کے دَوران اس میں جس رفتار سے اضافہ ہوا ہے، اُس نے عام افراد بالخصوص تن خواہ دار طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے کہ منہگائی میں ہوش رُبا اضافے کے باوجود، اُس کے وسائل بدستور محدود ہی رہے۔پھر یہ بھی کہ اِن حالات میں تن خواہ دار طبقے اور دیگر سفید پوش افراد کا کوئی پُرسانِ حال بھی نہیں۔ بدقسمتی سے بعض کاروباری طبقے، جو ماہِ صیام کو ایک’’سیزن‘‘ کے طور پر زیادہ سے زیادہ آمدن کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہرسال اس مقدّس ماہ کا تقدّس پامال کرتے ہیں، اس بار تو انھوں نے تمام حدود پھلانگ ڈالیں، جس کا سب سے زیادہ اثر تن خواہ داروں ہی پر پڑا اور اُنھوں نے اس بار جس طرح روزے رکھے، یہی کہا جا سکتا ہے کہ’’قبر کا حال مُردہ ہی جانتا ہے۔‘‘ جمعہ اور اتوار کے بعد’’ سَستا بازار‘‘ کے نام پر منہگے داموں ناقص اشیاء بیچنے کا سلسلہ پورا رمضان جاری رہا، جس سے واقعی لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ یہاں تک کہ جنھوں نے پی ٹی آئی کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دے کر کام یاب کروایا، اُسے برسرِ اقتدار لائے تھے، وہ انہی سَستے رمضان بازاروں میں ان نئے حکم رانوں کو شان دار الفاظ سے’’خراجِ تحسین‘‘ پیش کرتے نظر آئے۔ اب لوگ حکومتی ترجمانوں اور بیان باز رہنماؤں کی طِفل تسلّیوں سے مشتعل ہونے لگے ہیں اور اگر یہ صُورتِ حال مزید کچھ عرصہ جاری رہی، تو پھر وہ دن دُور نہیں، جب بِپھرے عوام کسی رہبرو رہنما کے بغیر ہی اپنی قیادت خود کرتے ہوئے حالات بدلنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں گے۔ شاید اسی صُورتِ حال کو بھانپتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے عید الفطر کے بعد حکومت اور منہگائی کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کے اعلان کے مطابق، جو بلاول بھٹّو کی جانب سے دیئے گئے افطار ڈنر کے موقعے پر منعقدہ مشاورتی اجلاس کے بعد جاری کیا گیا’’ عید کے فوری بعد آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی، جس کے کنوینئر، مولانا فضل الرحمان ہوں گے اور اس کانفرنس میں باضابطہ طور پر تحریک چلانے کے حتمی فیصلے اور وقت کا تعیّن کیا جائے گا۔‘‘ صرف یہی نہیں، بلکہ عید کے بعد اور بھی بہت کچھ ہونا ہے، جس کے لیے تیاریاں خاصے عرصے سے کی جارہی تھیں، لیکن پہلے اپوزیشن کی تحریک کے حوالے سے کچھ بات ہوجائے۔

عام تاثر یہی ہے کہ اپوزیشن نے عید کے بعد عوام کی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے منہگائی اور حکومتی اقدامات کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن درحقیقت یہ تحریک اپنے قائدین کی جیلوں سے رہائی اور نیب مقدمات میں عدالتوں میں طلبی کے خلاف ایک احتجاج ہوگا، جس میں عوام کی شرکت اور اُن کی ہم دردی حاصل کر کے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا، کیوں کہ کوئی ڈیل ہوئی اور نہ ہی اپوزیشن رہنماؤں کو ڈھیل ملی۔ سابقہ حکم رانوں کے لیے صُورتِ حال جُوں کی تُوں ہے، اِس لیے ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مِصداق اپوزیشن نے حکومت کو اپنے مطالبات تسلیم کروانے پر مجبور کرنے کے لیے منہگائی کے نام پر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ وگرنہ منہگائی اور عوام کو درپیش مشکلات کوئی آج کا واقعہ تو نہیں، موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے ساتھ ہی یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جہاں تک عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کا تعلق ہے، اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو اے پی سی کا کنوینئر مقرّر کیا گیا ہے، جن کی جماعت، پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بعد تیسرے نمبر پر آتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (نون)، جس کی قیادت جیل میں ہے۔ شریف خاندان مسلسل مصائب کا شکار ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی، جس کے قائدین، ذوالفقار علی بھٹّو اور محترمہ بے نظیر بھٹّو نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی، وہ ایک چھوٹی پارٹی کی برتری، قیادت اور رہنمائی محض اس لیے قبول کرلیں گی کہ ایک مسلک کے پیروکار اُس کے ساتھ ہیں اور وہ بھی ایسی صُورتِ حال میں جب اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی’’ نئی قیادت‘‘ حکم رانی کے خواب دیکھ رہی ہو۔ مولانا فضل الرّحمان نے بلاول بھٹّو کے افطار ڈنر کے تین دن بعد ایک ویڈیو کلپ جاری کیا کہ’’ اے پی سی کا اجلاس عید کے فوری بعد بلایا جائے گا، جس کے بعد احتجاجی تحریک کا فیصلہ ہوگا، تاہم جمعیت علمائے اسلام انتخابات میں دھاندلی اور دیگر حکومتی اقدامات کے خلاف پہلے ہی سڑکوں پر ہے۔ عید سے پہلے جن ملین مارچز کے شیڈول کا اعلان کیا جاچُکا ہے، وہ پروگرام کے مطابق ہی ہوں گے، اگر اس احتجاج میں دوسری سیاسی جماعتیں شامل ہونا چاہیں، تو اُن کا خیرمقدم کیا جائے گا۔‘‘ مولانا کو اپنا یہ مؤقف بیان کرنے کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟’’ عقل مند را اشارہ کافی است۔‘‘نیز، جماعتِ اسلامی نے احتجاج کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ کسی تعلق کا اظہار نہیں کیا۔ امیر جماعتِ اسلامی، سراج الحق نے واضح کیا کہ وہ موجودہ حکومت سے متعلق تحفّظات رکھتے ہیں، جن کے اظہار کے لیے عید کے بعد احتجاج بھی کریں گے، لیکن جماعتِ اسلامی کا یہ احتجاج انفرادی طور پر ہوگا۔ پشتون خوا ملی پارٹی نے بھی اس حوالے سے کوئی واضح یقین دہانی نہیں کروائی۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود، عید کے بعد کوئی نئی اور غیر متوقّع صُورتِ حال بھی سامنے آ سکتی ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کو اُن کے بعض رفقا مسلسل مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ قوم سے خطاب میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کردیں اور حکومت کے خلاف اُن سازشوں کو بے نقاب کریں، جس کی وجہ سے اُنہیں ناکام حکم ران قرار دیا جارہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُن سے پہلے مسلم لیگ( نون) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی سوچ پر عمل کرکے حکومت کے لیے ایک بڑا بحران پیدا کردیں اور یہ بھی ناممکن نہیں کہ اس ساری صُورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے اہم ادارے اپنا کردار ادا کریں۔ عید کے بعد یا کچھ عرصے بعد بہت سے لوگوں کے لیے ایک نئی آزمائش کا مرحلہ شروع ہوگا۔ دُعا کرنی چاہیے کہ جو بھی ہو، مُلک و قوم کے حق میں بہتر ہو۔علاوہ ازیں، بعض حلقے موجودہ نظام کے بارے میں کچھ زیادہ پُراعتماد نہیں۔ وہ سرگوشیوں میں اس حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اپنے مؤقف کے حق میں مختلف دلائل، مفروضے اور حقائق بھی پیش کرتے ہیں، جن میں ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ مُلک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کو تین، تین بار اقتدار ملا اور وہ ڈیلیور نہ کرسکیں۔ 16نومبر 1988 ء کو مُلک میں ہونے والے عام انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹّو پہلی مرتبہ مُلک کی وزیرِ اعظم بنیں، لیکن صرف 20 ماہ بعد اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت کو بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات پر برطرف کر دیا۔ پھر 2 اکتوبر 1990ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ کے سربراہ، نوازشریف وزیرِ اعظم بن گئے، لیکن تین سال بعد 1993ء میں غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت کو بھی اُسی نوعیت کے الزامات عائد کرکے ختم کردیا، جو بے نظیر بھٹّو کی حکومت پر لگائے تھے، تاہم1993 ء کے عام انتخابات میں عوام نے بے نظیر بھٹّو پر عائد الزامات مسترد کرتے ہوئے اُنہیں دوبارہ وزیرِ اعظم منتخب کیا، لیکن شومئی قسمت، سردار فاروق احمد لغاری نے، جنہیں وہ اپنا بھائی کہتی تھیں اور اُنہیں صدرِ مملکت کا منصب تفویض کیا تھا، غلام اسحاق کا کردار دُہراتے ہوئے مُلک میں بدامنی، ماورائے عدالت قتل اور کرپشن کے الزامات کے تحت اُن کی حکومت ختم کردی۔ میاں نوازشریف1997 ء میں دوبارہ وزیرِ اعظم بنے، تو 1999 ء میں فوجی حکم ران، جنرل پرویز مشرف نے اداروں سے تصادم کو جواز بناتے ہوئے اُن کا تختہ اُلٹ دیا اور نواز شریف کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔

وہ 2013 ء سے 2017 ء تک تیسری بار وزیرِ اعظم رہے مگر ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس سے قبل 2007ء سے 2013 ء تک مُلک پر پیپلز پارٹی کی حکم رانی تھی۔ پھر مُلک میں دو جماعتی نظام ختم ہوا اور پاکستان تحریکِ انصاف کو موقع ملا، جس کی عوام نے بھی تائید کی اور پاکستان تحریکِ انصاف کو پسند نہ کرنے والوں نے بھی یہ سوچ کر کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ( نون) کی بجائے عمران خان کو بھی ایک موقع دینا چاہیے، جن کا ’’پلس پوائنٹ‘‘ اُن پر کرپشن کا کوئی الزام نہ ہونا تھا اور پھر کرکٹ کے حوالے سے اُن کا گلیمر بھی تھا۔ لیکن اللہ خیر کرے! خود وزیرِ اعظم پر تو کرپشن کے الزامات نہیں، لیکن اِس مرتبہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں بیڈ گورنینس اور نااہلی کا الزام نتیجہ خیز ثابت نہ ہوجائے۔

زرداری ہاؤس کا افطار ڈنر اور تضادات

وفاقی دارالحکومت کے انتہائی منہگے رہائشی سیکٹر F-8 میں واقع’’ زرداری ہاؤس‘‘، میں کسی زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹّو بھی قیام کیا کرتی تھیں اور اُن کی اسلام آباد میں موجودگی کے موقعے پر یہ گھر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہتا۔ گو کہ اُن کی زیادہ مصروفیات اسلام آباد کے پارٹی سیکرٹریٹ میں ہوا کرتیں، لیکن ذاتی مہمانوں کے اعزاز میں، جن میں مُلکی و غیرمُلکی شخصیات شامل ہوتیں، ظہرانے اور عشائیوں کا اہتمام زرداری ہاؤس ہی میں کیا جاتا۔ زرداری ہاؤس، اُن کے شوہر نے خریدا تھا اور آج بھی اُن ہی کے نام پر ہے، بعد میں زرداری صاحب نے اس گھر کے اطراف، سامنے اور عقب میں واقع گھر بھی خرید لیے۔ بے نظیر بھٹّو کی سیاسی اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کے دَوران اس گھر میں کئی سیاسی اتحادوں کے اجلاس ہوئے اور نئے اتحادوں کی بنیاد رکھی گئی، تاہم رواں ماہِ رمضان میں یہ پہلا موقع تھا کہ زرداری ہاؤس میں کسی حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد کے قیام کے لیے مشاورت ہوئی اور تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سیاسی اجتماع کا اہتمام پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹّو نے افطار ڈنر پر کیا، جس میں اپوزیشن کی اہم جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(نون)، پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، جماعتِ اسلامی کے قائدین یا پھر اُن کی نمائندگی موجود تھی۔ اس اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور اس حوالے سے حکمتِ عملی وضع کرنے کے لیے کیا کچھ ہوا، کون ناراض تھا، کس کے تحفّظات تھے، کون مایوس نظر آیا اور کون شاداب و مسرور، اس سے قطع نظر ان رہنماؤں نے اجلاس کے اختتام پر میڈیا کو بتایا کہ عید کے بعد اپوزیشن کی مجوّزہ تحریک کا مرکزو محور معاشی بدحالی، بڑھتی بے روزگاری اور منہگائی ہوگا، لیکن اس گفتگو کے تضاد کا ایک دوسرا منظر بھی تھا۔ افطار ڈنر میں شرکت کے لیے آنے والے رہنما جن جدید ماڈلز کی گاڑیوں میں آئے تھے، اُن کی قیمتیں لاکھوں، کروڑوں میں تھیں۔نیز، افطار ڈنر میں انواع واقسام کے پرتعیّش کھانوں کا اہتمام کیا گیا، جن پر آنے والے اخراجات سے بلاشبہ متعدّد گھرانوں کے کئی ماہ تک چولہے جل سکتے تھے، بچّوں کی اسکولز کی فیسز ادا ہوسکتی تھیں، پانی، بجلی، گیس کے بل ادا ہوسکتے تھے۔ اپنے بے پناہ وسائل اور اختیارات سے دنیا بھر کی نعمتوں پر دست رَس رکھنے والوں کو، جو واقعتاً منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیداہوئے، کیا معلوم کہ اس مُلک کے عوام کی زندگیوں کے عذاب کیا ہیں اور کیا واقعی ایسے لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ محلّات میں بیٹھ کر جھونپڑیوں اور پانچ مرلے کے کرائے کے مکانوں میں رہنے والوں کی نمائندگی یا ترجمانی کریں…!!

تازہ ترین