• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ سیانی، وقت کے ساتھ ساتھ سمجھدار، ماضی کے تلخ تجربات سے آشنا خواتین سوشل میڈیا پر آج کل کچھ اس طرح سے چٹ چیٹ میں مصروف اور ایک دوسرے کو کوسنے دیتی نظر آتی ہیں کہ ماں باپ کو رشتہ کرتے وقت کم از کم یہ تو ضرور دیکھنا چاہئے تھا کہ لڑکا کچھ کمانا بھی جانتا ہے کہ نہیں۔ صرف ہینڈ سم ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہاں میں ہاں ملاتی دوسری خاتون نے کہا:ہینڈ سم نکھٹو تو بھوکا مار دیتے ہیں۔ خواتین کی گفتگو میں پنگا لیتے ایک بدشکل نوجوان نے یہ ڈینگ ماری کہ ووٹ دیتے ہوئے بھی تو یہ خیال رکھنا چاہئے تھا، جو آج ایک دوسرے کو کوسنے دے رہی ہو۔ نوجوان نے فقرہ کسا اور چیٹ روم سے دوڑ لگا دی۔ اسی گفتگو میں کسی تیسرے نے شوشا چھوڑا کہ ڈالر بھی نیازی ہو گیا ہے کہ کسی جگہ ٹھہرتا ہی نہیں۔ ایک شخص اسی دوران چیخ کر بولا:آخر ڈالر نے اور کتنے یوٹرن لینے ہیں۔ کیا سنائیں جتنے منہ اتنی باتیں، کس کس کی زبان کو تالا لگائیں، سوشل میڈیا کے کس کس اکائونٹ کو بلاک کریں، آج کل کے لوگ بھی بڑے فنکار ہو گئے ہیں، آئے دن نت نئے فقرے ایجاد کرتے ہیں، پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتے ہیں، بھوک، افلاس اور تنگدستی کے دور میں وقت گزاری کے یہی طور طریقے باقی رہ گئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال فواد چوہدری صاحب کا ہے کہ جب سے وزارت اطلاعات و نشریات کا حشر نشر کرکے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں پہنچے ہیں، آئے دن کوئی نہ کوئی نیا شوشا چھوڑ رہے ہیں کہ رہے اللہ کا نام۔ معاملات کی حساسیت کا اندازہ کئے بغیر عید الفطر سے ٹھیک پندرہ دن قبل ہی ’’چن‘‘ چڑھا دیا ہے۔ دوسری طرف رویتِ ہلال کمیٹی ہے کہ ان کے فیصلوں کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اس بار بھی قوم کو عید الفطر پر ایک شاہکار کامیڈی فلم دیکھنے کو ملے گی اور فواد چوہدری صاحب اپنے کرشمہ ساز سائنسی تجربات کی بنیاد پر 4جون کو چاند زمین پر اتار ہی لیں گے۔ دلوں کا حال تو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ آخر حکمران عوام کو کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔ خان صاحب! سچ پوچھیں اب تو اخیر ہو گئی ہے۔ آپ نے تو عوام کے کڑاکے ہی نکلوا دیئے ہیں اور آپ پھر بھی کہے جا رہے ہیں کہ میں ملک چلانے کے لئے پیسہ اکٹھا کرکے دکھائوں گا۔ آخر کب اور کس طرح، ہمارے پلے بھی کچھ ڈالئے، آپ کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو آپ عوام کو سنگھا کر ان کی بھوک مٹائیں گے۔ ایک تیل کا کنواں تھا وہ بھی خالی نکلا، سمندر سے تیل تو نہ نکلا البتہ آپ نے عوام کا تیل تو ضرور نکال دیا، اب اسی سے حکومتی چراغ جلائیں اور میلہ چراغاں منائیں۔ اب تو اس عوام کے پاس آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا۔ کچھ ہمیں بھی سمجھائیے کہ آپ یہ جو قوم پر قرضوں کا بوجھ لاد رہے ہیں اور آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا قرضہ جو ابھی ہمیں ملا بھی نہیں اور صرف معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔کیا حکومت کو علم نہ تھا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجے میں معیشت پر بُرے اثرات کو روکنے کی پہلے سے ہی کوئی تدبیر کی ہوتی۔ ایک ڈالر ہی چھلاوا بن گیا ہے جو گلی گلی چھلانگیں لگائے غریب کو نگل رہا ہے۔ کیا ہمارے خان صاحب کو نہیں پتا تھا کہ معاہدے کے نتیجے میں روپے پر ڈالر کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور معیشت کی بربادی کے کیا امکانات ہیں۔ انہوں نے معاہدے سے قبل روپے کی قیمت مستحکم رکھنے سے متعلق اقدامات کیوں نہیں کئے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسٹیٹ بینک کے ذریعے ایمرجنسی نافذ کرکے ڈالر کے ناجائز کاروبار کو روک لگاتے یا کم از کم کچھ دن کے لئے ڈالر کی خرید و فروخت پر مخصوص قسم کی پابندیاں لگائی جاتیں اور سٹے بازوں کو قابو کرنے کی خاطر براہ راست سخت ترین اقدامات کئے جاتے۔ فی الحال تو کچھ حیران کن فیصلے سامنے آرہے ہیں۔

سعودی عرب سے ادھار تیل ملنے کی خبر یقیناً موجودہ حالات میں خوشخبری ہی تصور کی جا سکتی ہے مگر اس خوشخبری کو سنانے میں تاخیر کی وجوہ پر بھی غور کیجئے اور ایران امریکہ کشیدگی کے تناظر میں خلیج کے سمندروں میں امریکی بحری بیڑے کی پیش قدمی، خلیجی ممالک کی خاموشی، پاکستان کے سمندر سے تیل کے کنویں خشک ثابت ہونا اور اچانک سعودی عرب کی جانب سے ادھار تیل ملنے کی خوشخبری سنانا اور اسی دن بشکیک میں پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات ہونا اور سشما سوراج کا شاہ محمود قریشی کو کڑوے ماحول میں مٹھائی پیش کرنا حالات اور مستقبل کے واقعات کو سمجھانے کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ایسے حالات میں دانشمندی ہی وقت کا تقاضا ہے۔ فی الحال تو پنجاب میں فٹ پاتھوں پر سونے والے ہزاروں لوگوں کی لاکھو ں دعائیں اور رمضان المبارک کی برکتیں عارضی پناہگاہوں میں پھیل رہی ہیں اور یقیناً یہ دعائیں آنے والے وقت میں خیر و برکت کا باعث بنیں گی۔ ان پناہگاہوں میں سحری و افطار کا اہتمام کیا جا رہا ہے جبکہ بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجے کی سہولت بھی میسر ہے۔ آئندہ مالی سال میں تمام ڈویژن ہیڈ کوارٹرز اور اگلے مرحلے میں تمام اضلاع میں پناہگاہیں قائم کی جائیں گی۔ اگر اس احسن منصوبے کو ہی بنیاد بنا کر دانشگاہ، ہنر کدہ اور روزگار کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے اور ان منصوبوں کی براہ راست نگرانی مقامی حکومتوں اور عوام کے دیانتدار نمائندوں پر مشتمل کمیٹیاں کریں تو ایک کروڑ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ کچھ معاملات میں بہتری کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ پی آئی اے کی قیادت تبدیل ہونے سے حالات بہتر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ پاکستان پوسٹ تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ سیر و سیاحت کے فروغ کی خاطر پاکستان پوسٹ کے تمام ریسٹ ہائوسز عوام کے لئے کھول دیئے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا خصوصاً سوات مالم جبہ میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بہترین بین الاقوامی سیاحتی سہولتوں کی فراہمی کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ریلویز بہتری کی جانب گامزن مگر آئے دن کے حادثات ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ تمام تر تلخ حقیقتوں کے باوجود پتا نہیں کیوں دل اندر سے کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی تقدیر ضرور بدلے گی، عمران خان کے ہاتھوں یا کسی اور کے۔۔ یہ مقدر کی بات ہے۔

تازہ ترین