• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس فائز عیسیٰ کو اعلیٰ عدلیہ میں شمولیت کے بعد دوسری مرتبہ مشکلات کا سامنا

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اعلیٰ عدلیہ میں شمولیت کے بعد دوسری مرتبہ مشکلات کا سامناہے۔دونوں مرتبہ وکلا برادری اور عوامی حلقے ان کے ساتھ ہیںوہ دس سال پہلے بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے۔اعلیٰ عدلیہ میں شمولیت اختیار کرنے کے 10برس بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دوسری مرتبہ مشکلات کا سامنا ہے۔ایک برس قبل ان کی 2009میں بلوچستان ہائی کورٹ میں شمولیت پر جس کے بعد وہ 2014میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے تھے ۔اس کے خلاف ایک وکیل نے درخواست دی تھی،جسے دائر کیے جانے کے دو برس بعد مسترد کردیا گیا۔اس سے قبل درخواست دہندہ ایک عام شہری اور وکیل تھا اور اب صدر عارف علوی یعنی وفاقی حکومت ہے، جس نے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرایا۔یہ ایک انوکھا واقعہ ہے کہ حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اعلیٰ عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف بہ یک وقت ریفرنسز دائر کیے ہیں۔تفصیلات میں جانے سے قبل چند اہم حقائق کا جاننا ضروری ہے کہ معروف جج ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، جنہوں نے چند اہم مقدمات کے فیصلے کیے ہیں۔سپریم کورٹ کے 17ججوں میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے یہ واحد جج ہیں۔وہ ان نادر وکلا میں سے ہیں جو اپنی تقرری کے پہلے ہی روز بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے۔3نومبر،2007کو پرویز مشرف کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے سینئر وکیل کی حیثیت سے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایسے ججوں کے سامنے پیش نہیں ہوں گے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی تھی۔یکم جنوری ، 2016کو ریاض حنیف راہی نامی وکیل نے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184(1)کے تحت درخواست دائر کی ، جس میں کہا گیا کہ جسٹس عیسیٰ کی بلوچستان ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی حیثیت سے تقرری اور اعلیٰ عدالت میں ترقی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر کی گئی اور یہ کئی لحاظ سے غیر قانونی ہے۔ریاض حنیف راہی نے درخواست میں کہا کہ جسٹس عیسیٰ کی تقرری کا نوٹیفکیشن جلد بازی میں جاری کیا گیا ، جب کہ قائم مقام گورنر کے عہدے کا آخری روز تھااور ایسا وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس کے بغیر کیا گیا۔تاہم، 14مارچ، 2016کو رجسٹرار نے پٹیشن کو فضول ٹھہرایا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراض اٹھایا کہ ریا ض حنیف راہی نے بنیادی حقوق کے اطلاق کی بات نہیں کی جس کی ضمانت آرٹیکل 184(3)دی گئی ہے۔ریاض حنیف راہی کی درخواست دو سال تک زیر التوا رہی۔اچانک ایک روز سابق چیف جسٹس نے وکیل کو اپنے چیمبر میں سنے کے بعد اعتراضات کو ختم کردیا اور فیصلہ کیا کہ ان کی سربراہی میں تین روکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔اس وقت بلوچستان بار کونسل کے رکن منیر کاکڑ کا کہنا تھا کہ دوسال کی تاخیر کے بعد معاملے پر کارروائی بدنیتی ہے۔انہوں نے اسے چھوٹے صوبے کے خلاف سازش قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ دوسال کے بعد کیس کی سماعت کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ خود بھی خودمختار ججوں کو قبول نہیں کرتی ۔اپریل،2018میں بینچ نے غیر متعلقہ ہونے کے باعث درخواست مسترد کردی اور فیصلہ دیا کہ جسٹس عیسیٰ اب سپریم کورٹ کے جج ہیں ۔اس مرتبہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت ہونے سے قبل ہی عوامی احتجاج بہت سخت ہے۔سینیٹ میں قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں ریفرنس واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔جسٹس عیسیٰ نے سبی میں بلوچستان ہائی کورٹ دوبارہ کھلوائی جو کئی سالوں سے بند تھی۔انہوں نے تربت میں بلوچستان ہائی کورٹ کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کی اور اس کی عمارت کے ڈیزائن کی منظوری دی۔انہوں نے بلوچستا ن ہائی کور ٹ میں افسران اور عہدیداروں کی شمولیت کا شفاف نظام متعارف کرایا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو 16اگست، 2023میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنناہے اور وہ 25اکتوبر،2024تک اس عہدے پر رہیں گے۔ان سے پہلے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس بنیں گے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، پشین کے مرحوم قاضی محمد عیسیٰ کے بیٹے ہیں جو کہ تحریک پاکستان میں شامل تھے۔جب کہ ان کے دادا قاضی جلال الدین ریاست قلات کے وزیر اعظم تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کی پہلی شخصیت تھے جس نے برطانیہ سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہاں سے واپسی کے بعد انہوں نے بلوچستا ن میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں مدد کی تھی۔انہیں قائد اعظم نے صوبائی لیگ کا صدر نامزد کیا تھااور وہ بلوچستان سے واحد رکن تھے جو کہ بلوچستان سے آل انڈیا مسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔

تازہ ترین