• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشکل وقت ہے ۔ عوام صبر کریں اور حکومت کا ساتھ دیں ۔ ڈیڑھ دو سال میں یہ مشکل وقت ختم ہو جائیگا اور حالات بہتر ہو جائینگے ۔ یہ پاکستان تحریک انصاف کے حکمرانوں کا وہ بیانیہ ہے ، جس کی بنیاد پر بجلی ،گیس ، تیل ، دواؤں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بے دریغ اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ روپے کو بے قدر کیا جا رہا ہے اور عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کا جواز پیدا کیا جا رہا ہے ۔ بہتری کیسے آئے گی ؟ اس کیلئے صرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈز ( آئی ایم ایف ) کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے ۔ اس معاہدے پر عملدرآمد ہونے سے حالات بہتر ہو جائینگے ۔

آئی ایم ایف سے معاہدے کے سوا تحریک انصاف کی حکومت کے باقی جو اقدامات ہیں ، وہ صرف باتیں ہیں کیونکہ عوام کیلئے ان کا اب تک کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا ہے ۔ باتیں بنانا تو کوئی تحریک انصاف کے لوگوں سے سیکھے ۔ باتوں باتوں میں تمام خرابیوں کا ذمہ دار سیاسی قوتوں کو ٹھہرانے اور سارے مسائل کو بہت آسانی سے حل کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ حکومت میں بھی آکر تحریک انصاف کے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوا کہ جن سیاسی قوتوں کو ان کے ذریعہ ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے ، ان سیاسی قوتوں کا ایک قصور یہ ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے پروگرامز سے کہیں نہ کہیں اختلاف کیا ہو گا یا تھوڑی بہت مزاحمت کی ہو گی ۔ اگر تحریک انصاف کے حکمران اب تک اس ایک نکتے کا ادراک نہیں کر سکے تو پھر وہ اس بات کا بھی ادراک نہیں کر سکتے کہ تھوڑے ہی عرصے میں اس ملک میں کیا ہونے والا ہے ۔

پاکستان کے اکثریت غریب عوام کیلئے زندگی کس قدر مشکل ہو رہی ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے پاکستانی سماج کے تانے بانے کس قدر بکھیر دیئے ہیں اور خاندانوں کو توڑ دیا ہے ۔ اس مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے کس قدر سماجی ہیجان اور سیاسی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ اس کا اندازہ تحریک انصاف کے حکمران نہیں کر سکتے کیونکہ تحریک انصاف نے بحیثیت سیاسی جماعت کبھی بھی ملکی اور عالمی طاقتور حلقوں کے خلاف مزاحمت کی سیاست نہیں کی ۔ تحریک انصاف میں اگرچہ زیادہ تر دوسری سیاسی جماعتوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں ، وہ اپنی پہلے والی سیاسی جماعتوں کے تجربات کی روشنی میں سیاسی ادراک بھی رکھتے ہیں اور اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں لیکن وہ بھی تحریک انصاف کی پالیسی کے طور پر ان معاملات پر بات بھی نہیں کریں گے ۔ وہ تحریک انصاف میں اس امید پر آئے ہیں کہ تحریک انصاف اس انجام سے دوچار نہیں ہو گی ،جس انجام سے ان کی پہلے والی سیاسی جماعتیں ہوئی ہیں ۔ اس بات سے قطع نظر کہ تحریک انصاف کی سیاسی عمر کیا ہے ۔ وہ اس بات سے مطمئن ہیں کہ بگڑتے ہوئے حالات پر بحث صرف قومی سلامتی کمیٹی ( این ایس سی ) کے اجلاس کا ایجنڈا ہے ۔ تحریک انصاف کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

عالمی مالیاتی ادارے دراصل نو آبادیاتی نظام کا متبادل ہیں ۔ یہ جدید نو آبادیاتی نظام کے ذریعہ عالمی سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ ان کے پروگرامز سے دنیا میں کہیں بھی بہتری نہیں آئی ، جس قدر ان کے پروگرامز پر عمل درآمد ہوتا ہے ، اس قدر غربت اور ابتری میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اسلئے ان عالمی مالیاتی اداروں کو ’’ غربت کا آقا ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں حالات ڈیڑھ دو سال میں کیسے بہتر ہونگے ؟ یہاں حالات کی بہتری کا مطلب صرف حکمران طبقات کی مشکلات ختم ہونے سے لیا جاتا ہے ۔ آئی ایم ایف کا معاہدہ پاکستان کے عوام کیلئے نہیں ہے بلکہ اس سے اکثریتی غریب عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائیگا ، جو نہ تو اور مشکلات برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی صبر سے جی سکتے ہیں ۔ براہ راست کی بجائے بالواسطہ ٹیکسوں کی پالیسی ہو گی ۔ صرف امیر طبقات حکومت کی کارکردگی کی ستائش کرینگے اور کہیں گے کہ ہم بحیثیت قوم مشکلات برداشت کرنے اور صبر کرنیوالے ہیں ۔ غریب عوام سے جو پیسہ لیا جائیگا ، وہ قرضوں کی ادائیگی ، ڈالر کی قدر میں اضافے اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بجٹ سے بڑھ کر ہونیوالے اخراجات میں چلا جائیگا ۔ سی پیک کو رول بیک کیا جائیگا اور پاکستان کو نئی عالمی صف بندی میں اپنی نئی پوزیشن لینے کی سوچ کا بھی خراج ادا کرنا پڑیگا ۔ صرف وقتی طور پر حکمران طبقات کی بیرونی مشکلا ت ختم ہونگی ۔ مہنگائی کے طوفان اور بے روزگاری کی وجہ سے ممکنہ داخلی مشکلات کا اندازہ درست نہیں لگایا جا رہا ہے ۔ اب تک دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں سیاسی قوتیں کمزور ہو رہی ہیں ۔ سیاسی قوتوں کو کرپٹ کہہ کر اور انہیں گالی دے کر بھی انہیں غیر موثر کیا گیا ۔ حقیقی احتساب سے پہلے ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا اور انہیں رسوا بھی کیا گیا ۔ تحریک انصاف کو مقبول سیاسی قوت کے طور پر آگے آنے کا کھلا میدان فراہم کیا گیا ۔ یہ تمام عوامل کوئی سیاسی یا احتجاجی تحریک بننے میںرکاوٹ ہیں ۔ اگرچہ یہ عوامل اپنی جگہ موجود ہیں لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی وجہ سے پیدا ہونیوالا سیاسی ہیجان ان عوامل سے بھی زیادہ مضبوط عامل بن رہا ہے ۔ سیاسی جماعتیں شاید کوئی تحریک نہ بنا سکیں مگر لوگ اپنا راستہ بنائینگے ۔ مجبوری سے بڑا عامل کوئی نہیں ہوتا ۔ لوگ بے بسی کی انتہا پر ہیں ۔ کسی بھی حکومتی یا ریاستی ادارے سے کوئی ریلیف نہیں مل رہا ۔ اب ان عوامل پر زیادہ انحصار نہیں کیا جا سکتا ، جو سیاسی تحریک کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ لوگوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا بہت ۔ بہت ۔ بہت… زیادہ غلط اندازہ لگایا جا رہا ہے ۔ ڈیڑھ دو سال بہت لمبا عرصہ ہے ۔ اس عرصے میں تو کیا سے کیا ہو جائے گا۔

تازہ ترین