شوال کا چاند نظر آتے ہی چار سُو خوشیوں کا سماں چھا جاتا ہے۔ ہر کوئی عید کی تیاریوں میں جوش و خروش کے ساتھ مصروف ہوجاتا ہے اور کیوں نہ ہو، بالآخر روزے داروں کے لیے عید کا دن اللہ تعالی کی جانب سے انعام ہے۔ لفظ ’’عید‘‘، ’’عود‘‘ سے بنا ہے، جس کے معنی لوٹ آنے کے ہیں، بلاشبہ عید ، جو بار بار لوٹ کر آتی ہے، یعنی ہر سال آتی ہے۔ جس طرح مختلف قوموں کے کچھ خاص دن ہوتے ہیں، جن میں اس قوم کے لوگ اپنے اپنے عقیدے، رسم و رواج اور روایتوں کے مطابق جشن مناتے، اچھا لباس پہنتے اور مل جل کر خوشیوں کے لمحات ساتھ گزارتے ہیں۔ اسی طرح اہل مسلمانوں کے لیے عید الفطر اور عید الاضحٰی کے روز تمام مسلمان اپنے دکھ درد اور تمام غم و رنج کو بھلا کر خوشی مناتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے ہر قوم، ملک، علاقے اور گھرانوں کے کچھ مخصوص رسم و رواج اور روایات ہوتی ہیں، جو نسل در نسل چلی آ رہی ہیں۔
عید الفطر کے حوالے سے کئی روایات ہیں، جن میں سے ایک روایت بچوں کو دی جانے والی عیدی کی ہے، جو آج بھی روز اوّل کی طرح قائم ہے۔ ننھے بچوں کے لیے نئے نئے نوٹوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی جیبوں کو بھرلینا، طمانیت بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ عیدی دینے کے لیے ہر کوئی نئے کرنسی نوٹ، عید سے کئی دن قبل ہی نکال کر لے آتے تھے۔ لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ بڑھتی مہنگائی کے باعث عیدی میںنئے کرنسی نوٹوں کی روایات کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب نئے مگر چھوٹی کرنسی نوٹ کی جگہ پرانی مگر بڑی کرنسی نوٹ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب عیدی کے ساتھ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر، ناراض دوستوں اور رشتے داروں سے گلے مل کر تمام رنج و غم اور شکوے بھلا دیئے جاتے تھے، پہلے اس ضمن میں دونوں فریقوں کی خواہش ہوتی تھی کہ پہل وہ کریں، لیکن آج اس کے برعکس جو ناراض ہے اسے ایک فون کال تک کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ پہلے خواتین چاند رات کو خاص طور سے چوڑیاں پہنے جایا کرتی تھی۔ عید کے آتے ہی بازاروں میں چوڑیوں کے اسٹالز پر رش دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہےکہ انکےبغیرعیدنامکمل ہے۔آج بھی چوڑیوں کے اسٹالز اسی طرح سجتے ہیں مگر ان پر وہ رونق نہیں ہوتی جو کسی زمانے میں عید کی باقاعدہ روایت اور شناخت ہوتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب عید کے موقع پر خوشیاں بانٹنے کے لیے مٹھائی کا تحفہ دینے کی روایت عام تھی، لیکن آج برسوں کی اس روایت کی جگہ کیک نے لے لی ہے۔
یوں تو کئی ایسی روایات ہیں، جو عید سے قبل ہی عید کی نوید دینے لگتی ہیں۔ ایسی ہی ایک روایت عید کارڈز کی تھی، جو اب ماند پڑچکی ہے۔ پہلے رمضان المبارک شروع ہوتے ہی رنگ برنگے عید کارڈز کےخصوصی اسٹالز جگہ جگہ سج جاتے تھے، جو لوگ خود پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے وہ بھی عید کارڈ بھیجا کرتے تھے۔ دوسری جانب عید کارڈز موصول ہونے کی اتنی خوشی ہوتی تھی کہ کچھ لوگ موصول ہونے والے عید کارڈز کو باقاعدہ طور پر اپنے ڈرائینگ رومز میں سجا دیا کرتے تھے۔ عید کارڈ ایک روایت ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے روابط اور خلوص بڑھانے کا بھی بہترین ذریعہ تھے۔
جس طرح کسی بھی معاشرےمیں کوئی رواج و روایات اچانک عام نہیں ہوتی، اسی طرح یہ فوراً ختم بھی نہیں ہوتی ہیں۔بلکہ ایسا مختلف عوامل کے زیر اثر ہوتا ہے۔ ان عوامل میں معاشی، معاشرتی اور ثقافتی وجوہات شامل ہیں۔ اسکے علاوہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت بھی ان چیزوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ لیکن بعض گھرانے ایسے ہیں جہاں ماضی کی ماند پڑتی یہ خوبصورت روایتیں آج بھی نہ صرف زندہ ہیں بلکہ نسل در نسل انہیں منتقل بھی کیا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے ہم نے چند نوجوانوں سے پوچھا کہ ان کے گھر میں ماضی کی کون سی روایات آج بھی زندہ ہیں۔ ساتھ یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ، ان روایات کو زندہ رکھتے ہوئے امسال ان کی عید گزشتہ عید سے کس طرح مختلف ہوگی؟
٭… سہرش ہاشمی جامعہ اردو میں زیر تعلیم ایم فل (ابلاغ عامہ) کی طالبہ ہیں، ہمارے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ہمارے گھر ہی نہیں خاندان میں ماضی کی روایات کو فراموش نہیں کیا گیا۔
ہمیشہ کی طرح چاند رات کو شیر خُرما بنالتے ہیں اور عید کی تیاریاں چاند رات سے قبل ہی کر لیتے ہیں، کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ چاند رات کو رات گئے تک بازاروں میں رش رہتا ہے جس کی وجہ سے بیشتر افراد عید کے روز نماز فجر باجماعت ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ میرے ابو اور بھائیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ عید کے روز بھی فجر کی نماز باجماعت ادا کی جائے۔ اس کے علاوہ ہمارے گھر کی یہ روایت رہی ہے کہ عید کے روز ابو سب بچوں کو عیدی دیتے ہیں۔ اس خاص روز ہمارے یہاں ناشتے میں گھر میں تیار کردہ قیمہ کچوری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ روایت عرصہ دراز سے چلی آرہی ہے۔ اس بار کی عید یوں مختلف ہوگی کہ ، تمام گھر والےعید کے فوراً بعد پاکستان ٹوئر پر جائیں گے۔
٭… محمد طلحہ رئیس نجی ادارے میں انجنئیرہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ، یوں تو شیر خُرما ہر گھر میں ہی بنتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ نماز عید کے بعد مٹھائی سے تمام گھر والوں کا منہ میٹھا کروایا جاتا ہے۔
اور پھر ناشتہ اہل خانہ ساتھ مل کر، کرتے ہیں۔ پہلے ہم خود بڑوں سے عیدی لیا کرتے تھے لیکن اب میں خود ملازمت کر رہا ہوں اس لیے امسال میں چھوٹوں کو عیدی دوں گا۔کیوں کہ یہ ہماری روایت میں شامل ہے کہ کمانے والے اپنے سے چھوٹوں کو عیدی دیں۔ گزشتہ عید سے یہ عید کچھ اس طرح مختلف ہے کہ اس سال مجھے عید کے روز بھی جاب پر جانا ہے، جب کہ اس سے قبل عید کا دن گھر والوں اور عزیزوں کے ساتھ گزارتا تھا۔
٭… عمران خان نیازی ڈاکٹر ہیں، وہ کہتے ہیں، عید کی صبح کا آغاز نمازِ عید سے ہوتا ہے۔
میرا تعلق سکھر سے ہے لیکن ملازمت کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں سے کراچی میں ہوں۔ یہاں شہر میں بیشتر لوگ نمازِ عید ادا کرنے کے بعد صرف اپنے جان پہچان کے لوگوں سے گلے مل کر عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے گاؤں میں آج بھی عید کے روز مسجد میں آنے والے کم و بیش تمام نمازیوں سے جب تک گلے مل کر عید کی مبارک باد نہیں دی جاتی تب تک گھر نہیں لوٹتے۔ بچپن سے ہمارے گھر کی روایت رہی ہے کہ ناشتے میں ایک خاص قسم کے حلوے کا اہتمام کیا جاتا ہے، جسے ہم ’’دودھی حلوہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس بار کی عید مختلف اس لیے ہوگی کیوں کہ میں اس بار گاؤں نہیں جا سکوں گا، عید کے تینوں دن اسپتال میں ڈیوٹی ہے۔
٭… رُباب شکیل جامعہ اردو میں زیر تعلیم ایم فل کی طالبہ ہیں، وہ کہتی ہیں کہ، مجھے آج بھی چھوٹی عید سے جڑی عید کارڈ کی روایت بہت پسند ہے۔
اپنے دوستوں اور کزنز کو منفرد اور مزاحیہ اشعار لکھ کر عید کارڈ دینا اچھا لگتا ہے، چوں کہ اب عید کارڈز باآسانی دستیاب نہیں ہیں اس لیے میں اپنا یہ شوق ڈیجٹل انداز میں پورا کرتی ہوں، یعنی فیس بُک پر تمام دوستوں اور کزنز کے لیے مختلف اشعار لکھ کر انہیں ٹیگ کرتی ہوں۔ ہم بچپن سے علیحدہ گھر میں رہتے ہیں، یعنی مشترکہ خاندان میں نہیں رہتے، لیکن عید کے موقع پر صبح سویرے ہی تیار ہوکر تمام چچا اور ان کے گھر والے دادی کے گھر اکھٹے ہوتے ہیں اور پھر وہیں سے ساتھ مل کر نماز کے لیے جاتے ہیں۔ یہ میں نے اپنے بچپن سے دیکھا ہے۔ ہمارے یہاں شیر خُرما نہیں سویاں بنتی ہیں۔ گزشتہ عید پر میری نانی اور دادی ہمارے ساتھ تھیں، لیکن اس بار وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ لیکن روایت برقرار رکھتے ہوئے اس بار بھی سب دادی کے گھر ہی جمع ہوں گے۔ ابو، بھائی اور تمام چچا نماز کے بعد ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جائیں گے۔
٭… فرحانہ خان گھریلو خاتون ہیں، جن کا کہنا ہے کہ، عید سعید کی بہت سی پرانی روایات ہیں جو، اب کافی حد تک دم توڑ چکی ہیں لیکن کچھ گھرانے ایسے ہیں، جہاں آج بھی ان روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایسے ہی ہمارے گھر میں بھی عید کے روز سویوں سے تیار کردہ شیر خُرما بنانے کی روایت ہے۔ یہ آج بھی ضرور بنتا اور محلے میں بھی بانٹا جاتا ہے۔ جب بڑے عید کی نماز ادا کرکے آتے ہیں تو تمام بچے عیدی وصول کرنے کے لیے ایک لائن میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ بچوں میں عیدی تقسیم کرکے جو خوشی ملتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اس بار کی عید میری گزشتہ عیدوں سے خاص ہے، کیوں کہ اس بار میرے ساتھ میری بیٹی بھی ہے، گو کہ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے، لیکن اس کے لے نت نئے ڈیزائن کے کپڑے لیے ہیں،اسے ہیر بینڈز، چوڑیاں اور مہندی لگا کر خوب تیار کروں گی۔
٭… عبد المتین خان نجی اسپتال میں اکاونٹ آفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، عید الفطر کی مناسبت سے بے شمار روایتیں ہیں، جن پر روز اوّل کی طرح عمل ہوتا آیا ہے، اور اپنے اہل خانہ کی طرح میں خود بھی ان پر عمل کرتا ہوں۔
جیساکہ نمازِ عید ادا کرنے کے بعد تمام چھوٹے اپنےبڑوں کوعیدکاسلام کرتےہیں،جس سےبڑوں کےدلوں میں چھوٹوں کیلئے محبت و شفقت بڑھ جاتی ہے۔کبھی کبھار اسی بہانے زیادہ عیدی بھی مل جاتی ہے۔ تمام رشتہ داروں کوخاص دعوت دےکرمدعوکیاجاتا ہے، جس سے آپس کے گلے شکوے دور ہوتےہیں۔ ہمارےگھرمیں روایتی شیرخُرما خاص اہتمام کےساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ عید کے پہلے روز ہمارے پیارے،جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں ان کی قبروں پرفاتحہ پڑھنے ضرورجاتےہیں۔آنےوالی عیداپنےساتھ بہت سی تبدیلیاں لا رہی ہے۔اس بار گزشتہ سال سے زیادہ مہنگائی ہے۔ عید سے قبل ہی اشیا خرد و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ چیزیں جو پہلے ہی غریب عوام کی پہنچ سے دور تھی، اب مزید ان کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔ میری دعا ہے کہ یہ عید ہر ایک کے لیے باعث مسرت ثابت ہو اور ہر ایک کے لیے آسانیاں لے کر آئے۔
٭… عائشہ عامر گھریلو خاتون ہیں، وہ کہتی ہیں کہ، ہمارے بیشتر رشتہ داروں میں عید کے روز کیک باٹنے کی نئی روایت شروع ہوگئی ہے، لیکن ہم آج بھی اپنے گھر میں شیر ُخرمے کی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
بیشتر گھروں میں عید کا سلام کرنے کی روایت اب دم توڑتی جارہی ہے، لیکن میں عید کے روز ساس سسر کو عید کا سلام کرنے کے بعد اپنے امی ابو کو بھی عید کا سلام کرنے خاص ان کے گھر جاتی ہیں۔ چوں کہ ہر گزرتا دن پچھلے دن سے مختلف ہوتا ہے، اس لیے ہر عید بھی گزشتہ عید سے مختلف ہوتی ہے۔ اس عید پر بیٹیاں بڑی ہوگئی ہیں تو ان کی فرمائشیں بھی بدلتی جا رہی ہیں پھر چاہے اس کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنی پڑے۔ بڑھتی مہنگائی نے اس کام میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بس اللہ ہمارا حامی و ناصر رہے اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا کرتا رہے تا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوشیاں بانٹتے رہیں۔ آمین
بحیثیت قوم ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ماضی کی کچھ خوبصوت روایات اگر اب کسی وجہ سے برقرار نہیں ہیں تو کم از کم ان کے پیچھے باہمی محبت اور ہمدردی کا جو جذبہ کار فرما ہے اسے کسی صورت ماند نہ پڑنے دیا جائے۔ ان جذبوں کو زندہ رکھنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے، جو، ان روایات کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔ اسی سوچ کے تحت ہمیں عید کے موقع پر ان لوگوں کو نہیں بھلانا چاہیے جنہیں یہ خوشیاں میسر نہیں ہیں۔ تب ہی عید کا دن ہمارے لئے حقیقی طور پر عید کا دن ثابت ہو سکے گا۔
بچپن کی عید اور اب کی عید میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے ذوہیب حسن، سول انجینئر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، عید کا حقیقی معنوں میں مزہ بچپن میں آتا تھا۔ جب میں اپنے اچھے دوستوں، کزنز اور کلاس فیلوز کو عید کارڈ دیتا تھا۔ اسی طرح ان سے بھی عید کارڈ وصول کرکے خوشی ہوتی تھی۔ لیکن سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی تھی جب بڑوں سے عیدی وصول کرتا تھا۔
مجھے یاد ہے، ہمارے محلے میں عید کے روز جھولے والا آیا کرتا تھا، تمام دوست اپنی اپنی عیدی سے جھولا جھولتے، آئس کریم کھاتے اور خوب مزے کرتے تھے۔ لیکن ہر عمر کے اور ہر دور کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آج کی عید بھی اچھی گزرتی ہے، گو کہ وقت کے ساتھ بہت تبدیلیاں آگئی ہیں۔ پہلے عیدی وصول کرکے خوشی ہوتی تھی آج عیدی دے کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ایک چیز جو ماضی میں اچھی تھی وہ یہ کہ، پہلے لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے خاص طور سے وقت نکالتے اور عزیز رشتہ داروں کے گھر ملنے جاتے تھے، اب لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ فرداً فرداً ہر ایک کے گھر جائے۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ موبائل فون کے ذریعے آپ آسانی سے ایک ہی وقت میں اپنے تمام جاننے والوں کو عید مبارک کے پیغامات بھیج سکتے ہیں۔ بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے دوست، رشتہ دار سے فون پر براہ راست بات کرکے اسے اسی وقت مبارکباد، دے دیتے ہیں اور آج کل اس پر زیادہ خرچ بھی نہیں آتا۔