• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساری زندگی خبریں ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہی ہیں۔ جب سے میں نے پڑھنا سیکھاہے، اخبار پڑھ رہا ہوں، اخبار بنا رہا ہوں اور اخبار پڑھ کر سنا رہا ہوں۔لیکن اس پوری عملی زندگی کے دوران میں نے ہلاکتوں کی اتنی خبریں کبھی نہیں پڑھیں جتنی آج کل پڑھنے میں آرہی ہیں۔کتنے حادثے ہورہے ہیں، کتنی اموات ہو رہی ہیں، اب تو حساب رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ موت ایسا موضوع ہے کہ ذہن میں یادداشت کا خانہ اس کی چھان پھٹک مسلسل کرتا رہتاہے۔ہلاکتوں کی خبروں کا ذہن سے محو ہوجانا ایک فطری عمل ہے، یوں ہی ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔

اسباب کی تفصیل میں جانے سے پہلے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایساکیوں ہے۔ لوگ اتنی بڑی تعداد میں کیوں ہلاک ہورہے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ خبروں کی ترسیل کا نظام یکسر بدل رہا ہے۔ کہا ں چوبیس گھنٹے بعد اخبار آتا تھا تو خبریں پڑھنے کو ملتی تھیں ۔ آج یہ حال ہے کہ میڈیا کے جال نے پھیل کر دن کے اُن ہی چوبیس گھنٹوں کو اس طرح ڈھانپ لیا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ وہی چھپا ہوا اخبار فرسودہ محسوس ہونے لگے گا۔جدید ذرائع کی تو شاید رات ہی نہیں ہوتی ۔خبروں کے چینل مسلسل چلتے رہتے ہیں اور اس خیال سے کہ ہر وقت تازہ سے تازہ خبریں دی جائیں، یہ چینل جہاں تہاں سے نئی نئی خبریں نکال کر لاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پہلے جو دور دراز علاقوں میں چھوٹے موٹے واقعات ہوا کرتے تھے ، دنیا کو ان کی خبر ہی نہیں ہوتی تھی۔ ا ب یوں نہیں ہے۔وہ ساری چھوٹی بڑی خبریں ہر وقت میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔دوسر ی بات یہ کہ اس میں شک نہیں کہ خبر رسانی کے میدان میں اتنا زیادہ مقابلہ ہونے لگا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی علاقہ اب میڈیا کی زد سے باہر نہیں۔ان تمام باتوں کی باوجود میں اپنی بات پر قائم ہوں کہ دنیا میں ہلاکتیں پہلے سے زیادہ ہونے لگی ہیں۔

ایک تو دنیا میں دنیا والے بہت ہوگئے ہیں، یا دوسرے لفظوںمیں دنیا کی آبادی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس بات کو ہم یوں سوچ سکتے ہیں کہ آبادی بہت ہوگی تو ادھر اُدھر آنے جانے والے لوگ بہت ہوں گے، سواریاں بہت ہوں گی، کاریں، بسیں، ریل گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر دو پہیوں کی سواری یعنی موٹر سائیکل بہت ہوں گی۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے، حادثے بہت ہوں گے، ہلاکتوں کی خبریں بھی بہت ہوں گی۔ ابھی پچھلے دنوں ایک روز خبر تھی کہ پاکستان میں ایک ہی دن میں ٹریفک کے آٹھ بڑے حادثے ہوئے ہیں جن میں بہت ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ وہ تو چلئے ایک دن کی بات تھی، یہ واقعہ تو روز ہوتا ہے کہ تیز رفتار کار درخت سے یا کھمبے سے ٹکرا گئی، اندر بیٹھے ہوئے افراد جانو ں سے ہاتھ دھو بیٹھے،ڈمپر سے ہونے والی ٹکّر روز کا معمول بن گئی ہے، ریلوے کراسنگ پر موٹر گاڑی کا ٹرین کے نیچے آجانا اکثر خبر کا موضوع بنتا ہے۔ بچوں کے ڈوبنے کی خبریں مسلسل آتی ہیں، کبھی گندے نالے میں او رکبھی بغیر ڈھکن کے گٹر میں ۔ ایک او ر خبر جو بہت دکھ دیتی ہے وہ چھت کے گرنے کی ہوتی ہے جس کے نیچے سویا ہوا کنبہ وہیں ابدی نیند سو جاتا ہے۔ بچوں کے جھولے ناقص ہوتے ہیں ، اور کمسن بچے مارے جاتے ہیں۔ ہلاکتوں کی اس فہرست میں ایک غضب یہ ہوا ہے کہ نالائق لوگ غلط انجکشن لگا کر مریض کو مارڈالتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بے شمار لوگ دوا فروش کیمسٹ ہی کو حال بتا کر اس سے نہ صرف دوا لے لیتے ہیں بلکہ انجکشن بھی لگوالیتے ہیں۔

غرض یہ کہ اس تکلیف دہ فہرست کی تفصیل میں جانے کو جی نہیں چاہتا ۔ اس موقع پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا موت کی اس ارزانی کا علاج ممکن ہے یا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مہذب ملکوں میں حکومتیں بڑے ہی سخت اصولوں پر اتنی ہی سختی سے عمل پیرا ہوتی ہیں۔دوا علاج کا تو سیدھا سا اصول یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ چھوٹی موٹی دوا تو آپ شیلف سے خود ہی اٹھا کر خرید سکتے ہیں لیکن تمام اہم دوائیں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیرحاصل کرنا قطعی ناممکن ہے۔اس پر اتنا کڑا پہرا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے دوا نہیں خرید سکتے۔باضابطہ مستند ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر دوا کا حصول کسی بھی قیمت پر ممکن نہیں۔ انجکشن لگوانا کوئی بچّوں کا کھیل نہیں ،اس کے بہت سخت اصول ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس سوئی سے ایک انجکشن لگ گیا وہ سوئی پھر لازماً تلف ہوتی ہے۔ مگر افسوس ، ہماری طرف تو یوں لگتا ہے کہ ہمیں انسان کی جان پیاری ہی نہیں،ہم اس طرح کے سارے عذاب کبھی قسمت پر ڈال دیتے ہیں اور کبھی مقدّر پر۔

دوسرا شعبہ جس پر کڑی نگرانی ہوتی ہے اس کا نام ہے موٹر گاڑی۔مجھے یاد ہے میں کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ تھا۔ میں نے اپنے لئے اسکوٹر خریدا اور اپنے رپورٹر سے کہا کہ پولیس ہیڈ آفس جاکر میرے لئے ڈرائیونگ لائسنس بنوا لائے۔وہ کھڑے کھڑے بنوا لایا (پاسپورٹ بھی ایسے ہی بنا تھا)۔ اب جو میں نے لائسنس دیکھا تو اس میں نہ صرف اسکوٹر بلکہ کار چلانے کا اجازت نامہ بھی شامل تھا۔ یہاں مغرب میں لوگ پانچ پانچ مرتبہ فیل ہوتے ہیں تب کہیں ڈرائیونگ لائسنس بنتا ہے اور دوست احباب مبارکباد کے کارڈ بھیجتے ہیں۔اس اجازت نامے کے بغیر موٹر گاڑی چلانا بڑا جرم ہے۔ دوسری کڑی شرط یہ ہے کہ گاڑی کا ہر سال ٹیسٹ کرانا ہوتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی نقص تو نہیں، اس کو ایم او ٹی کہتے ہیں اور اس کے بغیر آپ گاڑی سڑک پر نہیں لا سکتے۔ تیسرے گاڑی کا بیمہ ہونا لازمی ہے۔اور ممکن ہو تو ہر سال اس کی سروس بھی کرالی جائے ۔ یہ سب کچھ پولیس کے کمپیوٹر میں درج ہوتا ہے ۔ اس کا کیمرہ آپ کی نمبر پلیٹ دیکھ لے، بس کافی ہے۔ ساری تفصیل نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔بلا شبہ اس میں بڑا جوکھم ہے، خرچ بھی بھاری آتا ہے مگر اس کے بغیر سڑک پر آنے کا مطلب ہے کہ آپ گرفتار ہو سکتے ہیںاور آپ کے نام پر پولیس کا بدنما ٹھپّا لگ سکتا ہے جس کو اخبار کا رپورٹر بھی نہیں مٹا سکتا۔

تازہ ترین