• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات پُرامن بات چیت کے ذریعے طے کرنے کے لیے ہر دور میں کوشاں رہا ہے اور موجودہ پاکستانی حکومت بھی پہلے دن سے بھارتی قیادت کو یہ پیشکش کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کا تازہ ترین مظاہرہ گزشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی کے نام وزیر اعظم عمران خان کے خط کی شکل میں ہوا ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران بھارت کی سیاسی قیادت عام انتخابات کے مرحلے سے گزر رہی تھی جس کی بناء پر سیاسی تجزیہ کاروں کی عمومی رائے یہ تھی کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست چونکہ ہندوتوا اور پاکستان دشمن نعروں پر استوار ہے لہٰذا انتخابات سے پہلے پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے نئی دہلی سے کسی مثبت پیش رفت کی توقع نہیں تاہم انتخابات میں دوبارہ کامیابی کی صورت میں نریندر مودی اور ان کی پارٹی نئے مینڈیٹ کے ساتھ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر باہمی تنازعات کا تصفیہ کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی کے دوبارہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد پاکستان ایک بار پھر بات چیت کے ذریعے پاک بھارت مسائل کا حل تلاش کرنے کی خاطر سرگرم ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کا تازہ خط اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں علاقائی امن کی بحالی اور دونوں ممالک کو درپیش مسائل کے تصفیے کے لیے ایک بار پھر جموں کشمیر اور دہشت گردی سمیت تمام معاملات کے حل کے لیے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اپنے تازہ خط میں پڑوسی ممالک کے ساتھ امن کی پالیسی اور جنوبی ایشیا میں پائیدار استحکام کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار ،باہمی احترام اور بھروسے کے ساتھ غربت اور ترقی پذیریت سمیت دونوں ممالک کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کی خاطر مل جل کر کر کام کرنے نیز مشترکہ اقدامات کے ذریعے خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے مقصد کو ترقی دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ خط میں واضح کیا گیا ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے امن و استحکام ضروری ہے اوردونوں ملک مذاکرات کے ذریعے ہی اپنے عوام کو غربت و افلاس سے نکالنے کی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ بھارتی قیادت چاہے تو اس سمت میں مثبت پیش رفت کا ایک اچھا موقع آئندہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی شکل میں فراہم ہونے والا ہے جہاں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات سے اس عمل کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔تاہم بھارتی وزارت خارجہ نے اس موقع پر پاک بھارت سربراہوں کی دو طرفہ ملاقات کے طے ہونے کی تردید کی ہے جس کے باعث کسی امید افزاء صورت حال کے رونما ہونے کا امکان دھندلا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے نئے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد اور اختلافات کے پُرامن تصفیے کی خواہش کے اظہار پر مشتمل خط ارسال کیا اور افواج پاکستان نے آئندہ قومی بجٹ میں دفاعی اخراجات میں کسی اضافے سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے لیکن مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی جنگی ساز و سامان کی خریداری کے نئے معاہدے شروع کردیے ہیں جس کے تحت اسرائیل سے ہنگامی بنیادوں پر تین ارب بھارتی روپے کے اسپائس بموں کی خریداری کا معاہدہ طے پایا ہے۔ خطے میں امن واستحکام کے لیے پاکستان کی کاوشوں کے مقابلے میں مزید پانچ سال کے لیے اقتدار پانے کے بعد بھی مودی حکومت کی روش میں پاکستان کے ساتھ معاملات پُرامن بات چیت سے طے کرنے کے لیے کم از کم اب تک کسی مثبت تبدیلی کا نظر نہ آنا علاقائی اور عالمی امن کے لیے کوئی نیک فال نہیں ۔عالمی برادری کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ بھارت کے جنگی جنون کو لگام نہ دی گئی اور جنوبی ایشیا کی جوہری طاقتوں میں کشیدگی کے اسباب منصفانہ بنیادوں پر دور نہ ہوئے تو پوری دنیا کا امن تہ و بالا ہوسکتا اور پوری انسانی برادری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے لہٰذا اسے خطے میں امن کے لیے اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین