• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہواوے بمقابلہ امریکا: ٹرمپ نے ٹیک سرد جنگ کا خطرہ مول لے لیا

سان فرانسسکو: رچرڈ واٹرز

تائی پے: کیتھرین ہل

ہانگ کانگ : لوئس لوکاس

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا چین کی سب سے اہم ٹیک کمپنی کے ساتھ تازہ ترین تنازع دنیا کو ٹیکنالوجی کی سرد جنگ میں ڈال سکتا ہے۔

امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے والے سپلائرز سے خریداری کے لئے ہواوے کی صلاحیت کو محدود کرنے کی کوشش کمپنی کے لیے خطرہ ہے کہ اس کے ہاتھ باندھے جارہے ہیں جس کا مقصد 5جی موبائل مواصلات کے دور میں اہم عالمی سپلائر بننا ہے۔

عالمی انٹرنیٹ کے لیے رسائی پر پابندی کے ذریعے چین کی سرحدوں کے اندر معلومات کا کنٹرول پہلے ہی دنیا بھر سے الگ ڈیجیٹل کائنتا میں ڈال دیا تھا۔ اب ہواوے کو الگ کرکے امریکا نے ایک انتقامی اقدام لیا ہے جو تقریباََ مجموعی ٹیک کی تقسیم کی جانب اشارہ ہے۔

تاہم اگر یہ اقتصادی اور سیاسی مخالفین کو تنہا کرنے کی واشنگٹن کی کوششوں میں ایک فیصلہ کن لمحہ بن جاتا ہے، اس نے عالمی ٹیک صنعت میں ایک تکلیف دہ ردعمل حرکت میں لایا ہے،جو اب خود کو تنازعات کی زد میں پاتا ہے جو کاروبار کیلئے شاید برا محسوس ہوتاہے۔

وائٹ ہاؤس پر بمشکل مخفی حملے میں اس ہفتے میں امریکی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری نے اس حکومت کو قومی سلامتی پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انداز میں،جس میں عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے امریکی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کی صلاحیت کمزور نہ ہو،انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے اہم شعبوں جیسے مصنوعی ذہانت، کوائنٹم کمپیوٹنگ اور نیکسٹ جنریشن ٹیلی کمیونیکیشن میں قیادت کی حفاظت کی ضرورت ہے۔

یہ بھی خدشہ ہے کہ عالمی ٹیک مارکیٹوں میں چین کی رسائی کو محدود کرنا مزید خطرناک اقتصادی دور میں لے جائے گا۔ چین کے ایک ٹیک ایگزیکٹو نے کہا کہ اگر امریکا اس سے مدد حاصل کرتا ہے کہ وہ کیسے سرد جنگ میں روس کے ساتھ نمٹا تھا تو یہ غلط اصول ہے۔ 13 ٹریلین ڈالر کی معیشت اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک کو بند کرنے کی کوشش عالمی معیشت اور سلامتی کے نظام کے لیے زیادہ خطرات پیدا کرسکتا ہے۔

ساتھ ہی وائٹ ہاؤس کو ایک کامیاب اقتصادی جنگ جاری رکھنے کیلئے اس کی اپنی صلاحیتوں میں اعتماد کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ایک تجربہ کار امریکی پالیسی ساز کا کہنا ہے کہ متعدد ایگزیکٹوز چین کی ٹیک اسٹریٹجی پر چیلینج کرنے کے آئیڈیا کی حمایت کرتے ہیں۔تاہم انہوں نے مزید کہا کہ لیکن ہم میں سے کافی کو اعتماد نہیں ہے کہ اس انتظامیہ کے پاس وژن ، شفافیت یا مؤثر طریقے سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ ہواوے کے خلاف لڑائی کو نئی سطح پر لے جانے کیلے موڑ لے رہی ہے اور ٹیلی مواصلات سامان ساز کمپنی سے سپلائی چین کے ذریعے خراب تعلقات کی لہر امریکی اور چینی سرحدوں سے باہر پھیل گئی، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ نے پہلے ہی گروہ بندی کو نمایاں کردیا ہے۔

غیر امریکی کمپنیاں جو کم از کم 25 امریکی مواد کے ساتھ مصنوعات فروخت کرتی ہیں ، وہ بھی نئی پابندیوں کا شکار ہوگئی ہیں۔ جاپانی الیکٹرونک گروپ پیناسونک کی پہلے ہی ہوائی کیلئے کچھ پرزوں کی شپمنٹ روک دی ہے۔اور برطانیہ کی چپ بنانے والی کمپنی آرم نے اس کے ڈیزائن کے لائسنس کو روک دیا ہے۔

عالمی ٹیک صنعت میں نئی گروہ بندی کلیدی مرکزوں جیسے تائیوان میں پہلے ہی واضح ہے۔ جزیرے کی کمپنیاں بڑا حصہ تیار اور تشکیل دیتی ہیں جو نوٹ بک کمپیوٹرز سے ڈیٹا مرکز اور اسمارٹ فونز تک ہر چیز میں جاتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے انہوں نے ایسانیٹ ورک تعمیر کیا ہے جو عالمی مارکیٹوں کی خدمت کیلئے امریکا کے پیٹنٹ اور ڈیزائن کو چینی مزدوروں کو جوڑتا ہے۔جو اب بدل رہا ہے ۔

کوانٹا اور وسٹرون جیسے تائیوان کے بڑے سرور پرڈیوسرز نے گوگل اور فیس بک جیسے صارفین کے خداشت کے ردعمل میں حالیہ مہینوں میں اپنی پروڈکشن چین سے باہر منتقل کردی ہے جو سرور چین میں پرڈیوس کررہے ہیں ہیں ان کیلئے مسائل ہوسکتے ہیں۔ تائی پے میں ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ چین اور امریکا کا ٹکراؤ ایک بہت بڑا موقع ہے،اور ہم طویل مدت تک اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اچھی طرح سے تیار ہیں تاہم قلیل المدت کے لیے یہ تکلیف دہ ہوگا۔

جب چین کا مقابلہ کرنا ہو تو، ڈونلڈ ٹرمپ خود کو تجارتی اور اقتصادی رقابت کے معاملات میں قومی سلامتی کے مقابلے میں زیادہ فکرمند ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم ان کی انتظامیہ میں چین کے معاملات کے ماہرین کیلئے ہواوے کی راہ میں رکاوٹ ایک اہم قدم ہے جس میں واشنگٹن ٹیکنالوجیکل بالادستی کیلئے طویل المدت دوڑ کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ وائٹ ہاؤس کے مینوفیکچرنگ پرپیٹر ناوارو، جو کاروباری وجوہات کیلئے چین سے امریکی ٹیکنالوجی کو لاگ کرنے کے بارے میں شیدی ردعمل پر مجبور کرنا چاہتے ہیں، جیسے مشیروں وائٹ ہاؤس کے معاونین کے ساتھ سہولت کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔

اس صورتحال سے واقف دو ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے مذاکرات کاروں کے تجارتی معاہدے پر چین کے ہٹنے کے الزام کے بعد امریکی صدر نے ہواوے کے خلاف احکامات پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وائٹ ہاؤس میں ہنگامی طور پر طلب کیے گئے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ تجارتی مذاکرات کیلئے قوت پیدا کرنے کیلئے وہ ہواوے کو شدید متاثر کرنا چاہتے ہیں۔اور انہوں نے محکمہ تجارت کو نام نہاد اینٹیٹی فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا،جس سے امریکی کمپنیوں کو چینی گروپ کو ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر فراہم کرنا مشکل ہوجائے گا۔

یہ فیصلہ امریکی صدر کو ان کی انتظامیہ میں شامل تجارتی اور سلامتی کے شدت پسند ماہرین دونوں کے ساتھ صف میں لے آیا ہے۔تاہم یہ ابھی بھی واضح نہیں کہ آیا وہ ہواوے پر اپنا سخت مؤقف برقرار رکھیں گے اور اگر ایک بار معاہدہ ہوجاتا ہے تو دیگر چینی کمپنیاں جو ایگزیکٹو آرڈر سے متاثر ہوسکتی ہیں۔

نیشنل سیکیورٹی کنسلٹنسی بیکن گلوبل اسٹریٹیجیز کے انتظامی شراکت دار مائیکل ایلن نے کہا کہ ہواوے کے بارے میں طویل عرصے سے موجود خدشات نے،اگرچہ خاصے مستحق ہیں، امریکا چین کے مابین تجارتی مذاکرات کے بڑے پلیٹ فارم پر یقینا رکاوٹ ڈالی ہے۔ بحث پہلے پرہجوم قومی سلامتی کے حلقے تک محدود تھی کہ آیا چین امریکی مواصلات کے اندر داخل ہوسکتا ہے،اب ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتصادی سیکیورٹی قومی سلامتی ہے کے بیانیے کا حصہ ہے۔

اگر وائٹ ہاؤس کا سرد جنگ کی جانب فٹ بیٹھتا ہے اور شروع ہوتا ہے،اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے مقاصد مکمل طورپر واضح نہیں ہیں،امریکا کم از کم قابل غور استحکام پوزیشن سے شروع کررہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی تحقیق میں ملک کی حالیہ کامیابی کے باوجود چینی حریفوں کا خودمختاری کی پوزیشن تک پہنچنے میں ابھی بھی کافی وقت ہے۔

سی ایل ایس اے کے سرمایہ کار تجزیہ کار سیبسٹین ہو نے اندازہ لگایا کہ ہواوے، جو سیمی کنڈکٹر کھپت کا 8 سے 9 فیصد کرتا ہے، ملک میں میموری نکال کر، صرف تقریبا 30 سے 35 فیصد اپنی چپس تیار کررہا ہے۔ کمپنی کا ماننا ہے کہ یہ 90 خودانحصاری تک پہنچ سکتی ہے۔سیبسٹین ہو نے تخمینہ لگایا کہ یہ اسمارٹ فون کے سو فیصد کیلئے لاگو ہوگا اور تقریبا ٹیلی کام انفراسٹرکچر کے سازوسامن کے تقریبا 80 فیصد پر اطلاق ہوگا۔

تاہم بڑے پیمانے پر استعمال کردہ اس امریکی سافٹ ویئرتک رسائی حاصل کیے بغیر ہواوے کو اس کے سامان کیلئے خریداروں کو ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔

گوگل کے اس ہفتے ہوواے کے نئے ہینڈ سیٹ کیلئے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم فروخت نہ کرنے کا فیصلہ چین میں تھوڑا مسئلہ پیدا کرے گا،جہاں ہواوے کو اپنے خریداروں کو ابھی تیار ہوانے والے اپنے آپریٹنگ سسٹم پر منتقل کرنے کیلئے قائل کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔تاہم صارفین بین الاقوامی مارکیٹوں میں اینڈرائیڈ سے منسلک ہیں۔ آزاد تجزیہ کار رچرڈ ونڈسر کا اندازہ ہے کہ کہ یہ تمام سیلز سے محروم ہوجائے گا، اندازا دوسو ملین اسمارٹ فونز کا نصف اس نے گزشتہ سال بھیجے ۔

چینی کمپنیاں اپنی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ منگل کو ٹینسینٹ کی گلوبل ڈیجیٹل ایکوسسٹم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بانی اور چیف ایگزیکٹو پونی ما نے کہا کہ اگر ہم نے بنیادی تحقیق اور اہم ٹیکنالوجیز میں ہماری کوششوں کو مستحکم کرنا جاری نہ رکھا تو ہماری ڈیجیٹل اکانومی ریت پر قائم بڑی عمارت کے مترادف ہوجائے گی اور برقرار نہیں رہ سکتی،نئی معیشت کے اندر ڈیجیٹل تبدیلی کو اکیلے سہولت فراہم کرنے دو۔

اگرچہ امریکا مضبوط پوزیشن میں نظر آتا ہے، ٹیک سرد جنگ واپس پرانی کیفیت پر آسکتی ہے۔ کشیدگی کو بڑھانے سے چین کو ٹیکنالوجیکل خودانحصاری کیلئے زور دینے نے نئی فوری ضرورت دی۔

متعدد امریکی پالیسی سازوں کے لیے ، یہ ادائیگی کے قابل قیمت ہے۔ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ اگر چین اور امریکا میں ٹیکنالوجی کی صنعت ایک خاص حد تک جدا ہوجاتی ہے تو ہمیں زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔

چین کے پاس جوابی کارروائی کے لیے گنجائش ہے۔اپنی مارکیٹ تک رسائی سمیت لیورز کا اس پر دارومدار ہے۔یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے گولڈ مین ساکس کے تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ فی حصص ایپل کی آمدنی میں تقریبا 30 فیصد کمی ہوسکتی ہے،ایم اینڈ اے کے معاملات میں تاخیر یا امریکی ٹریژری بانڈ کو پچھاڑسکتا ہے۔

الیکٹرانکس سپلائی چین میں چینی مینوفیکچررز کی اہمیت بھی ملک کو اس کی سرحدوں سے باہر اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے مضبوط پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔ چینی وزارت تجارت کے اہلکار گاؤ فینگ نے جمعرات کو خبردار کیا کہ امریکی کارروائی عالمی صنعتی اور سپلائی چین کی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔

ایک امریکی صنعتی شخصیت نے کہا کہ یہ امریکی ٹیک شعبے کو اپنی حکومت کے ساتھ برہمی کا احساس پیدا کرتا ہے۔

چین سے درآمدات پر زیادہ ٹیرف کے حوالے سے پہلے ہی ناخوش امریکی ٹیک کمپنیاں جو ہواوے کو فروخت بھی کرتی ہیں،کو بھی اہم عالمی کسٹمر چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں انتہائی شدت سے اس کی بازگشت محسوس کی جارہی ہے۔ 2019 کے پہلے چار ماہ میں طلب میںدوسرے نصف باؤنس کیلئے چپ اسٹاک کی قیمتوں کا بنیادی انڈیکس 50 فیصد تک پہنچانے کا مقصد تھا۔ گزشتہ چار ہفتوں میں،یہ تقریباََ 20 فی صد واپس نیچے گرگیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کوششوں کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی،اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ہواوے کو دوبارہ ایک وسیع تجارتی معاہدے کا حصہ بنانے کا راستہ بن سکتا ہے۔اگرچہ اسی وقت اور کسی بھی تضاد کے بارے میں واضح آگاہی کے ساتھ انہوں نے زور دیا کہ کمپنی سیکیورٹی نکتہ نظر سے کافی خطرناک تھی۔

یہاں تک کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی جنگ کے الجھاؤ کا خاتمے کرسکتے تو شروع کرسکتے تھے۔ یہ شدید مسائل کے حل میں کم مدد کرسکتا ہے۔زیادہ تر ٹیک ایگزیکٹوز نے اپنی مارکیٹس کو کھولنے کیلئے یا ان کے انٹرنیٹ کو روکنے کے خاتمے کیلئے بیجنگ کی جانب سے کسی بھی سنجیدہ رعایت کی بجائے صورتحال کے تسلسل کیلئے استعفیٰ دے دیا۔ چین کے لیے ضمنی واقعہ نے اہم سبق کیلئے نئی تقویت دی ہے کہ خودانحصاری سے ٹیک سیکورٹی آسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وائٹ ہاؤس ٹیک سرد جنگ کی جانب نتیجہ خیز اقدام لیا ہے جو سالہاسال برقرار رہ سکتا ہے۔ 

تازہ ترین