سیاسی عدم استحکام میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔جس کا اثر معاشی سرگرمیوں پر بھی پڑرہاہے۔سابق صدر آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد سندھ میں تادم تحریروہ ارتعاش پیدا نہیں ہوا جس کی تیاریاں کی گئی تھی تاہم آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد سندھ میں پی پی پی کے ورکرز سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا سندھ کے بعض علاقوں سکھر، بدین، نواب شاہ، حیدرآباد میں جیالوں نے احتجاجاً سڑکیں اور کاروبار بند کروادیا۔ حکومت اور نیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی ریلیاں نکالیں اورسندھ بھر کے ضلعی ہیڈکوارٹرز میں کارکنان نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔کراچی میں جیالوں نے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے حکومت اور نیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ احتجاج میں صوبائی وزراء سیداویس قادر شاہ، سردارشاہ، مرتضی بلوچ، سلیم جلبانی، سینیٹرانورلعل ڈین، رکن سندھ اسمبلی شمیم ممتاز، بحران خان چانڈیو، نجمی عالم ودیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر اویس قادرشاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اپنے شہر میں گیڈر بھی شیرہوتا ہے۔آصف علی زرداری کو سندھ سے گرفتار کرکے دکھاتے تو پھر مانتے۔ انہوں نے مزید کہاکہ وفاقی حکومت نے طبل بجایا ہے۔ تو اب دمادم مست قلندرضرور ہوگا۔ لاڑکانہ میں سابق صدروپیپلزپارٹی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف جیالے احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے ، ہوائی فائرنگ کی، ٹائرنذرآتش کیے، ہنگامہ آرائی کے باعث تمام تجارتی مراکز بند ہوگئے، جیالوں نے کینیڈی مارکیٹ میں پیپلزسیکریٹریٹ پر جمع ہوکر حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ پیپلزپارٹی کے مقامی رہنماؤں عبدالفتح بھٹو ودیگر کی رہنمائی میں جیالوں نے جناح باغ چوک پر دھرنادیا۔ سکھر میں ڈنڈا بردار کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور کاروباری مراکز بند کرادیئے جبکہ سکھر پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ حیدرآباد میں پیپلزپارٹی ، سندھ پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پیپلزپارٹی یوتھ آرگنائزیشن کی جانب سے ڈسٹرکٹ کونسل اور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ٹائر جلائے اوروفاقی حکومت ونیب کے خلاف نعرے بازی کی۔ٹنڈو الہ یار میں پیپلزپارٹی یوتھ ونگ اور زرداری برادری کی جانب سے پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جبکہ بچانی ہاؤس سے پریس کلب تک ریلی بھی نکالی گئی۔ جیالوں نے آصف علی زرداری کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت اور نیب کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔جبکہ ٹنڈوالہ یار ، سکرنڈ، کوٹ غلام محمد، کشمور، سانگھڑ ، کنری ، سجاول اور دیگر شہروں ، قصابات میں بھی چھوٹے بڑے مظاہرے ہوئے۔آصف زرداری جعلی بینک اکاؤنٹس سمیت مختلف کیسز میں 31 اگست 2018 سے عبوری ضمانت پرتھے اور9 ماہ 10 دن عبوری ضمانت پر رہے۔ نیب نے صرف دو کیسز میں آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں لیکن معاملات ایک درجن کے قریب کیسز کا ہے جن میں نیب کو زرداری صاحب مطلوب ہیں اور نیب ان سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے یہ معاملات انتہائی سنگین ہیں اور منی لانڈرنگ کیسز سے جڑے ہوئے ہیں، آصف زرداری لمبی عدالتی اور قانونی جنگ میں داخل ہوگئے ہیں اس قسم کی جنگ وہ پہلے بھی لڑچکے ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ وہ اس قسم کی عدالتی جنگوں کے لیے بہت ہی تجربہ کار شخصیت ہیں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصف زرداری ایک طویل عرصے کے لیے نیب کی قید میں ہیں ان کی گرفتاری بہت بڑا سیاسی واقعہ ہے وہ پیپلزپارٹی کے عملاً سربراہ ، ملک کے سابق صدر اور دوسرے بڑے صوبے سندھ میں ان کی حکومت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری پر سندھ حکومت پر کیا اثرات مرتب ہونگے، ایک جانب سے نیب اور حکومت کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ احتساب کا عمل منطقی انجام تک پہنچایاجارہا ہے۔ اس کے لیے بہت بڑا سنگ میل عبور کیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نیب کے 3 کیسز میں زیرتفتیش ہیں اس حوالے سے ان کا معاملہ بھی کافی سنگین ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ زرداری کی گرفتاری سے پی پی پی کو فائدہ ہوگا کیونکہ بلاول بھٹو کاپی پی پی کولیڈ کرنے کا موقع ملے گا ادھر زرداری کی گرفتاری کے بعد سندھ میں مزیدگرفتاریاں بھی خارج ازامکان نہیں اسی لیے پی پی پی نے وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ کی گرفتاری پر بھی مشاورت شروع کردی،ذرائع کے مطابق پی پی پی کی قیادت سیدمرادعلی شاہ کی گرفتاری کی صورت میں ناصرحسین شاہ کو نیا وزیراعلیٰ بنانے کی تیاریاں کررہی ہیں وزیراعلیٰ سندھ ان شوگر ملز کو شیئردیتے جن میں مشینری ہی نہیں تھی۔ وزارت خزانہ میں گھپلوں، ایک مقامی اسپتال کو زمین کی الاٹمنٹ دینے کے الزامات میں نیب تحقیقات کی زد پر ہے یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی سندھ میں چھوٹے احتجاج کے علاوہ ملک بھر میں کوئی بڑی تحریک چلانے کی سکت نہیں رکھتی جیسا کہ مسلم لیگ(ن) پنجاب کے علاوہ تحریک چلانے کی سکت نہیں رکھتی کہاجاتا ہے کہ دونوں جماعتیں اب بھی پس پردہ مک مکا کے چکر میں ہیں اور ان کی امیدوں کا مرکز جے یو آئی اور ان کے کارکن ہے اس تحریرکی اشاعت تک جے یو آئی کے سربراہ مولانافضل الرحمن کراچی کا دورہ کرچکے ہوں گے ممکنہ طور پر وہ جے یو پی سمیت دیگر جماعتوں کےسربراہوں سے بھی ملاقات کریں گے تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے انتخابات کے بعد مولانافضل الرحمن کی کئی باتوں، مشوروں سے اختلاف کیا ان حالات میں جبکہ تحریک چلانے کا کلی فائدہ پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کو ہوگا جے یو آئی حکومت مخالف تحریک میں اپنے کارکنوں کو جھونکےگی ادھر کراچی سمیت سندھ بھر میں پانی اور بجلی کابحران شدت اختیارکرتا جارہا ہے عوام پانی، بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں شہر کے متعددعلاقے کئی کئی گھنٹے بجلی سے محرم رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں کو قلت آب کا بھی سامنا ہے۔ حب ڈیم اور دریائے سندھ سے پانی کی مناسب مقدار ملنے کے باوجود سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے اور اپنے محاصل سے پاکستان اور سندھ کو چلانے والے شہر کراچی کے شہری پانی کو ترس رہے ہیں محکمہ بلدیات سندھ کے ماتحت ادارہ فراہمی ونکاسی آب کراچی کے افسران کی نااہلی سے شہر میں پانی کا بحران بدترین شکل اختیار کررہا ہے پانی کی شدید قلت کے باعث عیدالفطر اور اس کے بعد کے ایام میں ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی، دودراز علاقوں تک ٹینکرمافیاباآسانی منہ مانگی قیمت پر پانی پہنچارہا ہے شہر کے کئی علاقوں میں لائنوں کے ذریعے پانی کی فراہمی متاثر ہے پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے کراچی میں پانی کی طلب ایک ارب گیلن سے تجاوزکرگئی ہے جبکہ ادارہ فراہمی ونکاسی آب کراچی کے پاس 50 کروڑ گیلن کی رسد ہے، شہر میں پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم کی وجہ سے بھی بحران شدید ہوگیا ہے شہرکے مختلف علاقوں جن میں کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، بلدیہ ٹاؤن، گلستان جوہر، سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی، نیوکراچی، گلشن اقبال، گڈاپ ، کیماڑی، اولڈسٹی ایریا، برنس روڈ اور صدر سمیت شہر کے بیشترعلاقوں میں پانی کی فراہمی شدید متاثر ہے شہری ٹینکر کے ذریعے پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔کئی علاقوں میں پانی کی قلت کے سبب دھرنے دیئے گئے پی ٹی آئی کراچی کے سابق رہنما اشرف قریشی نے نیوکراچی کے علاقے میں جب ریلی نکالنے کے لیے تشہری بینر لگائے تو ان بینروں کو مبینہ طور پر پی پی پی کے کارکنوں نے جلادیا جس سے گشیدگی پیدا ہوئی کراچی کے ان حقیقی مسائل پر حیرت انگیزطور پر پی پی پی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، ایم کیوایم، جے یو آئی، سنی تحریک،تحریک لبیک سب ہی نے چپ سادھ رکھی ہے۔