• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبردادخان
مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی اس مقام پر جہاں آج یہ نیوکلیئر ریاست کھڑی دکھائی دیتی ہے کو ایک تکلیف دہ حقیقت سمجھتے تو ضرور ہیں۔ مگر اسے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، یہ صورتحال پچھلے 10ماہ میں پروان نہیں چڑھی، بلکہ ہماری دیرینہ ناقص اندرونی اور بیرونی پالیسیسوں کا آئینہ ہے جو ہم نے کم و بیش پچھلے 10-15برسوں سے اپنا رکھی ہیں ریاستیں کمزور ہونے کی عمومی وجوہات غیر محفوظ سرحدیں، سیاسی خلفشاری، کرپشن میں ڈوبی بیوروکریسی اور اشرافیہ کے علاوہ کمزور اعلیٰ نظام عدل ہے جنکے ساتھ معاشی ناہمواری اور مذہبی عدم آہنگی مل کر ایک ایسا ماحول ترتیب دے دیتی ہیں جہاں آئین اور قانون کی حکمرانی کا نام و نشان نہیں مل پاتا اور ایسے ماحول میں دھونس دھاندلی میں درست کم غلط رویوں  سے افراتفری کے ماحول پیدا ہوکر معاشرے کی جڑیں کمزور کردیتے ہیں۔ ایسا ہی ماحول آج میرے آبائی وطن میں ہے چار صوبوں کی شکل میں ملک کی تقسیم سے مقامی جاگیردار اور وڈیرے تو فائدہ میں رہے مگر اس تقسیم نے وقت گزرنے کے ساتھ ملک کو مضبوط کرنے کی بجائے اسے مزید تقسیم اور کمزور کردیا۔ چاروں صوبے ملکر مرکز کو مضبوط کرتے نظر نہیں آتے پچھلی حکومت کے دورانیہ میں نیشنل ایکشن پلان بنا تو ضرور مگر سیاسی وجوہات کی بنا پر دو صوبوں میں اس پر پوری طرح عمل نہ ہوسکا۔ اس وقت تک ملک مکمل طور پر دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ ملکی مفاد میں یہی تھا کہ ہمارے دشمن کے تیار کردہ ان منصوبہ جات سے بھرپور انداز میں ابتدا سے ہی نمٹ لیا جاتا مگر ملک کو اندرونی طور پر کمزور کرنیکے ایسے منصوبہ جات نے ہمیں کمزور کردیا جس سے ہم تاحال سنبھل نہیں سکے ہیں۔ کیونکہ دشمن ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے پیچھے ہے بحیثیت ریاست ہم نے ان خطرات سے نمٹنے میں دیر کردی ہے جس طرف دیکھیں دشمن ارادوں کے نشان ملتے ہیں۔ صورتحال کو مزید سمجھنے کیلئے ہمیں دشمن کی ایسی آوازوں کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے وغیرہ پر کہیں زیادہ توجہ دیکر ان کے توڑ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے پانچ سال کے دوران کل وقتی وزیرخارجہ نہ ہونے کے ثمرات پاکستان کی جھولی میں گر رہے ہیں۔ پاکستان کو جس طرح معاشی اور سیاسی سطح پر گھیر لیا گیا ہے۔ جہاں سیاست کے کئی حصے اور نظام حکومت کے کئی پہلو ملک دشمن راہوں پر چلتے ملتے ہیں اعلیٰ نظام عدل کو ہی لے لیجئے، عدلیہ کے کئی حصوں کا ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا ماحول بنائے پائے جانا۔ اعلیٰ ترین سطح پر ریاست شکنی کے زمرے میں آتا ہے وقت کی ضرورت ہے کہ عدلیہ آہنی فیصلوں سے ریاست کو مضبوط کرے۔ بدقسمتی سے ریاست کے اس اہم ستون کے اندر موجود تقسیم ملکی استحکام کیلئے ایسے خطرناک اشارے ہیں جن سے معاشرہ افراتفری کا شکار ہورہا ہے جسے روکنے میں ریاست کامیاب نہیں  ہورہی ملک کے اندر حکومتی رٹ بھی ہر قدم پر چیلنج ہورہی ہے یہاں پرانا نظام نئے کے پائوں نہیں لگنے دے رہا معاملات نیب تحقیقات کے ہوں یا نیب پراسیکیوشن کے ہوں سیاستدانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ان معاملات کو سیاسی رنگ دیکر معاملات آگے نہیں بڑھنے دے رہا اس سیاسی اشرافیہ کو بیوروکریسی کے اہم حصوں کی بھی حمایت حاصل ہے کیونکہ دونوں طبقات عوامی وسائل کی چراہ گاہ سے اکٹھے مال کی لوٹ مار کرنے کے اتحادی ہیں انہی وجوہات کی بنا پر حکومت نہ تو لوٹی دولت واپس لانے اور نہ ہی مار دھاڑ کرنے والے افراد واپس پاکستان لانے میں تاحال کامیاب ہوسکی ہے۔ صوبوں کے درمیان نفرتیں بڑھنے سے وفاقی رٹ کمزور ہورہی ہے افواج پاکستان ملکی سرحدوں میں گہرے انداز میں مصروف ہونے کے علاوہ جس طرح بلوچستان میں دشمن کی طرف سے پرموٹ کی گئی بھارت سے نمٹنے میں  مصروف ہیں سے واضح ہوتا ہے کہ صرف یہی ایک ادارہ ہے جو ملکی بقا اور استحکام کے معاملات سے نمٹنے میں دلچسپی بھی رکھتا ہے اور ممکن حد تک ان سے نمٹنے کی اہلیت بھی اس کے درمیان موجود ہے۔ نظام کے دیگر اہم ناکام ہوتے حصوں کا ہر دفعہ بوجھ افواج پاکستان کے کندھوں پر ڈال دینا بھی کمزور ہوتی ریاست کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ سوال اٹھتے ہیں کہ اتنے کم عرصہ میں ایک متحرک ریاست کو کن وجوہات کی بنا پر یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ لوگ پاکستان کے ساتھ انگیج ہونے سے کترانا شروع ہوچکے ہیں وہ کونسل سیاسی اور عسکری پالیسیاں ہیں جنکی وجہ سے ہمارے ہمسائے بالخصوص بھارت اور افغانستان ہمارے گہرے دشمن بن چکے ہیں؟ بھارت کے ساتھ 70سالہ دیرینہ کشمیر ایشو پر کبھی حالات اتنی خراب سطح پر نہیں پہنچے جہاں آج ہیں ہمارا مخالف ملک اس ایشو پر ہمیں دفاعی پوزیشن پر لے آیا ہے ملک کے سیاسی اور دفاعی مائنڈ سیٹ کو اپنے اردگرد کے آن گرائونڈ حالات کے مطابق ایڈجسٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ کئی ممالک کو پاکستانی نیوکلیئر صلاحیت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لیکن ہماری نہ کام کرتی سفارتکاری بھی ہمارے ناراض دوستوں کو اپنے کیمپ میں نہیں لاسکی ہے۔ ہمارے مخالفین کے لگائے ہوئے الزامات کہ پاکستان دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے میں مصروف ہے کو ہم ناکارہ نہیں بناسکے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے ایک نیا کام کرتا بیانیہ پرموٹ ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے مختلف اعضا بھی کام نہیں کررہے۔ سیاسی سٹرکچر گالی گلوچ دینے اور لینے کا ایک میدان بنا ہوا ہے۔ بات خواہ عید کے حوالے سے ہو یا رمضان شروع ہونے کے حوالے سے ہو ایسے چھوٹے معاملات پر بھی نظام موجودہ حکومت کی رٹ تسلیم کرنے سے انکاری ہے جو تشویشناک ہے۔ دشمن ممالک کا پاکستان دشمن ایجنڈا ہر محاذ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ اگر ریاست کے اندر طاقت اور حکومتی مشینری کے اندر موجود لوگوں نے معاملات کی درستگی کیلئے مشترکہ عزم کے ساتھ اقدامات نہ اٹھائے تو خدشہ ہے کہ ملک کہیں مزید افراتفری کا شکار نہ ہوجائے۔ جمود کا شکار حکومت اس اہل دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ مشکلات میں گھری ریاست کو مضبوطی سے کھڑے رکھ سکتی ہے۔ حکومت کے پاس ایمرجنسی کا آپشن ہے جسے استعمال کرتے ہوئے آئینی تبدیلیوں کے ذریعہ کچھ عرصہ کیلئے اس ریاست کو ایک قومی سطح کے ایسے خول میں ڈھال دیا جائے جس سے قومی سلامتی اور حکومتی رٹ مضبوط ہوسکیں۔ انتہائی مشکل معاشی حالات سے کم از کم دو سال تک ہمارا واسطہ رہے گا۔ لہٰذا اہم معاشی ماہرین اور غیر نیب زدہ سیاستدانوں پر مشتمل درمیانی مدت کیلئے ایک قومی حکومت بھی ایک معقول آپشن ہے جو ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹ سکتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ حکومت این آر اوز کے حوالے سے دبائو میں ہے یہ دبائو نہ صرف اپوزیشن کی طرف سے بلکہ جس طرح کچھ سیاستدانوں کے معاملات سے نمٹا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ اور طاقتور لوگ بھی اس دبائو میں شامل ہیں۔ جب آئین اور قانون کی حکمرانی کی تلقین سبھی کرتے ہیں تو اس پر عمل بھی اسی سپرٹ میں ہونا چاہئے اور ایسی ہی راہوں پر چل کر ریاست اپنی منزل طے کرلے گی۔ وزیراعظم محترم کو صوبائی دارالحکومتوں میں زیادہ وقت گزارنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کا یہ پیغام کہ اسے پورے ملک کی فکر ہے۔ مضبوط ہوکر ایک مضبوط پاکستان کو اوپر اٹھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہے۔
تازہ ترین