• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ساتھیو! دیو جیسے اور تیز رفتار ریلوے انجنوں کی حققیت آج سے کچھ عرصہ پہلے کچھ بھی نہ تھی۔ ہمیں ان سائنس دانوں کی ہمت ، صبراور استقلال کی داد دینی چاہیے، جنہوں نے ان تھک کوششوں سے بھاپ کو انسان کا غلا م بنا دیا اور لوہے کی پٹڑی پر لوہے کے بڑے بڑے انجن دوڑا دیئے۔

انگلستان میں 1650ء میں لوہے کی پٹڑی پر پہیے دار گاڑیوں چلنے لگی تھیں، انہیں گھوڑے کھینچتے تھے اور ان میں کانوں سے کوئلہ ڈھویا جاتا تھا۔ جب سائنس دانوں نے بھاپ کی طاقت کا راز معلوم کرلیا تو انہوں نے بھاپ سے چلنے والا انجن بنانے کی ٹھانی ،جو گھوڑے کی جگہ لے سکے۔

اس قسم کے انجن کی ایجاد میں بہت سے سائنس دانوں کا ہاتھ ہے۔ ان ہی میں سے ایک انگریز ، ٹری وی تھک ، تھا، جس نے 1804ء میں بھاپ کا انجن بنانے کی کوشش کی، مگر جارج اسٹیفن سن ان سب سے بازی لے گیا۔وہ بھی انگریز ہی تھا۔ اسے بچپن ہی سے انجنوں سے بہت لگاؤ تھا اور وہ ان کے کل پرزوں کو دیکھتا بھالتا رہتا تھا۔

آخر وہ کئی سال کی محنت کے بعد ، 1815ء میں ایک ایسا انجن بنانے میں کامیاب ہوگیا جو بھاپ سے چلتا تھا اور پٹڑی پر دوڑتا تھا۔ اس انجن کا نام راکٹ تھا۔ 1825ء میں انگلستان میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی تو اس پر اسٹیفن سن ہی کا انجن چلایا گیا۔

اس انجن نے 1829ء میں 36 میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ کر 500 پاؤنڈ کا انعام حاصل کیا۔۔ رفتہ رفتہ ایسے انجن بنائے گئے جو بہت طاقت ور بھی تھے اور چلنے میں ہچکولے بھی کم لگتے تھے۔

اب ہر ملک میں ایک سے ایک بہتر انجن بننے لگے اور اس قدر بنے کے بجائے ناموں کے انہیں نمبروں سے پکارا جانے لگا۔آخر وہ وقت بھی آگیا جب برصغیر پاک وہند میں ریل کی پٹڑی کا جال بچھنا شروع ہوا۔سب سے پہلے ہندوستان میں 1845ء میں کلکتے سے رانی گنج ، بمبئی سے کلیان اور مدارس سے ارکو نام تک ریل کی پٹڑیاں بچھائی گئیں1860ء میں کراچی سے کوٹری تک تقریباََ 150 میل لمبی پٹڑی بچھائی گئی ۔یہ پاکستان میں پہلی ریلوے لائن تھی۔ جب سے اب تک ریلوے انجنوں نے بہت ترقی کی ہے۔ پہلے پہل بھاپ کے انجن بنے، پھر ان کی جگہ ڈیزل سے چلنے والے انجنوں نے لے لی۔ اس کے بعد بجلی سے چلنے والے انجن بن گئے۔ ڈیزل اور بجلی کے انجن بھاپ کے انجنوں کے مقابلے میں بہت تیز رفتار اور ہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔

ریلوے کی بدولت جغرافیائی امتیاز مٹ گئے ہیں۔ گوشے گوشے کے آدمی آپس کے میل جول سے اتحاد والفت کی لڑی میں پرو دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے ریل گاری بہت مفید ہوئی۔ جس طرح انجنوں کی شکل وصورت ، طاقت اور رفتار میں اضافے ہوئے ، اسی طرح ریل کے ڈبوں میں بھی طرح طرح کی تبدیلیاں کرکے انہیں بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ۔

آج کل کی گاڑیوں کے ڈبوں میں بجلی کے پنکھے، نرم نرم گدیلے، میز، کرسیاں، سردی، گرمی اورریت سے حفاظت کے سامان مہیا کئے گئے ہیں۔ نہانے کے لیے غسل خانے اور لمبے سفروں میں گاڑیوں کے ساتھ کھانے کے ڈبے بھی ہوتے ہیں۔

تازہ ترین