• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمان یوسف

وہاب صاحب اپنے بیٹےنعمان کو لینے میدان میں پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنے دوست توصیف سے گپ شپ میں مصروف ہے۔ ”ارےنعمان ! تم کل ا سکول کیوں نہیں آئے؟“ توصیف نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا۔

”وہ دراصل ،“ نعمان سے کوئی جواب نہ بن پارہا تھا۔” ہاں وہ بات یہ ہے کہ کل مجھے سردرد تھا اور معمولی بخار بھی، جس کی وجہ سے میں اسکول حاضر نہ ہوسکا‘ آج کچھ صحت بہتر ہے“ اس نے جھوٹ بولا۔وہاب صاحب کو دکھ ہوا وہ افسوس کرنے لگے کہ اُن کا بیٹا جھوٹ بولتا ہے ۔

دونوں باتوں میں اتنے مشغول تھے کہ ، انہیں یہ خبر نہ ہوئی کہ وہاب صاحب اُن دونوں کی گفتگو سن رہے ہیں۔

” نعمان تمہارے ابو آئے ہیں۔“توصیف نے وہاب صاحب کو دیکھ لیا تھا۔نعمان ابو کوسامنے پاکر بوکھلا گیا۔ ”چلو بیٹا، شام ہوگئی ہے گھر چلو“ وہ بظاہر تو مسکرا کر بولے لیکن اندر ہی اندر افسوس کررہے تھے اور بہت دکھی بھی تھے۔

”جی ابو! یہ کہہ کر نعمان ان کے ساتھ چل دیا۔ ”تم نے توصیف سے جھوٹ کیوں کہا کہ تمہیں بخار تھا، جبکہ تم صبح تمھیںدیر ھوگئی تھی اس لیے تم نے چھٹی کرلی تھی۔“ راستے میں وہاب صاحب نے اُس سے پوچھا”وہ وہ ابو!چھوٹے موٹے جھوٹ تو آج کل کے زمانے میں چلتے ہیں۔‘‘ نعمان نے کہا

’’لیکن تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، جھوٹ بولنا برے بچوں کا کام ہے، آپ تو اچھے بچے ہونا!“ ابو نے مسکرا کر کہا۔

تو وہ بولا”جی ابو میں آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولو گا۔“ ”بہت خوب“ ابو نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا۔

” دروازے پر کسی نے دستک دی۔ ”نعمان بیٹا! جاکر دیکھو کون آیا ہے!“ابونے آواز دے کرکہا”جی ابو!“ نعمان دروازہ کھولنے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو بولا,”ابو ،آپ کے دوست شوکت انکل آئےہیں۔

“ ”اوہو،جب دیکھو پریشان کرنے چلا آتا ہے‘پتہ نہیں اور کام نہیں ہوتے اِسے‘ ۔ ابو غصے سے بول رہے تھے۔ ”نعمان اِسے کہو ابو دفتر سے ابھی نہیں لوٹے۔“ وہاب صاحب نے کہا۔ وہ دروازے کی طرف گیا اور کہنے لگا،انکل ابو جان نے آپ کو بہت برا بھلا کہا اور یہ بھی کہا ہے کہ اُسے جاکر کہہ دو کہ دفتر سے نہیں لوٹا‘ معلوم نہیں اُنہوں نے جھوٹ کیوں بولا‘ ویسے وہ مجھے جھوٹ سے بولنے سے منع کر تے ہیں۔“ اس نے اداس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

شوکت کو جھٹکا لگا اور وہ حیران ہوکر بالا،“کیا؟ وہاب مجھے برا بھلا کہتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے‘مجھے اُس سے یہ اُمیدہرگز نہیں تھی۔ شوکت چلا گیا اور نعمان بھی اپنے دماغ میں کئی سوال لئے گھر میں آگیا۔

شام کاکھانا کھانے کے بعد وہاب صاحب کے موبائل پر گھنٹی بجی، اُنہوں نے سکرین پر دیکھا تو شوکت لکھا تھا ۔اُنہوں نے کال ریسونہ کی ،مگر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ آخر تنگ آکر انہوں نے کال ریسوکی اور فون کان سے لگا کر ”ہیلو“ کہا۔

دوسری جانب شوکت کی افسوس اور دکھ بھری آواز آئی،“ وہاب ! تم سے یہ امیدنہیں تھی تم نے مجھے برا بھلا کہا‘تمہارے بیٹے نے مجھے سب بتا دیا اصل بات تو یہ ہے کہ تم دوستی کے لائق نہیں ہو،تم ایک نمبر کے جھوٹے انسان ہوآج کے بعد تیری میری دوستی ختم!”اتنا کہہ کر شوکت نے فون بند کردیا۔

وہاب صاحب کونعمان پر غصہ آیا‘انہوں نے اُسے بلایا اور ڈانٹتے ہوئے کہا، ”تم نے شوکت کو ہر وہ بات بتادی جو میں نے اس کے بارے میں کہی تھی۔“”ابو!آپ بھول گئے؟“جواب دینے کی بجائےنعمان نے اُلٹا سوال داغ دیا”کیا؟“ ابو! آپ پرسوں والی بات بھول گئے، جب میں نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا تو آپ نے مجھے نصیحت کی کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے لیکن آپ وہ نصیحت فراموش کرگئے‘ آپ نے مجھے تو جھوٹ بولنے سے روکا تھا ،مگر خود آپ نے اپنے دوست سے جھوٹ بولا اور مجھ سے بھی کہاکہ اُن سے جھوٹ بول دوں کہ آپ ابھی دفتر سے نہیں لوٹے‘ آپ نے مجھے تو نصیحت کی لیکن خود عمل نہیں کیا۔پھر فائدہ کیا مجھے نصیحتیں کرنے کا؟ جس دن آپ نے مجھے جھوٹ بولنے سے روکا تھا، اسی دن سے میں جھوٹ سے نفرت کرتا ہوں اور سچ بولتاہوں‘ اِس لیے میں نے شوکت انکل سے سب کچھ سچ کہہ ڈالا۔

“نعمان نے اس قدر معصومیت سے کہا کہ وہاب صاحب کو اُس پر بے ساختہ پیار آگیا۔”بیٹے!تم سچ کہتے ہو‘ میں جھوٹ بولتا ہوں‘ اب میں بھی تمہاری طرح اچھا بچہ اور سچ بولنے والا بچہ بن گیا ہوں۔“”کیا ابو آپ بچے ہیں؟“ نعمان نے حیرانگی سے کے عالم میں پوچھا۔

”ارے نہیں! سچ بولنے والا آدمی بن گیا ہوں۔”وہاب صاحب کو اپنی بات پر ہنسی آگئی تھی۔ ”ابوہم کل جا کر شوکت انکل کو منائیں گے۔

“ ٹھیک ہے۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے انعمان کو گلے سے لگا لیا۔ 

تازہ ترین