• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:اسلم چغتائی…لندن
60کی دہائی کے آخر میں جب میں پہلی مرتبہ برطانیہ آرہا تھا تو اس وقت پی آئی اے دنیا کی چند معروف اور اعلیٰ درجے کی ائرلائنز میں شمار ہوتی تھی۔ہمارا پی آئی کا جہاز کراچی، استنبول اور پیرس کے راستے لندن پہنچا، استنبول ہوائی اڈے پر اس وقت کے پاکستان فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ کو جہاز سے اترتے دیکھا وہ دورے پرآئے تھے اور پھر ترک حکام نے ان کا پر جوش استقبال کیا۔ ترکی اس وقت ایک زیادہ لبرل معاشرہ تھا۔ میرے ساتھ اس وقت میری پھوپھی برطانیہ آرہی تھیں اور انہوں نے برقع پہنا ہوا تھا ائرپورٹ پر ترک مر دو عورتیں انہیں بڑے غور سے دیکھ رہے تھے۔ اس طرح تو انگریز بھی کسی برقع پوش خاتون کو نہیں دیکھتے تھے اس جہاز میں اس وقت پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو بھی لندن تک آئے تھے اس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ترکی حالیہ سیاسی و معاشی بحرانوں پر قابو پاتا ہوا آج تیزی سے معاشی و سیاسی طور پر ابھرتا ہوا ملک ہے۔ طیب اردگان کی طویل قیادت میں ترکی معاشی طور بہت ترقی کررہا ہے بلاشبہ آج بھی غربت ہے اور مانگنے والے سڑکوں اور بازاروں میں نظر آتے ہیں عوام کے اندر ملکی ترقی اور وطن سے محبت کا جذبہ موجود ہے۔ ایک دن ایک دوکان پرہم ایک جرسی خرید رہے تھے تو میں نے دوکاندار سے پوچھا کہ یہ کس ملک کی بنی ہوئی ہے تو اس نے بڑے فخر سے جواب دیا کہ یہ یہاں ترکی کی بنی ہوئی ہے یہ عام چائنا کا مال نہیں ہے، جرسی بڑی وزن دار اور پائیدار تھی۔ ترکی میں ریسٹورنٹ اور مٹھائی کی دوکانیں عام ہیں۔ تازہ فروٹ اور سبزیوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ 2017ء میں میں نے اپنے بھتیجوں اور کزن اشرف چغتائی کے ساتھ ترکی شہر انتطالیہ (Antalya) کی سیر و سیاحت کی۔ انتطالیہ سمندر کے کنارے پر واقع شہر ہے۔ یہاں پر بڑے ہوٹل اور شاپنگ سینٹرز ہیں۔ ایک تاریخی رومن بندرگاہ بھی ہے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ انتطالیہ سے کوچ کے ذریعہ خوبصورت قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوئے۔ ایک دن کا سفر پر ہم پموکالے( PAMUKALE ) کے مقام پہنچے جو کہ ترکی کے مغرب میں واقع ہے۔ یہاں نزدیکی پہاڑی مقام سے سفیدی مائل (دھات) بہتی ہوئی ایک مقام پر برف کی طرح جم جاتی ہے جو کافی بڑے ایریا تک پھیلی ہوئی ہے یہاں پر کثیر تعداد میں سیاح جمع ہوتے ہیں اور اس قدرتی نظارے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی کے نزدیک HIERABLIS CITY ایک قدیم رومن کھنڈرات کی شکل میں شہر ہے جس کی تاریخ 190B.Cہے۔ عظیم کلیسم تالاب اور ارد گرد کے مناظر اور کھنڈرات عظیم قدیم رومن سلطنت کی یاد دلاتے ہیں۔ اس علاقے کی خوب سیر کی اور تصویریں بناتے رہے۔ رات گئے دیر سے واپس ہوٹل واپس پہنچے۔دوسرے ہی سال 2018میں دوستوں عزیزوں کے ہمراہ ایک بڑے گروپ کی شکل میں استنبول جانے کا پروگرام بن گیا۔ استنبول ایک بڑا عظیم تاریخی شہر ہے اس کا قدیم نام قسطنطنیہ ہے اس شہر کو بازنطینی شہنشاہ قسطنطین نے بسایا تھا۔ اس شہر کو ایشیا اور یورپ کا سنگم کیا جاتا ہے۔ یہاں کا معروف پل BOSPHORUS BRIDGEایشیا اور یورپ کو آپس میں ملاتا ہے۔ استنبول صدیوں تک قدیم یونانی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ امیر معاویہؓ کے دور میں سب سے پہلے اس شہر کو مسلمانوں نے فتح کیا اور اس وقت سے لے کر دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ تک یہ شہر عثمانی سلاطین کا دارالخلافہ رہا۔HAGIA SOPHIA صوفیہ یہاں کی عظیم الشان مسجد تھی جسے اب عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہاں پر عظیم تاریخی اسلامی تبرکات بڑی تعداد میں رکھے ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ ہم نے یہاں تصویریں بنائیں اسی مقام کے نزدیک عظیم BLUE MOSQUE بلیو مسجد جس کو سلطان احمد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ مسجد سلطان احمد کے دور میں 1609اور 1616 کے درمیان سات سال میں مکمل ہوئی۔ یہاں کی اذان بڑی روح پرور ہوتی ہے۔ یہاں پر ہم نے کئی نمازیں اور ایک جمعہ کی نماز بھی ادا کی اور تصویریں بنائیں۔2018ء کے آخر میں استنبول کے اتاترک ائرپورٹ کے متبادل نئے استنبول ائرپورٹ کا افتتاح کیا گیا ہے جو دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہوگا۔ ہوائی اڈے پر ترکی کے اپنی ائرلائن کے جہاز زیادہ تر نظر آتے ہیں۔ پانچ دن کے اس یادگار سفر کے چھٹے دن واپس لندن آگئے۔
تازہ ترین