• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلوں کی اہمیت اگرچہ ان کے نتائج سے عیاں ہوا کرتی ہے تاہم بعض فیصلے بسا اوقات خود اپنی اہمیت بھی اجاگر کر دیتے ہیں، محکمہ اسکول ایجوکیشن کا 300مکتب اسکولوں کو جنرل اسکولوں میں تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی بادی النظر میں ایک ایسا ہی فیصلہ ہے، جس کیلئے بذریعہ مراسلہ چودہ اتھارٹیز کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ مسجد مکتب اسکولوں کا درجہ تبدل کرنے کیلئے 4رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر متعلقہ کمیٹی کا چیئرمین ہو گا۔ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ اسکولوں کو بجٹ اور مانیٹرنگ کی مشکلات کے باعث جنرل اسکولوں میں تبدیل کیا جائے گا۔ مدارس اور مکاتب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ علم و فنون کی ترویج میں ان کے کردار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ قرون اولیٰ میں مسجد نبویؐ میں موجود اصحاب صفہ کے چبوترے کو اولین مکتب قرار دیا جاتا ہے تو قرون وسطیٰ میں اسلامی سلطنت میں ہر جگہ مدارس و مکاتب دکھائی دیتے ہیں حتیٰ کہ بغداد جیسے کئی شہر دینی و دنیاوی علوم کے مراکز تھے۔ ہندوستان میں بھی صوفیائے کرام کی خانقاہوں میں مکتب ضرور ہوا کرتے تھے، البتہ انگریز نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد ایک جدید نظام تعلیم دیا اور ملک بھر میں اسکول اور کالج قائم کئے۔ مدارس و مکاتب بھی قائم رہے کہ انگریز کے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے باعث مسلمانوں کا جدید تعلیم کی طرف رجحان کم ہی رہا۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں شرح خواندگی اور جدید علوم پر دسترس کا یہ فرق آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا اس حقیقت سے صرف نظر ممکن ہے کہ جدت کی نفی نے ہمیں ان اقوام سے صدیوں پیچھے کر دیا جو اس وقت گہرائی میں ڈوبی تھیں جب مسلمانوں کی علمی و عملی ترقی کا آفتاب نصف النہار پر تھا؟ ہمیں عہد حاضر میں دنیا کے ہم قدم ہونا ہے تو جدید علوم پر عبور حاصل کرنا ہی ہو گا، دینی تعلیم لازم ہے تو عصری علوم سے بیگانگی بھی مضر ہے، مکاتب سے اسکول کا سفر ایک اہم اقدام ہے جسے بتدریج ملک بھر میں پھیلا کر شرح خواندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے اور یہی اس ملک و قوم کا مطلوب و مقصود ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین