سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال 2019-20 کے لیے 1218 ار ب کا صفر خسارے بجٹ پیش کیا جس میں انہوں نے 15 فیصد تنخواہ اور پنشن میں اضافہ کیا ہے۔ بجٹ میں پیپلزپرامس پروگرام جوکہ چیئرمین پیپلزپارٹی نے اپنے انتخابی مہم کےد وران غربت کے خاتمے کے لیے ایک پروگرام کا اعلان کیا گیا تھا، رکھا گیا ہے۔ آئندہ مالی بجٹ میں بجٹ کے تخصیص کے لحاظ سے پہلی ترجیح تعلیم، صحت اور پھر امن وامان کو دی گئی ہے۔نئے مالی سال میں بورڈآف ریونیو کووصولیوں کا ہدف 145 ارب مقررکیاگیا، 835 ارب روپے وفاق سے محصولات کی مدمیں وصول ہوں گے، بجٹ میں ترقیاتی فنڈز کی مددمیں 5.283 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ترقیاتی فنڈز میں ضلع اے ڈی پی کے 228 ارب بھی شامل ہیں، صحت کے لیے 50.13 ارب روپے، تعلیم کے لیے 618.178 ارب روپے اور امن وامان کے لیے 110 ارب روپے مختص کیے گئے ہیںسندھ اسمبلی میں صوبائی بجٹ پیش کرتے ہوئےوزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی تمام ترتوانائیاںلوگوں کی خدمت کرنے پر صرف کردی ہیں۔ صوبائی آمدن کے اہدف 082.243 ارب روپے سے نظرثانی کرکے 746.240 ارب روپے کردیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وصولیوں میں کمی کے باعث ہم نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی ہے جو کہ رواں مالی سال میں 941.172 ارب روپے تک رہے ہیں۔ مالی سال 2018-19 کے دوران انتظامی اخراجات میں کمی کی گئی ہے۔ انتظامی امور کے اخراجات کی مدمیں چوتھی سہ ماہی کے بجٹ کا جزوی حصہ جاری کیا گیا ہے۔ تمام مالی مشکلات کے باوجود ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کی ہے کہ صحت اور تعلیم کی سہولتوںکے لیے خاطرخواہ بجٹ مختص کیاجائے۔ بجٹ تخمینہ 2019-20وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ 2019-20میں صوبے کی وصولیوں کا تخمینہ 218.1ٹریلین روپے ہیں جبکہ اخراجات کا تخمینہ 217.1 ٹریلین روپے ہے۔ وفاقی منتقلیوںکے طور پر صوبے کو 375.835 ارب روپے وصولی کی توقع ہے۔ ہماری اپنی صوبائی وصولیاں رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہیں اور اگلے مالی سال کے لیے صوبائی محصولات کاہدف 082.243ارب روپے سے بڑھ کر 4.355 ارب روپے ہوگیا ہے۔ وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے پوسٹ بجٹ کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت کی نااہلی ثابت شدہ ہے۔ جس سے صوبے بھی متاثر ہورہے ہیں اور ناتجربے کاری کی سزا عوام کو بھگتنا پڑرہی ہے۔ وفاق نے سندھ کے حصے کی رقم بھی 3 مرتبہ تبدیل کی اور 4 دن میں 34 ارب روپے کھالیے۔ کراچی کے لیے وفاقی حکومت کا 45 ارب روپے رکھنے کا دعویٰ غلط ہے، اصل رقم صرف 12 ارب روپے ہے، سندھ میں گورنرراج کا کوئی امکان نہیں، وفاقی حکومت کو تو بجٹ منظور کرانے کے بھی لالے پڑے ہیں، گورنرسندھ کو توچھٹیوں اور سونے سے فرصت نہیں، ویسے ان کا کوئی کام بھی نہیںہے، پنجاب کا سرپلس بجٹ ہوائی لگتا ہے، پیسے اضافی تھے توتنخواہوں میں اضافہ کردیتے۔وفاق 4 دن میں سندھ کے 34 ارب روپے کھاگیا، 30 مئی کو 666ارب روپے دینے کا کہا گیا تھا، 10 جون کو یہ رقم 632 ارب روپے کردی گئی اور وفاقی بجٹ کا اعلان ہواتو یہ رقم مزید ایک ارب روپے کم کرکے 631 ارب کردی۔ وفاق اپنی نااہلی کی وجہ سے صوبوں کو گرارہا ہے، پنجاب اور کے پی کے کا بجٹ عمران خان نے اسلام آباد میں اوکے کیا تھا، اسلام آباد سے صوبوں پرقبضہ کبھی نہیں دیکھا، وزیراعظم کے ہر اجلاس میں شرکت سے نیاتجربہ ملتاہے۔ سندھ نے تعلیم کے لیے 220 ارب روپے کا بجٹ دیا ہے جو 18 فیصد زائد ہے اسی طرح صحت کے لیے بجٹ میں 19 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ، خصوصی تعلیم 76 فیصد اور امن وامان کے لیے 57 فیصد زیادہ بجٹ رکھا گیا ہے، وفاقی حکومت کا پی ایس ڈی پی 951 ارب روپے ہے جس میں سندھ کا حصہ صرف 3.5فیصد ہے، کراچی کے ترقیاتی بجٹ میں کمی کی گئی ہے۔ وفاق نے کراچی کے لیے 45 ارب روپے کہاں رکھے ہیں۔سندھ کے بجٹ میں شہر قائد کے لیے 36 ارب روپے رکھے ہیں، عالمی اداروں کی معاونت سے کراچی پر 16 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، اس طرح کراچی کے لیے سندھ کا مجموعی بجٹ 52 ارب روپے کا ہوگا، کلک کے نام سے کراچی کے منصوبے پر 24 کروڑ ڈالر خرچ کئے جائیں گے، واٹراینڈسیوریج بورڈ کی بہتری کے لیے ورلڈ بینک کے تعاون سے 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال میں کراچی کی 150 سے زائد مختلف اسکیموں کے لیے 8 ارب 92 کروڑ 68 لاکھ 85 ہزار روپے مختص کئے ہیں جبکہ سالڈویسٹ کی اسکیموں کے لیے مختص کی جانے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔سندھ حکومت نے امن وامان کے شعبے کے لیے غیرترقیاتی بجٹ ایک کھرب 48 کروڑ 3 لاکھ روپے سے بڑھاکر ایک کھرب 9 ارب 78 کروڑ 8 لاکھ روپے کردیا، جبکہ مختلف گریڈز کی 3 ہزار نوکریاں دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔وفاق کی جانب سے کٹوتی کے بعد سندھ حکومت کے بجٹ کو متوازن بجٹ کہاجاسکتا ہے اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ کا تجربہ باقی صوبوں کے وزراء خزانہ اور وزراء اعلیٰ سے بجٹ کے معاملے پر بہت زیادہ ہے۔ ادھر بجٹ والے دن سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی گرفتار کرلیا گیا آصف علی زرداری اور فریال گرفتاری پر سندھ میں کہیں علاقوں اور شہروں میں مظاہرے ضرور ہوئے تاہم صوبائی قیادت کی جانب سے کوئی حکمت عملی یا کارکنوں سے رابطے نظرنہیں آئے کہا جارہا ہے کہ پی پی پی کی صوبائی قیادت گرفتاریوں کے خوف سے فرنٹ پر نہیں آرہی۔تاہم سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان کی شدید ہنگامہ آرائی کے باوجود آصف علی زرداری کی گرفتاری کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ سندھ اسمبلی نے سندھ پولیس ایکٹ 1861 کے خاتمے اور پولیس آرڈر 2002 کی بحالی کاترمیمی بل کثرت رائے سے منظورکرلیا، بل کی منظوری کے لیے ایوان میں جاری کارروائی میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے اتحادجی ڈی اے نے بھرپور حصہ لیا جبکہ اپوزیشن کی 2 بڑی جماعتوں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا اصرار تھا کہ بل کو منظوری سے قبل مزیدغور کے لیے ایوان کی سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے ۔