• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کے کنویں میں گٹر کا پانی رِس کر آنا اور اس سے پیدا شدہ مسائل

تفہیم المسائل

سوال: کراچی میں کنوؤں کے پانی کا استعمال عام ہے ،اور جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں یا ان کا پانی رِس رہا ہے جو بالآخر کنوؤں تک پہنچ رہا ہے اورکنوؤں کے پانی کو ناپاک کررہا ہے ۔ میں بذاتِ خود ایک مقامی لیبارٹری میں کام کرتا ہوں جس کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ پانی میں گندہ پانی شامل ہوگیا ہے۔ اسی معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کراچی کے کنوؤں کا پانی ، شرعی اعتبار سے پینے ،غسل اور وضو کے قابل ہے یا نہیں ؟(زاہد شاہ تیموری ،کراچی)

جواب: پانی کا رنگ ،ذائقہ اور بُونجاست گرنے کی وجہ سے تبدیل ہوجائے یا وہ مائِ مُستعمَل(یعنی ایسا پانی جسے طہارت کے لئے استعمال کیا گیا ہے) ہو تو قابلِ استعمال( یعنی قابلِ وضو اور غسل) نہیں رہتا ،علامہ نظام الدین لکھتے ہیں :’(پینے کے ) پانی کا کنواں اگر نجاست کے گڑھے کے قریب ہے، تو جب تک اس کے ذائقے ، رنگ اور بُو میں تغیر نہ آجائے ، وہ پاک ہے، ’’ظہیریہ‘‘ میں اسی طرح ہے، اور ان دونوں کے درمیان فاصلے کی حد دو ہاتھ سے کم مقرر نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ یہ حد دس ہاتھ تک ہو اور اگر کنویں میں(اتنے فاصلے کے باوجود) نجاست کا اثرپایا جاتا ہے تو اس کنویں کا پانی نجس ہے اور اگر ایک ہاتھ کے فاصلے پر بھی ا س کنویں میں نجاست کا اثر نہیں پایا جاتا تو وہ پانی پاک ہے، ’’محیط ‘‘میں اسی طرح ہے اور یہی صحیح ہے ، ’’محیط السرخسی ‘‘ میں اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:20)‘‘۔کسی پاک چیز کے گرنے یاکافی عرصے تک محض پانی کے ٹھہرے رہنے کی وجہ سے اس کے اوصاف تبدیل ہوجائیں ،تو وہ پانی ناپاک یا ناقابلِ استعمال نہیں ہوتا ، امام احمد رضا قادریؒ لکھتے ہیں : رنگ یا بُو یا مزہ اگر کسی پاک چیز کے گرنے یا زیادہ دیر ٹھہرنے سے بدلے تو پانی خراب نہیں ہوتا ہاں نجاست کی وجہ سے تغیر آجائے تو نجس ہوگا اگرچہ کتنا ہی کثیر کیوں نہ ہو ،( فتاویٰ رضویہ ، جلد3)‘‘۔

امام احمد رضا قادری ؒلکھتے ہیں : کنویں کے قریب نجس چہ بچہ (گندی نالی یا گٹر ) کا ہونا اُسے نجس کر دیتا ہے بعض نے کہا پانچ ہاتھ سے کم تک بعض نے کہاسات ہاتھ سے کم تک ، اور صحیح یہ ہے کہ جتنی دور سے نجاست کا اثر ظاہر ہو نجس کر دے گا اگرچہ بیس ہاتھ کے فاصلے سے ، درمختار میں ہے:’’کنویں اور نجس چہ بچہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ نجاست کا اثر کنویں میں ظاہر نہ ہو ،رد المحتار میں ہے :’’خلاصہ اور خانیہ کے حوالے سے ہے اسی پر اعتماد ہے اور محیط میں اسی کو صحیح قرار دیا گیا ہے ،بحر ۔اُسی میں ہے : ترجمہ:’’اس میں پانچ ہاتھ اور سات ہاتھ کی روایتیںبھی ہیں، الحاصل یہ فاصلہ زمین کی نرمی اور سختی اور اس کی مقدار کے لحاظ سے مقرر کیا جائے گا ،( فتاویٰ رضویہ ، جلد 3ص:287،مطبوعہ : رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )‘‘۔ اگر گٹر یا سیوریج لائن درست حالت میں ہے اور اس سے پانی رِس نہیں رہا،یا وہ اُبل نہیں رہا ، تو کنوئیں کے اس کے قریب واقع ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن اگر گٹر لائن لیک ہے اور رِ س رہی ہے یاگٹر بندہونے کی وجہ سے اُبل رہا ہے اور زمین کچی ہے اور کنواں اتنے فاصلے پر ہے کہ سیوریج لائن یا گٹر کا پانی رِس کر اس تک پہنچ جاتا ہے ، تو وہ ناپاک ہوجائے گا اور پھر وضو اور غسل کے قابل نہیں رہے گا۔امام احمد رضا قادری ؒ کے فتوے کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے لئے کنویں اور گٹر لائن کے درمیان مستقل طور پر کسی فاصلے کا تعین نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ ہر جگہ کی مٹی اور زمین کی ساخت پر منحصر ہےاور اگر لیبارٹری ٹیسٹ اور کیمیائی تجزیئے سے معلوم ہوجائے کہ گٹر کا ناپاک پانی کنویں میں آرہا ہے تو شرعاً اس کا اعتبار بھی کیا جاسکتا ہے ۔ویسے یہ سٹی گورنمنٹ یا واٹر اینڈ سیورج بورڈ یعنی مقامی حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ سیورج لائن سے پانی کے رساؤ کی مرمت اور جہاں جہاں سیورج لائن کے مین ہول ابل رہے ہیں، ان کے بہاؤ کی درستی کافوری انتظام کریں۔ اس مقصد کے لئے اس محکمے کے پاس تعمیرومرمت کا خصوصی بجٹ ہونا چاہئے، کیونکہ اس سے امراض پھیلتے ہیں اور ان کے علاج کے مقابلے میں یہ احتیاطی اقدامات بہت سستے ہیں، آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوںکے بجٹ سے سڑکیں بنتی ہیں اور وہ واٹرلائین یا سیورج لائن کے ابل پڑنے سے تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں، اور پھر ان پر پہلے سے زیادہ رقم قومی خزانے سے خرچ ہوتی ہے۔ شریعت کے مقاصد میں ایک ’’سدِّذرائع‘‘بھی ہے،یعنی مُفاسِد اور خرابیوں کا راستہ روکنا۔

(…جاری ہے…)

تازہ ترین