• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی حکومت نے صوبے کے لئے مالی سال 2019-20کا 419ارب روپے سے زائد کا میزانیہ ایوان میں پیش کر دیا ہے جس میں 100ارب ترقیاتی اور 319ارب غیر ترقیاتی مد میں رکھے گئے ہیں جبکہ 48.208ارب کا خسارہ ظاہر کیا گیا ہے وفاق اور دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی گریڈ ایک سے سولہ تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اور گریڈ 17تا 20کے افسران کے لئے 5فیصد (ایڈہاک ریلیف ) اضافہ کر دیا گیا جبکہ گریڈ 21اور 22کے افسران کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح پنشنوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیا ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 17500روپے مقرر کی گئی ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ جو معدنی دولت سے مالا مال ہے، اس کی بحیرہ عرب کے ساتھ 770کلو میٹر طویل پٹی قدرت کا بیش بہا خزانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی نظریں اس خطے پر مرکوز ہیں، تاہم بدقسمتی کہیے کہ تاریخ کے 71برسوں میں یہ زیادہ تر عدم توجہی کا شکار رہا۔ آج گوادر جیسے عظیم الشان بین الاقوامی سی پیک منصوبہ شروع ہونے کی بدولت ترقی و خوشحالی کے نئے سفر میں بلوچستان بجا طور پر نئی جہتوں کا متقاضی ہے جس میں امن و امان، سیاحت، صنعت و تجارت، زراعت، صحت، تعلیم اور معدنیات حتیٰ کہ زندگی کے ہر شعبے میں قلیل اور طویل مدتی ٹھوس اور قابل عمل منصوبوں کی ضرورت ہے اور اس میں مزید تاخیر کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ نئے بجٹ میں صوبے کو وفاق سے 339ارب روپے ملیں گے جس میں سے تعلیم، صحت، امن و امان کے لئے 135ارب مختص کرنے کی تجویز ہے۔ یہ بات نہایت حوصلہ افزا ہے کہ ضلعی ترقیاتی پروگرام کے لئے 5300ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ کام بہت پہلے شروع ہو جانا چاہئے تھا تاہم اس پروگرام کو پائیدار بنانے کی ضرورت ہے اگر اس پر مضبوطی سے کاربند رہا جائے تو صوبے کی ترقی و خوشحالی میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین