اگلے روز لاہور کی ایک تنظیم نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف جو کہ خادم اعلیٰ کہلانے پر زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہیں صوبہ پنجاب سے ڈینگی کے خاتمے پر شکریہ ادا کرنے کے لئے ایک بہت بڑی خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ ڈینگی کے ختم کرنے میں جن اداروں کے سربراہوں نے کام کیا۔ ان کو سرٹیفکیٹ بھی دیئے گئے جبکہ ایک طالبہ نے ڈینگی کے حوالے سے ایک تھیسس بھی لکھا تھا۔ اس کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ میاں محمد شہباز شریف نے حسب روایت علی بابا چالیس چوروں کا ذکر بھی کیا اور ان کا یہ کہنا ہے کہ آج معاشرے میں ہر شعبے میں کرپشن کی ڈینگی آچکی ہے یا ڈینگیو آ چکا ہے بھارت میں ڈینگی کو ڈینگیو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کرپشن کرنے والے بڑے بڑے ڈینگیو موجود ہیں۔ ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ کرپشن کے ڈینگی کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کے خلاف جہاد کرنا ہوگا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن کا ڈینگی مچھر تو روز بروز طاقتور اور صحت مند ہوتا جا رہا ہے اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ کرپشن کے ڈینگی کو ختم کرنے کے لئے وہی جذبہ، وہی ٹیم اور وہی کیپٹن چاہئے۔ جس نے ڈینگی مچھر کو ختم کیا تھا یہاں پر قارئین کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ ڈینگی کا مچھر ابھی ختم نہیں ہوا اور بقول پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کہ ایک سال اس کا زور ہوتا ہے۔ دوسرے سال زور نہیں ہوتا پھر تیسرے سال اس کا زور پڑے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو کیونکہ اب اگر اس کا زور پڑا تو اس وقت عبوری حکومت ہوگی اور یقینا عبوری حکومت کو شہریوں کے مسائل اوو مشکلات سے کوئی دلچسی نہیں ہوتی۔ وہ سیاسی عمل کو جلد سے جلد مکمل کرانے میں مصروف ہوتی ہے۔ عبوری حکومت ڈینگی وائرس پر بھی توجہ رکھے تاکہ کہیں مسائل پیدا نہ ہو جائیں کیونکہ جن دنوں الیکشن ہو رہے ہوں گے انہی دنوں ڈینگی کا زور زیادہ ہوگا ان دنوں تو ویسے کئی اور طرح کے بھی ڈینگی میدان میں اتر چکے ہوں گے۔ ایسے ڈینگی جنہیں اس ملک اور عوام سے کوئی دلچسپی نہیں جو صرف اور صرف یہاں کی دولت لوٹنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہی ڈینگیوں کے خلاف تو ڈاکٹر طاہر القادری نے آواز اٹھائی تھی لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے نے کئی چہروں کو بے نقاب کر دیا۔ وہ جو کرپشن اور ہر برائی کے بارے میں بات کرتے تھے،جو ایک دوسرے پر شدید تنقید کیا کرتے تھے وہ پھر اکٹھے ہوگئے، قمر زمان کائرہ نے کیا خوب بات کہی کہ سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف تیز جملوں کا تبادلہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ اصل میں اندر سے سب ایک ہیں اور عوام کو بے وقوف بنایاجاتا ہے حالانکہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس ٹھہرے ہوئے گندے پانی کو ہلانے کی ، اس کے اندر ارتعاش پیدا کرنے کی بہت کوشش کی مگر مفادات نے ایک دوسرے کو پھر اکٹھا کر لیا اور تو اور زرداری اور نواز شریف میں بھی رابطے ہوگئے تو پھر جنگ کس بات کی؟
ڈاکٹر طاہر القادری اس دھرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے یا انہوں نے کیا حاصل کیا؟ یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ البتہ انہوں نے ایک مرتبہ اس سوئی قوم کو جگانے کی جو کوشش کی وہ سیاست کی تاریخ اور عالمی سیاست میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگئی ہے۔بلوچستان کے ایک واقعے نے وہاں کی حکومت کو رخصت ہونے پر مجبور کردیا لیکن یہاں تو کراچی میں ہر روز لوگ اس طرح قتل کئے جا رہے ہیں۔ جیسے کسی کھیت میں گاجر، مولیوں کو کاٹا جاتا ہے۔ اب تک کراچی میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد کا جائزہ لیں تو بلوچستان کے اس حالیہ واقعے میں شہید ہونے والے افراد سے کہیں زیادہ ہیں مگر اس پر نہ تو سندھ کی حکومت گئی، نہ وزیر داخلہ بابا رحمن ملک نے استعفیٰ پیش کیا، بھارت میں ایک مرتبہ ٹرین کا حادثہ ہوگیا تو اس وقت کے وزیر ریلوے نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کئی اور مثالیں ہیں کہ جہاں کوئی ایسی غفلت ہوئی وہا ں کے ہیڈ نے استعفیٰ دیدیا۔ ایک اپنے بابا رحمن ملک ہیں جو صرف بیان بازی پر زور رکھتے ہیں۔ کراچی میں آئے دن قتل و غارت آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا وزیر داخلہ اور سندھ حکومت اس کی ذمہ دار نہیں؟ ابھی کراچی ڈیفنس جو کہ ایک محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے ایک باپ، بیٹا جو کارباری ہیں جن کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں، صرف سٹور پر کوئی چیز خریدنے کے لئے رکے اپنی گاڑی سے اترے اور ان کومار دیا گیا؟
کراچی میں اب تک ہونے والی تمام قتل و غارت جس کسی کے اشارہ پر ہو رہی ہے کیا روز قیامت وہ اپنے رب کے حضور بتا سکے گا کہ اس نے کیوں ہزاروں بے گناہ افراد کو مارا؟ کیا اقتدار کو طول دینے والے سینکڑوں لوگوں کو مارکر تاقیامت زندہ رہ سکیں گے؟ کیا اتنا خون بہانے کے بعد ان کو ہمیشہ کی زندگی مل جائے گی؟ کیا وہ خود کبھی بیمار ہو کر، کینسر میں مبتلا ہو کر نہیں مریں گے؟ کیا ان کی الادیں جن کے لئے وہ دولت کا انبار لگا رہے ہیں ان کو یہ دولت کھانی نصیب ہوگی؟ کیا ان کی اولادوں کو رنگ برنگ کی بیماریاں نہیں لگیں گی؟ خدا کے لئے اس ملک کے لوگوں پر رحم کریں۔ انصاف کریں، قانون امیر، غریب سب کے لئے ایک کریں۔ حال ہی میں آپ سب نے اخبارات میں پڑھ لیا ہوگا کہ ایک ڈی آئی جی کی بیگم جو کہ اپنے میاں کی سرکاری گاڑی چلا رہی تھی۔ اس نے پانچ طالبات کی گاڑی کو ٹکڑ ماری اور گاڑی نہر میں گر گئی۔ کس طرح پولیس والے نے اپنے آفیسر کی بیگم کو بچایا اس ڈی آئی جی کا نام بھی میڈیا میں نہیں آسکا۔ اگر انہی طالبات نے ڈی آئی جی کی بیگم کی گاڑی کو ٹکر ماری ہوتی تو اب تک حوالات میں ہوتیں۔ جب انصاف ختم ہو جاتا ہے تو پھر خونی انقلاب آیا کرتا ہے اور خونی انقلاب اندھا ہوتا ہے۔ خادم اعلیٰ کو اس واقعے کا بھی نوٹس لینا چاہئے تھا، ڈاکٹر طاہر القادری نے انہی برائیوں اور کرپشن کے ڈینگیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ بابا رحمان ملک نے یہ تو کہہ دیا کہ جو ووٹ نہیں ڈالے گا اس کو جرمانہ کیا جائے۔ اس کو گیس اور بجلی کی سہولت سے محروم کیا جائے۔ قوم کو پہلے کون سی گیس اور بجلی مل رہی ہے۔ پہلے تو پچھلے پانچ برسوں میں جو عوام کو گیس اور بجلی نہیں ملی، اس پر حکمرانوں کو جرمانے کئے جانے چاہئیں اور جو لوگ اسمبلیوں میں پہنچ کر کرپشن کریں ان کے بارے میں بھی بابا جی کوئی قانون بنائیں۔ ہر قانون اور اس کی سختی صرف عوام کے لئے نہیں ہونی چاہئے۔