فوڈ ویلیو چین (food value chain) میں پیداواریت سے استعمال تک، سیفٹی پروٹوکول نظر انداز کرنے سے متعدد تباہ کُن بیماریاں جنم لے سکتی ہیںکہ غذا سے پیدا ہونے والی بیماریاں انسانی آبادی کے لیے ایک بڑاخطرہ ہیں۔ دنیا میں وسیع پیمانے پر پھیلنے والے انفیکشنز کی بنیادی وجوہ میں غذائی کمی کے علاوہ غیر معیاری خوراک کا استعمال بھی شامل ہے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال لگ بھگ 60کروڑ افراد (دنیا کے ہر10افراد میں سے ایک فرد) ناقص غذا کھانے سے بیمار ہوتے ہیں اور سالانہ 4لاکھ20ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔مزید بر آں5سال سے کم عمر کے 40فی صد بچّے مختلف غذا ئی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں،جن میں سے لگ بھگ سوا لاکھ ہر سال موت کے منہ میں جاپہنچتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے 20دسمبر2018ء کو ایک قرار دادکے ذریعے ہر سال 7جون کو ’’ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا،جس کا مقصد صحت بخش غذا کےفوائداور غیر صحت بخش غذا یا غذائی قلّت کے نقصانات سے متعلق شعور و آگہی عام کرنا ہے۔پاکستان میں بھی اس اعتبار سےابتدائی عمر میں غذائی قلّت کے حوالے سے کچھ ایسے ہی اشارئیے دیکھے جاسکتے ہیں۔نیوٹریشن سروے2011ء کے مطابق پاکستان مسلسل غذائی قلّت اور مائکرو غذائیت کی کمی کے حوالے سے ابتر صورت ِ حال کا شکار ہے ۔خصوصاً خواتین اور بچّوں کے معاملے میں صورت ِ حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔ بڑھتی ہوئی غذائی کمی کے ساتھ غیر محفوظ غذایا خوراک کی دست یابی بھی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ناقص غذا کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے بہترین اقدامات میں سے ایک، پیک شدہ خوراک یاپیکیجڈ فوڈ کا استعمال ہے، ان کھانوں میں غذائیت و معیار کی برقراری کے ساتھ غذا کی عُمر میں اضافے کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے فوائد کو دودھ کی مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ دودھ کا شمار پاکستان کی اہم غذا میں ہوتا ہے، جو ہڈیوں کو مضبوط بناتا ، بیماریوں سے محفوظ رکھتا اور وٹامنز کی کمی پوری کرتا ہے۔ تاہم، یہی دودھ اگر ناقص اور غیر معیاری ہو، تو مختلف بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیںکہ پاکستان میں دودھ کی سالانہ پیداوارتقریباً 56ارب لیٹر ہے، جس میں سے 90فی صدسے زاید دودھ کھلی اور غیر ٹریٹ شدہ شکل میںفروخت کیا جاتا ہے۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ غیر معیاری دودھ صحت کو سنگین خطرات سے دوچار کرسکتا ہے ۔ویسے تو دودھ غذائیت سے بھرپورہوتا ہے ،لیکن بیکٹیریازکے حوالے سے یہ انتہائی حسّاس بھی ہوتا ہے ، اسی لیے اسے الٹرا ہیٹ ٹریٹمنٹ (UHT)کے پراسیس سے گزارنا انتہائی ضروری ہے، تا کہ بیکٹیریاز اور مائیکرو آرگینیزمز کا خاتمہ ممکن ہو سکےاور صارفین کو محفوظ پیکیجنگ میں ایسا دودھ فراہم کیا جائے، جس کا معیار پیکٹ کُھلنے سے لے کراستعمال ہونے تک برقراررہے ۔پاکستان میںدودھ کی مجموعی پیداوار کا محض5فی صد ہی محفوظ پیکیجنگ کی صُورت فروخت کیا جاتا ہے، جب کہ باقی کھلا دودھ بناکسی کوالٹی چیک کےفروخت ہورہا ہے ۔محفوظ اور صحت بخش دودھ کی فراہمی کی اہمیت کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم پاکستان بھی اپنی کئی تقاریر میںبارہاناقص دودھ کے نقصانات کی جانب نشان دہی کرچکے ہیں، تا کہ صحت کے حوالے سے خطرات کو کم کیا جاسکے ۔چوں کہ خوراک سے متعلق حفاظتی اقدامات حکومتی ذمّے داری ہے، لہٰذا اس ضمن میں ریگولیٹری اتھارٹیز کا کردار نہایت اہمیت کاحامل ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی پہلے ہی صوبے میں کُھلے مسالا جات کی فروخت پر پابندی عاید کرنے کے ساتھ عندیہ دے چکی ہے کہ اب مسالا جات کی فروخت صرف پیکٹس ہی کے ذریعے ممکن ہوگی۔ جن پر تمام بنیادی ضروری معلومات بھی درج ہوں گی۔ کھلے دودھ کی فروخت کے حوالے سے بھی اسی قسم کے اقدامات کی اشدضرورت ہے ۔مثال کے طور پرترکی میں 2002ء سے2012ء تک پیکٹس میںفروخت ہونے و الے دودھ کی شرح30فی صد سے بڑھ کر70فی صدتک جاپہنچی ہے۔ حکومت ڈیری فارمنگ کو سبسڈی کے ذریعے اور ٹیکس ریجیم میںویلیو ایڈیشن ٹیکس سے استثنیٰ دے کر عوام کے لیے دودھ کو سستا کرنے کے اقدامات کررہی ہے ۔اس ضمن میں پاکستان بھی ترکی کی پیروی کرکے محفوظ دودھ کی شکل میں صحت بخش غذا کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے دُرست حکمت ِعملی اختیار کرسکتا ہے ۔ وزیرِ اعظم ،عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنے وعدے اور الفاظ کا پاس رکھتے ہوئے مُلک میںغذائیت کے فروغ کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ہمیں اُمید ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹیز کی نگرانی ، معیار کی جانچ کے لیے جدیدلیبز کے قیام اورخوراک سے متعلق قوانین کے مؤثر نفاذسے ملاوٹ شدہ غذا کی فراہمی پر جلد قابو پایا جا سکے گااور اس طرح ایک صحت مندقوم، صحت مند معاشرے کے قیام کی راہ ہم وارہوگی۔