• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا باسٹھ کی تلوار کرپٹ سیاستدانوں کا قلع قمع کر پائے گی؟جمہو ریت آئین کی ضامن اور جمہوریت کی ضمانت منتخب پا رلیمان جبکہ منتخب افرادکو 62/63کی چھلنی سے گزرناہی ہو گا۔ یہی آئینی تقاضا ہے ۔ مو جو دہ کئی اراکین پارلیمان خود فرما چکے ہیں کہ دو تہائی ممبران 62/63 کے معیار پر پورے ہی نہیں اترتے ۔آئین کی شق6 آئین کی پامالی کرنے والوں کو غدار قرار دیتی ہے۔ یہی آئین شق62 کے معیار پرپورا نہ اترنے والے ہر شخص پر پارلیمان میں داخلے کی پابندی لگاتا ہے۔
آخرARTICLE (62) کا تقاضا ہے کیا؟ (d)62 امیدواران پارلیمان کو مضبوط کردار کا ہونا چاہیے اور اس کو عام طور پر اسلامی شعائر کی خلاف ورزی والا نہ سمجھا جائے۔(e)62 اسلام کی خاطر خواہ تعلیم اور فرائض کو ادا کرنے والا ہو۔(f)62 فہم وفراست بہترین ذہن ، منصف المزاج، صادق اور امین ہوجبکہ عدالتوں میں اس کے اوپر برخلاف حکم نہ ہو۔ (g)62 نظریہ پاکستان اور ملکی سالمیت کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی میں ملوث نہ ہو۔
مقتدر سیا سی جماعتیں جو یوم انتخا بات پر یوم حساب سے بچ کر پہنچنا چاہتی ہیں یومِ حساب کا ذکر سنتے ہی لر زہ بر اندام ہو جانا لازمی امر ہے ۔ ڈاکٹر قا دری ان کے لیے ڈراؤناخواب بن چکے اورادھر ن لیگ جن سیاسی جماعتوں کو چمٹے سے اٹھانے کو تیار نہ تھی ، انہی کے سامنے دوزانو بیٹھ چکی۔جمہوریت اور آمریت کے درمیان چُناؤ کا ایسا مرحلہ جہاں Choice between Devil & Deep Sea ہو۔
جمہوریت بچاتے ہیں تو وطن عزیز امریکہ کا ترنوالہ جبکہ قوم غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری کے عمیق گڑھے میں، اگر آمریت کو موقع ملتا ہے تو ملکی سالمیت پارہ پارہ ۔
62 کی پکار نے قائدین کے اوسان خطا کر دئیے ۔ غیر سنجیدہ اور تلخ گفتگوحواس با ختگی کی وا ضح علامات ہی تو ہیں ۔ کیا وطنِ عزیز ایک مزاحیہ تھیٹر ہے ؟ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب خواجہ ناظم الدین وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو گورنر جنرل کا عہدہ غلام محمد نے سنبھالا۔ دوران ِ اقتدار گو ر نر جنرل غلام محمدکی قوت گویائی بوجہ” لقوہ“متاثر ہو ئی تو گالیوں کی فصاحت و بلاغت بھی جاتی رہی ۔ ہِز ایکسیلینسی نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنی دفتری کرسی کے ساتھ ایک ننگی اور غلیظ گالیوں کا چارٹ آویزاں کرایا اور حسب ِجثہ و حصہ جس کو گالی دینی ہوتی اپنی چھڑی اس گالی کے اوپر رکھ دیتے۔ یوں مرتے دم تک سیاسی مصاحبین اور خدمتیوں کو اپنے فن سے مستفید فرماتے رہے۔
حسِ مزاح کی ایسی ایجادات میں ہمارے قائدین آئن سٹا ئن کو مات دے چکے ہیں ۔ چند دن پہلے قائد ِ محترم نے قا دری ما رچ کا مزاح اڑایا ”پلے نئیں دھیلا تے کر دی میلہ میلہ “۔یہ تبصرہ تھا سب سے بڑے قومی رہنماکاقادری صاحب کے لاکھوں کے اجتماع اور پاکستان کی تاریخ کے سب بڑے اور منفرد دھرنے کے اوپر۔ قائد ِ محترم کی حسِ ظرافت کا شغف ہے ہی خا صا پرا نا ۔آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ ایک مزاحیہ اداکار سے آدھی رات فون کر کے لطیفے سنتے علاوہ ازیں بیر و ن ملک ایک لطیفہ گو سرکاری اخراجات پر ہمراہ ہوتا ۔ 85 سے 90 تک وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے ناطے ایک دفعہ ہائیکورٹ بار میں بحیثیت مہمانِ خصوصی تشریف لے گئے ۔ وکیلوں کی تفریح ِطبع کے لیے ایک لطیفہ سنایا ۔ ”مینوں پتہ چلیا کہ تسیں سا رے ایل ایل بی ہو۔ اے وی دسّو ،اِ تھے کوئی بندے دا بی وی ہے“ (یعنی آپ وکلا ء میں کوئی انسان کا بچہ بھی ہے)۔شق 62(f)کہتی ہے کہ سنجیدہ اور عقلمند ہو نا ضر و ری ہے ۔عقل اور سنجیدگی کاتعین تو ہو چکا۔
میری تشویش کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی (جن کی مطائع سیاست ہی کرپشن کی بیخ کنی ہے) ان کے وا ویلے سے کیوں سرا سیمہ نظر آئے؟ جماعت ِ اسلامی نے تو ایک پھلانگ اور لی ۔آستانہ عالیہ پر جمہوریت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظرنواز شریف صاحب کے ہم رکاب نظر آئی ۔93 میں جماعت اسلامی نے جس طرح کرپشن کے عفریت کو کچلنے کے لئے عظیم الشان مہم شروع کی اور 96 میں اس کا اعا دہ کیا، آج کہیں کر پٹ لو گو ں کے حا لت ضعف میں اُن کو توا نا کر نے کی ممد و معا ون تو نہیں بن چکی ؟کہیں تھکاوٹ اور ما یو سی کی گر فت میں تو نہیں آ چکی ۔عرض صرف اتنی تھی کہ قادری صاحب کے کر پشن کے خلاف مطالبات عمران خان اور جماعت اسلامی کی زبان پر ہی سجتے تھے ۔وطنِ عزیز کو اس حا ل تک پہنچا نے والوں کے خلاف ہی تو جتھہ بندی کرنی تھی ۔
مسلم لیگ ن نے جمہو ریت کو پیش خطرات کی پیش بندی کے لئے پہلا پتہ تو پھینک دیا اور بی بی عا صمہ جہا نگیر جن کا نظریہ پاکستان ، آ زا د عدلیہ اور مضبو ط فوج پر غصہ زندگی کا نچوڑ ہے زرداری صا حب کی ملی بھگت سے بطور نگران و زیر اعظم تجویز کر کے قا ئدین کے عزائم تو آشکار ہو چکے ۔ عاصمہ بی بی جو نظریہ پا کستان اور عدلیہ کے خلاف ہر سا زش میں پیش پیش ، چشمِ تصور میں نگران وزیراعظم بننے والی ہیں۔عا صمہ بی بی زرداری اور نوا ز شریف کی مشترکہ خوا ہش کا مظہر تو ضر ور ہو ں گی لیکن نگران و زیر اعظم کے لئے بھی 62/63کی چھلنی مو جود ، جبکہ محترمہ 62/63کیG, F, E, D سا ری شرا ئط سے فارغ نظر آتی ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کے پتے سے زرداری اور نواز شریف کے فوج، عدلیہ ، امریکہ اور بھارت بارے عزائم بھی عیاں ہوچکے ۔قا ئدین کی ہز ا روں خوا ہشیں ایسی کہ ہر خوا ہش پر ملک کا مستقبل ٹھپ ہی نکلے گا۔قائدین کی امریکی ایجنڈے کی تکمیل ، اداروں کی پامالی ، سیاسی ناعاقبت اندیشی، مک مکاؤ، جوڑ توڑ کی پرکاری ، اپنے اور اپنے بچوں کے کاروبار میں توسیع ، حکومتی وسائل اور مال ودولت کا اپنی جائیداد پر بے دریغ استعمال کے اوپر جومحد ب عد سہ لگ چکا اس کو ہی تو توڑنا چاہتے ہیں ۔
ڈا کٹر تو قیر شاہ اور برا درم محی ا لدین وا نی جیسے دیگر پبلک سر ونٹس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے سا رے کیر یئر کا انحصار سیاست سے جو ڑ لیں اور مخا لفین کی کردار کشی کی مہم اور ان کی زندگی کو اجیرن کر نے میں مستعد نظر آئیں ۔(اگلے کالم میں تفصیلی جا ئزہ لوں گا )۔بس اتنا ضرور سامنے رکھیں کہ ان کی ساری کمائی عوامی خزانہ کی مر ہون منت ہے۔ مزید بر آ ں ماضی میں الطاف گو ہر سے لے کر سعید مہدی اور حفیظ ا للہ اسحا ق جیسے بیو رو کر یٹس کے انجام سے عبرت پکڑیں ۔ایسی غیر قا نو نی حر کتیں سیدھا کو ٹ لکھپت جیل ہی پہنچا ئیں گی۔
3 کروڑ نئے ووٹرز ایک تا ریخ رقم کرنے کو ہیں ۔ گارنٹی کرتا ہوں کہ انتخابی مہم کی شروعات میں ہی قائدین کی زندگی اجیرن اور اینٹ سے اینٹ بجتی نظر آ ئے گی ۔تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور طا ہر ا لقا دری کے نو جوان اگر ڈٹ جائیں ۔جتھوں کی صو رت میں پھیل جائیں۔ گلی ، محلہ، گاؤں ، شہر بد دیانت اور کر پٹ سیاستدانوں کے کرتوت اور کر پشن کی وا رداتوں سے درو دیوار سیاہ کر دیں، ان کا اصلی چہرہ سا منے لائیں یقینا ان کو جا ئے اماں کہیں میسر نہ ہو گی۔نو جوا نوں سے حلف لینا ہو گا کہ جن لوگوں نے پچھلے 65 سال میں وطنِ عزیز کو لو ٹا ہے ، ادار وں کی پامالی کی، ان کا پیچھا قبروں تک کرنا ہے ۔ قبریں چاہے دیارِ غیر میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی اولادوں سے بھی لو ٹی ہوئی دولت کی پا ئی پائی و صول کر نی ہے دولت چاہے اغیار کے کاشانوں میں محفوظ کیوں نہ ہو ۔ آخری موقع ہے وطن کو بچانا ہے ۔سیاسی مافیا بچ گیا تو وطن نہیں بچتا، وطن بچانا ہے تو ان کو فارغ کرنا ہوگا۔
آپ کا ووٹ وطنِ عزیز کی سالمیت اور مثا لی ریاست کا ضا من ، تبدیلی۔قوم کا مقدر ۔
تازہ ترین