• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہیری، میگھن کے نئے گھر سے وابستہ ہندوستانی کی یادیں

برطانوی شہزادہ ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل کی نئی رہائش گاہ فروگمور کاٹیج سے ایک ہندوستانی کی یادیں وابستہ ہیں ۔


اپریل میں تین ملین پاؤنڈ کی لاگت سے ہونے والی تزئین و آرائش کے بعد جب شاہی جوڑا اس تاریخی گھر میں منتقل ہوا تو شاید اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ سوا صدی قبل اسی گھر میں رہائش پذیر ایک ہندوستانی اسی طرح خبروں کی سُرخیوں کی زینت بنا تھا۔

یہ اس وقت کا ذکر ہے جب 1858 ء میں ہندوستان میں برطانوی راج کاآغاز ہوا، 1876 سے وکٹوریا ہندوستان کی بھی ملکہ بن چکی تھیں۔

کہا جاتا ہے کہ انہیں ہندوستان سے خاص انسیت تھی۔گولڈن جوبلی کے موقع پر ملکہ نے فرمائش کی کہ انہیں دو ذاتی خدمت گار ہندوستان سے بھیجے جائیں۔

یہ حکم جب آگرہ کی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ جان ٹائلر تک پہنچا تو انہوں نے اپنے ماتحت کلرک 24 سالہ عبدالکریم اور ایک ہندوستانی خدمت گار محمد بخش کو اس فرض کی ادائیگی کے لیے منتخب کیا۔ دونوں کو انگریزی طور طریقوں میں تربیت دی گئی اور انگلستان جانے والے بحری جہاز میں سوار کرا دیا گیا۔

عبدالکریم اور محمد بخش ونڈسر پہنچے اور پہلی بار ملکہ کو ناشتہ پیش کیا، ساتھ ہی عبدالکریم نے ملکہ کی ہندوستانی پکوانوں سے تواضع شروع کردی۔ وکٹوریا کو یہ کھانے اتنے پسند آئے کہ اب تقریباً ہر روز ہی شاہی محل میں ہندوستانی سالن بننا شروع ہو گئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ عبدالکریم ملکہ وکٹوریا کو ہندوستانی پڑھانے لگے،ملکہ نہ صرف ہندوستانی بولنا سیکھ رہی تھیں بلکہ لکھنے کی مشق بھی کرتیں، انہوں نے اکثر سرکاری اور ذاتی خط و کتابت بھی ہندوستانی میں کرنی شروع کر دی۔

ملکہ کے حکم پر عبدالکریم نے روزمرہ ہندوستانی بول چال کا ایک کتابچہ بھی ترتیب دیا جسے محل کےشہزادے، شہزادیوں اور تمام ملازمین میں تقسیم کیا گیا تاکہ انہیں ہندوستانی عملے سے رابطے میں کوئی دقت نہ ہو۔

یوں جلد ہی عبدالکریم ملکہ وکٹوریا کے اتنے لاڈلے بن گئے کہ ملکہ نے انہیں منشی بنا دیا۔ عبدالکریم منشی بنے تو ملکہ کو سامنے بیٹھ کر میر، غالب اور مومن کے اشعار سنانے لگے۔

ملکہ وکٹوریا عبدالکریم کی بالکل ایک استاد کی طرح عزت کیا کرتی تھیں اور ان کا معمول تھا کہ وہ روز صبح انھیں سلام کرنے آتی تھیں۔

ملکہ کے استاد مقرر ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد منشی عبدالکریم کو ملکہ کا ’انڈین سیکریٹری‘ بنا دیا گیا۔ ان کے لیے دفتر بنایا گیا اور ماتحت مقرر کیے گئے۔ اب منشی کو ملکہ کے لیے بند صندوقوں میں آنے والی ڈاک سنبھالنے کا کام سونپا گیا۔

کچھ ہی عرصے میں منشی کا اثرورسوخ اتنا بڑھ گیا کہ ملکہ ہندوستان سے آنے والی درخواستیں ان کے حوالے کر دیتیں اور انھیں منظور یا نہ منظور کرنے کا فرض بھی وہی انجام دیتے۔

ملکہ وکٹوریا منشی عبدالکریم کی ذہانت، نفاست اور خوش ذوقی کی قائل تھیں۔ وہ منشی کو ’جنٹلمین‘ کہا کرتیں تھیں۔ دن میں کئی کئی بار چٹھی لکھتیں اور انھیں 'میرے پیارے ہندوستانی بچے کہہ کر مخاطب کرتیں۔ اکثر خط ’تمھاری وفا شعار سچی دوست‘ پر ختم کرتیں۔

جب مُنشی عبدالکریم ملکہ کے پاس ملازمت کے لیے آئے تو ان کی عمر صرف 24 برس تھی جبکہ ملکہ کی عمر 68 سال تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وکٹوریا عبدالکریم کو اولاد کی طرح چاہتی تھیں اور ان دونوں کے درمیان پیار بالکل ماں بیٹے جیسا تھا۔‘

ایک بار ایسا بھی ہوا کہ منشی بیمار پڑے تو ملکہ دن میں کئی کئی بار ان کے کمرے میں جا کر تیمارداری کرتیں۔ اس عرصے میں ملکہ ایسے تھیں جیسے کوئی بچہ گود لے لیا ہو اور اس کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب ملکہ کے حکم پر منشی کے اہلِ خانہ کو انگلستان لانے کا انتظام کیا گیا۔ اس طرح منشی کی اہلیہ، ساس، برادرِ نسبتی، بھائی، بہنوئی، پھوپھیاں، خالائیں اور بھتیجے بھی شاہی محل پہنچ گئے۔

جیسے جیسے منشی عبدالکریم ملکہ وکٹوریہ کے قریب ہوتے گئے ،آس پاس کے تمام لوگ، محل کا عملہ اور شاہی خاندان ان کا مخالف ہو گیا۔

محل کے ہندوستانی ملازموں نے منشی کی برائی کرنا شروع کر دی کیونکہ وہ بھی ان کی ترقی سے حسد کرنے لگے تھے۔محل کا تمام انگریز عملہ بھی باغی ہو گیا اور اجتماعی استعفے کی دھمکی دے ڈالی۔

ملکہ کے بیٹے شہزادہ ایڈورڈ، جو وکٹوریہ کے بعد بادشاہ بنے، منشی کی مخالفت میں سب سے آگے تھے۔

وہ منشی سے اس حد تک نفرت کرتے تھے کہ ایک بار انہوں نے منشی کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر چائے پینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ شہزادہ ایڈورڈ نے ملکہ کے ذاتی معالج سر جیمز ریڈ کے ساتھ مل کر دھمکی دی کہ اگر ملکہ نے منشی عبدالکریم کے لیے اپنی حمایت ختم نہیں کہ تو انھیں دماغی مریضہ قرار دے کر تخت سے سبکدوش کر دیا جائے گا ۔

اور پھر 1901 کو ملکہ وکٹوریا کا 81 برس کی عمر میں انتقال ہوا تو ساتھ ہی شاہی محل میں منشی عبدالکریم کا اقتدار بھی ختم ہوا۔ نئے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے حکم پر ونڈسر میں ان کے فروگمور کاٹج پر الاؤ روشن کیا گیا اور اس میں منشی کے کاغذات، ملکہ کے خطوط اور نایاب تصاویر جلا دی گئیں۔

ملکہ کی تدفین کے فوراً بعد ایڈورڈ ہفتم نے منشی عبدالکریم، ان کے خاندان کے افراد اور محل کے تمام ہندوستانی ملازموں کو، جن میں اکثریت آگرہ کے مسلمانوں کی تھی، ہندوستان واپس بھیج دیا۔ اور وطن واپسی پر بھی ان پر سختیاں کی گئیں۔ منشی عبدالکریم نے بقیہ زندگی اپنے آبائی شہر آگرہ میں خاموشی سے گزاردی۔

تازہ ترین