• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایمنٹسی ویک(کمزور) ہے پورا ایف بی آر کا عملہ اس اسکیم کو کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہے اگر چہ جون کا پورا مہینہ بحث و مباحثہ میں گزر گیا حکومت نے اس پر بہت و ضاحتیں دیں،میڈیا کے ذریعے تاجروں اور صنعتکاروں ،دکانداروں کو آگاہی دی مگر کوئی بھی مطمئن نظر نہیں آتا ،خصوصاََ مارکیٹوں کی یونینیں تو بہت تذبذب کا شکار ہیں آخری حربے کے طور پر ایف بی آر نے فائدہ نہ اٹھانے والوں کو سنگین نتائج بھگتنے ،جائیدادوں کی قرقی کا اشارہ دے دیا ہے ۔میڈیا نے ایف بی آر کے سربراہ شبر زیدی کو ظالم حکمران بنا کر متنازع بنادیا ہے مگر ایک بات حقیقت ہے پورا ملک کاروباری طور پر مفلوج ہوچکا ہے۔ ہر طبقہ ہراساں ہے،پی ٹی آئی کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہے ،مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کا بیان بھی سامنے آیا ہے ،انہوں نے انتظامیہ کو خبر دار کیا ہے کہ وہ ہر صورت مہنگائی کو روکنے کا بندوبست کریںانتظامیہ کیسے اس کو روک سکتی ہے ۔خودحکومت نے 10ماہ میں 11مرتبہ گیس،بجلی ،پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھائے،پھر 125روپے سے ایک ایک دن ڈالر کے اضافے میں بھی اسٹیٹ بینک خاموش کردار ادا کر رہاہے ۔نئے وزیر خزانہ حفیظ شیخ جن سے توقع تھی کہ وہ اس کی روک تھام کریں گے وہ اسد عمر سے بھی زیادہ ناکام ہوچکے ہیں ۔ ڈالر167روپے پر بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔میں حیران ہوں 40فیصد مہنگائی کی ذمہ دار تو خود حکومت ہے اس کو کیوں لگام نہیں دی جا رہی،الٹا سوال ہو رہا ہے کیوں مہنگائی خطرناک حد سے بڑھ رہی ہے ، ہر طرف افرا تفری ہے جس کاروبار پر نظر ڈالو ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔معمولی چیز موبائل فون جو آج ایک غریب آدمی سے لیکر امیر تک کی ضرورت بن چکا ہے اس پر غیر ضروری ٹیکس لگا کر عام آدمی کو متاثر کر دیا گیاہے ۔موبائل مارکیٹیں احتجاج کے بعد بند ہونے پر مجبور ہیں۔

وزیر صحت سپریم کورٹ سے ملنے والی قیمتوں کو واپس پرانی سطح پر لانے کیلئے نئے نئے ایس آر او کے ذریعے ادویات کے مینو فیکچروں کو مجبور کر رہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ جب ڈالر 120روپے تھا تو خود DRAPنے تمام چھان بین کے بعد اودیات میں اضافہ کیا تھا ۔آج ڈالر 170روپے کا ہونے کو ہے نئی قیمتیں کس طرح برقرار رہ سکتی ہیں ۔کجا اس پر 15%فیصد کم کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے ۔بجلی مہنگی ہوگئی ڈیزل اور گیس مہنگی ہوگئی ،پانی کا ٹینکر 15ہزارروپے میں فروخت ہو رہا ہے ،صرف ادویات کو میڈیا نے ٹارگٹ کیا ہو ا ہے۔کھانے پینے کی اشیاء دودھ،چاول،دالیں ،سبزیاں،پھل سب 50 فیصد تک مہنگے ہوچکے ہیں۔ ڈالر کی آڑ میں ضروریات کی ہر شے کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے ۔اس پر مقامی حکومتیں کیوں خاموش ہیں ۔تعلیمی اداروں کو چھٹی کے 2ماہ کے صرف 1ماہ کی فیس کا تو پابند بنا دیا ہے ایسے میںاسکول کے ٹیچرز اور کرایوں کی مد میں 2ماہ کی تنخواہیں کیسے ادا ہونگی ؟کیا حکومت کوئی متبادل حکمت عملی نہیں ہے؟۔

سیمنٹ پر بھی اضافہ خود حکومت نے کیا اور تمام ڈیلرز حضرات پر یکم جولائی سے فیکٹریوں سے مال اٹھانے کی پابندی بھی حکومت نے لگا دی ہے ۔ٹیکسٹائل پر بھی سبسڈی بند کر دی گئی اب ہم بر آمدات میں بنگلہ دیش سے کیسے مقابلہ کر سکیں گے۔ 1951کے بعد شہید ملت لیاقت علی کی شہادت کے بعد آنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے بعد قوم کو ایک ایماندار وزیر اعظم عمران خان کی شکل میں ملاتھا جس نے قوم کی حالت بدلنے کا وعدہ کیا تھا،مگر اکیلے وزیر اعظم کو خود اس کے وزراء ناکام بنا رہے ہیں ،اس وقت پی ٹی آئی حکومت میں 16وزراء تو خود پیپلز پارٹی حکومت میں شامل تھے ۔ خصوصاََ وزیر خزانہ حفیظ شیخ وزیر ہوتے ہوئے اس وقت ڈالرز کے اضافے کو نہیں روک سکے تو اب کیسے روکیں گے۔فردوس عاشق اعوان اس وقت وزیر صحت تھیں اور نیب ان کا چالان پیش کرنے والی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کی چھتری میں آگئیں اور مشیر اطلاعات بنادی گئیں ۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ،آصف علی زرداری کے دست رازتھے ۔پرویز الٰہی پی پی پی حکومت میں نائب وزیر اعظم تھے اور نیب سے بچنے کے لئے راتوں رات پی ٹی آئی میں آگئے۔بابر اعوان ،اعظم سواتی اور تو اور فواد چوہدری ،آزاد کشمیر کے چوہدری سلطان محمودیہ سب پی پی پی کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں کیوں آئے۔یہ16کے 16 پی ٹی آئی کی زینت ہیں اور آصف علی زرداری کو اکیلے جیل بھیج چکے ہیں۔ ان سے عمران خان کیسی تبدیلی کی توقع کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن پوری کی پوری اکٹھی ہوکر پی ٹی آئی حکومت پر یلغار کرنے کی پوزیشن لے چکی تھی کہ اچانک اس میں پھوٹ پڑ گئی ۔ اب مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان ملکر جمہوریت کا جھنڈا تھا م کر میثاق معیشت پر دراڑیں ڈالنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔جولائی کا مہینہ کیا پیغام لاتا ہے یہ خود پی ٹی آئی والوں کو بھی نہیں معلوم فی الحال ان کا پورا زور بجٹ اور ایمنسٹی اسکیم کو کامیاب کرانے پر ہے ۔اسمبلی میں دونوں طرف سے دھواں دار تقریریں جاری ہیں ،کل تک جو حزب اقتدار تھے اور الزامات کی زد میں تھے اور یہی مہنگائی کا رونا سن رہے تھے، آج وہ حزب اختلاف بن کر وہی الفاظ دہرا رہے ہیں ۔اسی کشمکش میں 5سال گزر جائیں گے قوم یہ مصیبتیں بھگت رہی ہے پھر بھگتے گی۔دراصل اس مرتبہ وہ تبدیلی کے نعرے میں بہہ گئی ہے ۔بچپن میں ایک شیر سنا تھا تر تیب تو یاد نہیں البتہ نثر میں کچھ اس طرح تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ۔۔ٹوٹی کشتی گھنگور گھٹائیں باد باران یہ مصیبت کچھ کم تھی کہ ناخدابھی تم ہو ۔

تازہ ترین