• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

تحقیقی مجلّہ نہیں!!

5؍مئی 2019ء کا شمارہ بھی آپ کی محنت و ریاضت کی منہ بولتی تصویر لگا۔ ٹھنڈے رنگوں کا ٹائٹل عمدہ، مشرقی حیا کااندازاچھا تھا۔ مختلف مضامین کی ’’ہیڈنگز‘‘بھی سلیقے سے سرِورق کی زینت بنائی گئیں۔ اگرعالموں، فاضلوں، اسکالروں، دانش وروں، مولویوں، شعراء و ادیبانِ بے وقت، غیر سنجیدہ قارئین اور شرارتی نامہ نگاروں کی ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ اخیر صفحات میں دینے ہی کی ضد ہے، تو یوں ہی سہی۔ ہوں تو میں بھی اسی قوم کا ’’پروفیسر‘‘ (معلم، اُستاد) یعنی کہ ’’باپ‘‘، میں بھی میگزین اُلٹا ہی پڑھوں گا۔ نجمی میاں نےحضرت یوسف ؑ کے ’’انتقال‘‘ پر مضمون ختم کیا۔ کاش! نبیوں، پیغمبروں کے لیے لفظ انتقال کی جگہ ’’وصال‘‘ برت لیا جائے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ اپنی جگہ موجود ہی رہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میگزین کی مارکیٹ کا بڑا دارومدار اسی ’’آپا کے صفحے‘‘ پر ہے۔ ویسے سن ڈے میگزین، ہفتہ وار میگزین سے زیادہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کسی تحقیقی مجلے کا رُوپ دھارتا جا رہا ہے۔ یہ ہفتہ وار فیملی میگزین ہے، تو اسے میگزین کی معصومیت کےساتھ ہی چھاپو۔ مثال کے طور پر موجودہ شمارے میں چار مضامین شامل ہیں،جن میں رفیق مانگٹ کا مقالہ تو انٹرنیٹ کی پُرپیچ گلیوں اور تاریک راہوں کامسافر ہے، بھئی یہ تحقیقی مجلّہ نہیں ہے۔ منور راجپوت کا مضمون کسی حد تک یوں اچھا ہے کہ اس میں عوامی رمضان کی بات کی گئی۔ ویسے اگر تم موجودہ منہگائی کے تناظر میں ماہِ رمضان اور عوامی آراء کا کوئی سروے شایع کرتیں، خواتین خانہ کی ماہِ رمضان کے حوالے سے مشکلات، آزمائشوں کا تذکرہ کرتیں، دادی نانی، دادا نانا کے تجرباتِ ماہ رمضان سے نسلِ نو کو آگاہ کرواتیں، تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ لے دے کے ایک مضمون جو رمضان کے حوالے سے واقعی بڑا ہی معصوم اور پیارا تھا، وہ ’’پیارا گھر‘‘ میں فرحی نعیم کا تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں رعنا فاروقی اچھی اور سبق آموز کہانیاں لائیں، تو ڈاکٹر قمر عباس نے ’’جلیانوالہ باغ‘‘ کی خوابیدہ یادجگادی۔ ہیلتھ اینڈفٹنس‘‘ کےذریعےدَمے سے متعلق آگاہی ہوئی۔ مرکزی صفحات پرعالیہ کاشف نے مختصر اور جامع لکھا۔ ماڈل لڑکی بھی ماشاء اللہ پیاری تھی اور پہناوے بھی مشرقی تہذیب و روایات کے آئینہ دار۔ اس کے بعد جگمگاتے ہوئے نمایاں گلابی رنگ کےجلو میں ہویدا تازہ شمارہ ’’ماں نمبر‘‘ پڑھا۔ حسب ِ معمول بہترین تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی سارے ہی چڑیائیں، مینائیں، فاختائیں، قمریاں، بُلبلیں، عنادل، کوّے، توتےاپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ سلیم راجا نے ذہنی معمّا حل کرنے کی ناکام سعی کے بعد ’’ایک واری فیر‘‘ ہم جیسے لازبان قارئین کو ٹھیٹھ پنجابی زبان کی مار ماری، مدیرہ نے جواب بھی اِسی انداز کا ٹِکایا۔ اس شمارے کی خاص بات کہ پیارا گھر، ڈائجسٹ، ناقابلِ فراموش، اِک رشتہ، اِک کہانی، ایک پیغام پیاروں کے نام، سبھی مقبول عام و قبول ِ عوام سلسلے اپنی بہترین تحریروں کے ساتھ موجود تھے۔ رانجھا کی ’’ماں جی‘‘ کمال کہانی تھی۔ اسی طرح مسز گوہر کا ’’ماں کی جانب سے خط‘‘ بھی سبقت لےگیا۔ منور راجپوت نےٹائلز انڈسٹری اور عالیہ کاشف نے ’’نرسنگ ائر‘‘ سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کو سعدیہ امام اور اُن کی ننّھی پَری کی روشن، اُجلی تصاویر اور نرجس ملک کی باغ و بہار تحریر نے چار چاندلگائے۔ واقعی سرِورق نے راتوں رات’’نظر لگ جانے والی‘‘ ترقی کی ہے۔(پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج: لگ بھگ 10 صفحات پر مشتمل آپ کے دو خطوط کایہ ’’عرق‘‘ پتا نہیں آپ کو ہضم ہوتا ہے یا نہیں، البتہ قارئین کو ہم نے ایک بڑی اذّیت سے ضرور بچالیا ہے۔ اور آپ اپنی یہ غلط فہمی بھی دُور کرلیں کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں تحقیقی مضامین کی اشاعت ممنوع ہے۔ یہ جریدہ نہ صرف پوری دنیا، بلکہ ہر طبقۂ فکر میں پڑھا جارہا ہے، تو اسےاِسی تناظر میں ترتیب دینے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

خصوصی اہمیت کیوں؟

سنڈے میگزین کا رمضان کے حوالے سے پہلا شمارہ بہت دل چسپ اور بہترین ثابت ہوا۔ ہر تحریر موقع محل کے اعتبار سے مناسب اور مقصدیت سے بھرپور تھی۔ پچھلے تبصرے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحے کی جگہ تبدیل کرنے پر ہم نے احتجاج کیا تھا۔ لیکن جب بات واضح ہوگئی، تو اب احتجاج مؤخر کرتے ہوئے موجودہ جگہ ہی کو بہترین سمجھتے ہیں کہ بات ہے نیک نیتی اور ذمّےداری کی۔ حضرت یوسف ؑ کے تاریخی قصص اور سوانح کی آخری قسط بہت رقت انگیز تھی۔ آنکھیں ہی نم کردیں۔ منور راجپوت نےرمضان شریف کے استقبال اور اہمیت پر خُوب روشنی ڈالی۔ خاص طور پر خواتین کی ذمّے داریوں کے حوالے سے پیراگراف میں، اُن کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بڑے اچھے اسلوب میں ذکرکیا۔ رفیق مانگٹ کی تحریروں کو سنڈے میگزین میں اس قدر خصوصی اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔ کیا کوئی بہت ہی بڑی ’’پرچی‘‘ ہے۔ پھر اُن کے خاص مضمون کی اخبار میں باقاعدہ خبر بھی شایع ہوتی ہے۔ رئوف ظفر نے شہر لاہور کے ایک ماہر ڈاکٹر سے ملاقات کروائی، جن کا دعویٰ تھا کہ دمَے کی بیماری اب ختم ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس ’’جلیانوالہ باغ‘‘ کے واقعے کی 100سالہ تاریخی یاد تازہ کرتے نظر آئے۔ اور اس بار ’’اسٹائل‘‘ میں ماڈل کو جن لہراتے دوپٹوں کے ساتھ پیش کیا گیا، اے کاش! ایسے دوپٹے دوبارہ خاص و عام میں رواج بھی پاجائیں۔(چاچاچھکّن، گلشن اقبال،کراچی)

ج: کم از کم آپ کو تو سفارش، پرچی کی بات ہر گز نہیں کرنی چاہیےکہ جن کےخطوط ایک طویل عرصے سے میرٹ ہی پر شایع ہو رہےہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کچھ موضوعات اپنی اہمیت کے اعتبار سے خصوصی توجّہ کے متقاضی ہوتے ہیں، تو انہیں زیادہ اچھے انداز سے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔

خوشبوئیں ہی خوشبوئیں

واقعی سب کام یابیاں و کامرانیاں، عزّتیں، جیت کا سب اہتمام والدین، خصوصاً ماں کی دُعا کے طفیل ہی نصیب ہوتا ہے۔ 12مئی کا شمارہ بنام مائوں کا عالمی یوم، جلوہ گر ہوا، تو سعدیہ امام کا اپنی پھول جیسی بیٹی کے ساتھ آنا بہت ہی بھلا لگا۔ سرِورق اور اسٹائل بزم نے ہرسُو خوشبوئیں ہی خوشبوئیں بکھیر دیں۔ ’’فیچر‘‘ میں رئوف ظفر نے بھوک سے علاج کےجدیداسپتالوں سے متعارف کروایا۔ تبھی تو دینِ اسلام میں کم کھانا عبادت قرار دیا گیا ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں عبدالمجید ساجد نے بھی رمضان بازاروں کےقیام کی رُوداد خوب جاں فشانی سے مرتب کی۔ ٹھوکر نیاز بیگ، جوہر ٹائون اور شیر شاہ کالونی کے بازار ہمارے نزدیک واقع ہیں اور ہم نے بذات خود یہاں سےخریداری کر کے جانا کہ واقعی اشیاء سستے داموں پر دستیاب ہیں۔ رپورٹ میں منور راجپوت نےٹائلزانڈسٹری کےمسائل اور مواقع کو جدید حالات کے پیشِ نظر عُمدگی سے اُجاگر کیا، تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں نرسنگ ائر سے متعلق انٹرویوز بھی اچھے تھے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’رب راضی‘‘ اور ’’تقویٰ کے حصول کا مہینہ‘‘ دل نشیں تحاریر ثابت ہوئیں۔ نیز، ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش کے صفحات بھی مطالعے میں شامل رہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے محمد حسین ناز ایک طویل عرصے سے غائب ہیں، ذرا اُن کا بھی کوئی اتاپتا معلوم کریں۔ (ملک محمدرضوان،محلہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹاؤن، لاہور)

ج: ہم کیا اتاپتا معلوم کریں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی تو وہی مثال ہے ؎یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں بلبلیں… اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گی۔ یہاں بھلا کب، کون کسی کو پوچھتا، کسی کو ڈھونڈتا ہے۔ کل ہم بھی نہیں ہوں گے، تو کوئی ہم سا ہوگا۔

کلیجے میں ٹھنڈ

ماں وہ عظیم ہستی ہے، جو قدرت کا سایہ، محبت کی چھایا ہے۔ یہ پیکرِ مہر و وفا اپنے لختِ جگر، نورِ نظر (بیٹے / بیٹیوں) کی پرورش میں بارہ ماہ، تیس دن، پورا ہفتہ اور چوبیس گھنٹے مصروف و منہمک رہتی ہے۔ معاشرہ اسے صلۂ خدمت نہیں دے سکتا، تاہم اعترافِ خدمت بھرپور طور ہونا چاہیے۔ زیرِ تبصرہ شمارے (مدرزڈےایڈیشن) کےدیدہ زیب (سرِورق پر سعدیہ امام کا دل کےجھروکے سے بائیں آنکھ میچ کر قارئین جنگ کو ’’ہیپی مدرز ڈے‘‘ کہنے کا خُوش نما انداز بہت ہی اچھا لگا۔ صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کو آخر میں شایع کرنا بھی ہمیں قطعاً ناگوار نہ لگا، تاہم اس سے تصویرِ زن کے معترضین کے کلیجے میں ٹھنڈ ضرور پڑگئی ہوگی۔ ’’فیچر‘‘ میں رئوف ظفر نے روزے کے سائنسی فوائد بتائے، جب کہ وطنِ عزیز میں آئی ایم ایف سے پسلی توڑ معانقے کے بعد کمر توڑ منہگائی کے ہاتھوں غریبوں کا حال کچھ یوں ہے’’ آئی تے روزی، نئیں تے روزہ‘‘ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں آپ نے پنجاب سرکار کو رمضان بازار پر اگر ایک طرف بدھائی دی، تو دوجے پاسے مزید ایفی شینسی دکھانے کے لیے ہلاشیری بھی دی۔ منور راجپوت نے رپورٹ میں ہم دردانہ لکھا ’’ٹائلز لگاتے وقت آرکیٹیکٹ سےضرور پوچھیں‘‘ اورسونےپر سہاگہ آپ نے یہ فرما کر تراہ کڈھ چھوڑیا کہ ’’خریداری کے لیے چاہیے مہارت‘‘ ’’عالمی یومِ نرس‘‘ کے جوش میں نرس کو ’’معاشرے کی ماں‘‘ قرار دیا گیا۔ بجا فرمایا۔ مزید برآں، ہمارےخیال میں ’’معاشرے کا باپ‘‘ استاد ہے۔ عالمی اُفق میں منور مرزا کا موضوع ِ قلم امریکا کی تیل سیاست تھا۔ اور یہاں ’’خان کے پاکستان‘‘ میں منہگائی کے کالے جن نے عوام کا تیل نکال دیا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کچن میں آپ کی سہولت کار نے انڈوں کے پکوڑے بنانے کی ترکیب بتائی (واہ! ہم تو انڈوں کا واحد استعمال، مشاعروں، جلسوں میں نشانہ بازی ہی سمجھتے تھے) صفحہ ڈائجسٹ پر رانجھا بھائی اور طارق صحرائی کا کامبی نیشن بہ طریقِ احسن چل رہا ہے۔ اگر نیب اور راہنمایانِ سیاست میں بھی کوئی مُک مکا ہوجائے، تو بے حال جَنتا کو بھی کوئی سُکھ چین آجائے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کا ایک ایک لفظ ماں کی عظمت کی گواہی دیتا نظر آیا۔ اور چٹھی کی دُم پر بات صفحہ ٔ دل نشین ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بابت ہوجائے۔ شری مرلی نے اپنے تین سطری پھرّے میں ایک سطر ماڈلز کی مدح سرائی میں وقف کرکے گویا علَم ِ ایثار بلند کردیا اور ہماری اِک عرضی ہے کہ سلیم کوثر، سلیم کاشر، سلیم گیلانی اور سلیم بیتاب سے متعلق کوئی مضمون شایع فرمادیں، تو بندہ حلیم کے ذوق ِ شعری کی تسکین ہوجائے۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج:ارے نہیں بھئی، ہمارے یہاں بھلا کہاں اتنی آسانی سے کلیجے میں ٹھنڈ پڑتی ہیں۔ یہاں تو جب تک اگلے کا کلیجہ ’’جل کے سواہ ‘‘نہ ہوجائے، سکون کی سانس نہیں آتی۔ ابھی تو اس حوالے سے پتانہیں کیا کیا دیکھنا، سُننا باقی ہے۔

وضاحت فرمادیں

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص الانبیاء‘‘ میں حضرت یوسف ؑسے متعلق نگارش کے آخر میں محمود میاں نجمی نے لکھا کہ ’’آپ ؑ نے والد اور سوتیلی والدہ کو تختِ شاہی پر بٹھایا، پھر خود تختِ شاہی پر جلوہ افروز ہوئے۔ تمام درباریوں نے سجدہ کیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر خاندانِ یوسف ؑ نے بھی ایسا ہی کیا، تو اس سجدے سے متعلق کچھ وضاحت تو فرما دیں۔ (قاضی محبوب الٰہی، مصطفےٰ ٹاؤن، وحد ت روڈ، لاہور)

ج: مفسّرین کا کہنا ہے کہ یہ سجدہ عبادت نہیں، محض تعظیم کے لیے تھا، جیسے فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو کیا تھا اور اس طرح کا سجدہ سابقہ شریعتوں میں جائز بھی تھا۔ تاہم، بعدازاں شریعت محمدیؐ میں اسے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ نیز، بعض مفسّرین کا یہ بھی کہنا ہےکہ وہ کوئی باقاعدہ سجدہ نہیں تھا، بلکہ کسی قدر آگے کی طرف جُھکے تھے۔ (واللہ اعلم)

یہ سوہنامنڈا…

’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ آسمان ِ صحافت کی مسندِ بادشاہت پر جلوہ افروز ہے۔ گویا منفرد، دل چسپ، معلوماتی اور قیمتی خزانوں پر مبنی مضامین سے آراستہ یہ ’’سوہنا منڈا‘‘ خاندان کے ہر فرد کی آنکھوں کا تارہ، دل کا سُکون ہے۔ دینی مضامین ہوں یا سیاسی، معاشرتی ہوں یا معاشی، طبّی ہوں یا ناقابلِ فراموش، انٹرویوز ہوں یا سروے، اُمہات المومنین ؓکی حیاتِ طیبہ ہو یا بناتِ رسولؐ کی سیرت، خلفائے راشدین ؓ کا تذکرہ ہو یا عشرۂ مبشرہ کا ذکرِ خیر، کاتبینِ وحی کا تعارف ہو یا حج، عُمرے کے مسائل، بیت اللہ کا سفر ہو یا دیارِ نبیؐ کا بلاوا، رمضان کی رحمتیں ہوں یا اولڈ ہائوس کی دل سوز کہانیاں، یہ سب اسی اِک جریدے کے مرہونِ منت ہے اور نرجس! تم چند صفحات کی ایک چھوٹی سی زنبیل میں ان مختلف رنگوں کی مسحور کن خوشبو کو کیسے قید کرتی ہو، بس یہ کچھ تمہارا ہی کمالِ فن ہے۔ خصوصاً ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات کے ذریعے اُمت کے مُردہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کی جو شعوری کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ صرف محمود میاں نجمی اور جریدے کی ٹیم ہی کے لیے نہیں، ’’ادارہ ٔ جنگ‘‘ کے لیے بھی کسی صدقہ ٔ جاریہ سے کم نہیں۔ اللہ پاک آپ لوگوں کی ثابت قدمی برقرار رکھے۔ اِن دنوں ’’قصص الانبیاء‘‘ کے سلسلے سے معلومات کے دریا بہائے جا رہے ہیں اور ہم بھی اس بیش بہا سمندر سے انمول، قیمتی موتی چُن چُن کر اپنے علمی ذخیرے میں محفوظ کرنے کی سعی کررہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کی محنتوں، ریاضتوں کا بہترین اجر و صلہ عطا فرمائے۔ ادارے کی مشکلات جلد ختم ہوں اور خُوب پھولے پھلے، آمین۔ (ریحانہ ممتاز، کراچی)

ج: بہت بہت بہت شکریہ، اس ’’سوہنے منڈے‘‘ کے سرپرجب تک خاندان کے بزرگوں، بڑے بوڑھوں کا دستِ شفقت، دعائوں کا سایا رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اس پر آنچ بھی نہیں آئے گی۔ آپ لوگوں کی پذیرائی، حوصلہ افزائی ہی سے مہمیز ملتی ہے۔ مگر دُعا کریں، سوہنے منڈے کو کچھ سوہنے سوہنے اشتہارات بھی ملتے رہیں، تاکہ سفر جاری و ساری رہے۔

کبھی ختم نہ ہو

’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی ابتدا سے آج تک بغیرکسی تعطّل، وقفے کے جاری و ساری ہے۔ خدا کرے، یہ سفر کبھی ختم نہ ہو کہ ہمارا تو اس کے ساتھ ساتھ چلے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ تمام ہی سلسلے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور ہر ہفتے ہی طبیعت کی فرحت و شادابی کا باعث بنتے ہیں۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

                                                                                                 فی امان اللہ

                                     اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ ’’مائوں کے عالمی یوم‘‘ کے خاص اہتمام کے ساتھ موصول ہوا۔ سرِورق پلٹا تو نجمی صاحب کے بجائے رئوف ظفر نظر آئے، جو دنیاکےجدید اسپتالوں میں بھوک سے علاج کی سرگزشت سُنارہے تھے، جس سے روزوں کی افادیت سائنسی طور پر بھی واضح ہوگئی اور یہ بھی واضح ہوا کہ اسلامی عبادات دین و دنیا دونوں کی بھلائی کے لیے ہیں۔ آخر آپ نے لوگوں کے بے جا مطالبے پر ہتھیار ڈال ہی دیئے، جو سرِورق کےپیچھے سے ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ کو ہٹانے سے متعلق تھا۔ کیا لوگ جیب میں نوٹ اور والٹ میں اپنی فیملی کی تصاویر کے ساتھ مساجد میں نماز، قرآن نہیں پڑھ رہے ہوتے۔ یقین کریں، اعتراضات اور بے جا تنقید کا عالمی مقابلہ ہو، تو پہلا انعام ہمیں ہی ملے گا۔ عبدالمجید ساجد پنجاب کے ماڈل بازاروں کا احوال سُنارہے تھے کہ عام دنوں میں بھی یہ بازار لگنے چاہئیں۔ جناب!آپ خوش نصیب ہیں کہ رمضان بازاروں سے مستفید ہوئے، سندھ میں تو اس نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان پر ہیں، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ منور راجپوت ٹائلز انڈسٹری کے مسائل بیان کررہے تھے، دُکھ اس بات کا ہوا کہ ایران سے کُھلے عام اسمگلنگ جاری ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ عالیہ کاشف نے شعبہ نرسنگ کی ماہرین سے بات چیت کی، پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ مرصّع تھا، مائوں کے عالمی یوم کی مناسبت سے، جس میں سعدیہ امام اپنی گڑیا سی بیٹی کی انگلی تھام کر چلنے میں خوشی کا اظہار کررہی تھیں۔ واقعی، ماں کا تو کوئی مقابل، کوئی نعم البدل ہی نہیں۔ آپ کی بات چیت بہت شان دار تھی، لیکن اگر سعدیہ کے والدین کا تعارف بھی ہوجاتا، تو تشنگی بالکل دور ہوجاتی۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اب اپنی عُمدہ تحریروں کے سبب پہچانے جاتے ہیں۔ اور یہ ’’ماں جی‘‘ پڑھ کر تو بہ خدا ہم آب دیدہ ہوگئے کہ ہم تو ایک برس کی عُمر ہی میں اپنی ماں سے محروم ہوگئے تھے۔ ہم نے تو ماں کی محبت و ممتا دیکھی ہی نہیں۔ ہمارا دُکھ سب سے سوا ہے۔ ناقابلِ فراموش میں ماں کا قیمتی تحفہ اور نصیحت بھی بڑا سبق آموز تھی۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ بھی رنگا رنگ، خُوب صُورت پیغامات سے بہت سجا نکھرا نظر آیا۔ محمود میاں نجمی نے حضرت ایوب علیہ السلام کے ایمان افروز حالات پر شان دار نگارش قلم بند کی۔ مگر اس ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کو آخری صفحے پر دیکھ کر جی بہت کڑھتا ہے۔ کیا عجیب بات نہیں ہے کہ دنیا داری کی باتیں تو پہلے صفحے پر ہو اور اللہ رسول کی ہدایت آخری صفحے پر۔ رہا آپ کا صفحہ، تو اس پر تو بس مسلسل محمد سلیم راجہ ہی چوکے، چھکّے لگائے جارہے ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: محمد سلیم راجہ چوکے، چھکّے لگاتے ہیں، مگر آپ نے تو آج بھاگ بھاگ کے 4رنز لے لیے۔ ویسے جب ہر دوسرا شخص ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحے کو کہیں آگے شفٹ کرنے کا رولا ڈالے ہوئے تھا، تب آپ کا جی کیوں نہیں کُڑھا۔ اب جو آپ سب نے واویلا شروع کردیا ہے، تب کیوں منہ میں گھنگھنیاں لیے بیٹھے تھے۔ اور سعدیہ امام کے والدین کی رحلت ہوچکی ہے، جب کہ وہ ان کے حوالے سے زیادہ بات بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اِسی لیے آپ کو کچھ تشنگی محسوس ہوئی ہوگی۔

                                       گوشہ برقی خُطوط

  • ای میل شائع کرنے کا بے حد شکریہ۔ پہلے سوچتی تھی کہ لوگ اپنے خطوط، ای میلز شایع ہونے پر اس قدر خوش کیوں ہوتے ہیں۔ اب جب خود اس کیفیت سے دوچار ہوئی، تو اندازہ ہوا۔ بارہا آنکھیں مَل مَل کے اپنا نام دیکھا۔ آپ کو نہیں معلوم میں یہ جریدہ کس مشکل سے حاصل کرتی ہوں۔ دراصل میری والدہ میرے لیے سارے ’’سنڈے میگزین‘‘ سنبھال کر رکھتی ہیں۔ جب میکے جاتی ہوں تو پھر پڑھتی ہوں۔ اللہ میری ماں کو سلامت رکھے۔ (سیدہ شاہدہ، لاہور)

ج: آمین…! ماں جی کو ہماری طرف سے بھی شکریہ کہیےگا۔ اللہ سب کی مائوں کو سلامت رکھے۔

  • میگزین کا مستقبل قاری ہوں۔ منور راجپوت کے اندازِ تحریر اور موضوعات کے انتخاب کا مدّاح ہوں۔ نجم الحسن عطا کی تحریریں بھی شوق سے پڑھتا ہوں۔ (حسن عبداللہ)
  • آپ کا میگزین زبردست ہے۔ سرچشمۂ ہدایت، کا سلسلہ بہت معلوماتی اور میرا مَن پسند ہے۔ اس کے علاوہ مَیں کہانیاں، افسانے، ناول بھی شوق سے پڑھتی ہوں۔ ویسے آپ نیا ناول کب تک شروع کررہی ہیں۔ (بلیو ڈائمنڈ)

ج: پہلے تو تم اپنا نام بتائو۔ یہ ’’بلیو ڈائمنڈ‘‘ کیا ہوا۔ انسان کی سب سے پہلی شناخت تو اُس کا نام ہوتا ہے اور تم لوگوں کو اگر اپنا نام مخفی ہی رکھنا ہوتا ہے، تو پھر ای میل کیوں کرتے ہو۔ میگزین کے صفحات جس قدر کم ہوگئے ہیں، اس میں کوئی نیا سلسلہ شروع کرنا کارِمحال ہی ہے، لیکن پھر بھی ہم کوشش کررہے ہیں۔

  • میرا بہت دل چاہتا ہے آپ کو خط لکھنے کو، لیکن سوچا پہلے ای میل کرلوں۔ مَیں 2006ء سے جنگ، سنڈے میگزین باقاعدگی سے پڑھ رہی ہوں۔ ’’پیارا وطن‘‘ کا سلسلہ مجھے بہت ہی پسند آتا ہے۔ گھر بیٹھے پیارے دیس کے کئی شہروں، مقامات وغیرہ کا تفصیلاً پتا چل جاتا ہے، تو بہت اچھا لگتا ہے۔ (عاطفہ نصیر)

ج:چلو، اس ای میل سے تمہاری جھجک تو دُور ہوگئی۔ اب خط لکھنے کی بھی کوشش کرنا۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین