• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رضیہ جوہر، کراچی

کچھ روز قبل مَیں اپنی دوست فرح سے ملنے اُس کے گھر گئی۔ کافی دیر وہاں موجود رہنے کے باوجود مجھے گھر کی بزرگ خاتون، آنٹی شہلا نظر نہ آئیں۔ یہ غیر معمولی بات تھی،کیوں کہ مَیں جب وہاں جاتی، تو اُنہیں یا تو پرندوں کے پنجرے کے پاس پاتی یا پھروہ پودوں کی تراش خراش میں مصروف نظر آتیں۔ سلام کرنے پر محبّت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اتنے خلوص سے دُعائیں دیتیں کہ دِل ممنونیت بَھرے احساس سے لبریزہوجاتا۔ اور ہمیشہ واپسی پر مجھے ململ کے سفید نم آلود کپڑے میں لپٹے موتیے کے سفید مہکتے پھول دینا نہیں بھولتیں۔ ان کے بارے میں پوچھنے پر پتا چلا کہ علیل ہیں اور اس وقت آرام کررہی ہیں،لہٰذاملے بغیر بوجھل دِل سے واپس آگئی، لیکن فون پر فرح سے آنٹی کے بارے میں پوچھتی رہی۔ ایک روزفرح کی زبانی پتا چلا کہ آنٹی شہلا کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آرہی، تو یہ سُن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور مَیں ان سے ملنے چلی آئی۔ پہلے تو فرح مختلف حیلے بہانوں سے مجھے ٹالنے ہی کی کوشش کرتی رہی، مگر پھرمیرے بےحد اصرار پر مجھے ان کے کمرے میں لے گئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اِک ناگوار سی بو محسوس ہوئی، جیسے کافی روز سے صفائی نہ ہوئی ہو۔ آنٹی کا بیڈ، باتھ روم کی دیوار کے ساتھ تھا،جب کہ باتھ روم کا دروازہ کسی خرابی کی وجہ سے بند نہیں ہوپارہا تھا۔ بستر کے سرہانے آنٹی کی چھڑی اور واکر رکھی تھی۔یہ سب دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا، بول ہی اٹھی ’’فرح! پلیز بیڈ تو باتھ روم سے دُور رکھوا دو، اندر سے کس قدربُو آرہی ہے۔‘‘ ’’ارے بھئی، بیڈ باتھ روم کے قریب ہونے کی وجہ سے انہیں اکیلے آنے جانے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ اب کوئی ہر وقت تو ان کے پاس موجود نہیں ہوتا ناں۔‘‘فرح نے کسی قدر بے نیازی سے جواب دیا۔ مَیں نے دیکھافرح کی بات سُن کر آنٹی کے چہرے کی اُداسی اور آنکھوں کی ویرانی کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔ ان کا نحیف جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ جب مَیں ان کے قریب ہوئی، تو ان کے کپکپاتے ہاتھ میں اتنی سکت نہ تھی کہ میرے سَر تک پہنچ پاتا۔ تب مَیں نے خود اُن کے ہاتھوں کو تھام کر چوم لیا، کیوں کہ یہ وہی ہاتھ تھے،جو جب بارگاہِ الٰہی میں دُعا کے لیے اُٹھتے، تو ان کی دُعائوں میں میرا نام بھی شامل ہوتا۔

فرح سے میری شناسائی اسکول کے زمانے سے تھی۔ ہم دونوں ہم جماعت ہونے کے ساتھ ہم محلّہ بھی تھیں۔ ہمیں کبھی بھی کسی تیسری سہیلی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی، حالاں کہ نہ ہم میں کچھ زیادہ ذہنی ہم آہنگی تھی اور نہ ہی عادات و اطوار میں کوئی مماثلت۔ بس دوستی کا ایک تعلق تھا، جو دیانت دارانہ اور مخلصانہ تھا۔ تعلیم مکمل ہوتے ہی میری شادی میرے کزن سے ہوگئی، لیکن فرح ہنوز اپنے آئیڈیل کی منتظر تھی۔ آنٹی شہلا فرح کے والد کی پھوپھی تھیں۔ ان کے شوہر ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کرگئے تھے، جس کے بعد انہوں نے پوری زندگی اپنے دونوں بیٹوں کی پرورش اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کے لیے وقف کردی تھی۔ وہ گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھیں۔ کچھ سرمایہ شوہر چھوڑ گئے تھے۔ مکان کرائے کا تھا، پھر بھی اُن کی مالی حالت کافی حد تک مستحکم تھی،اسی لیےبیٹوں کو ہمیشہ اچھا کھلایا اور اچھا ہی پہنایا۔ بچّوں کو ان کی زندگی میں باپ کے علاوہ کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی، لیکن جب یہی سپوت کسی قابل ہوئے، تو روزگار کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے بیرونِ مُلک چلے گئے۔عرصے تک تو ماں کو باقاعدگی سے فون کرتے رہے، پھر حالات اور مصلحتیں اُن کے ارادوں پر غالب آنے لگیں۔ پہلے ہفتوں ماں کی یاد نہیں آتی تھی، پھر یہ دورانیہ بڑھتے بڑھتے کبھی کبھارتک محدودہو گیا۔ایسے میں ممتا کی تشنگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہی، جسے کبھی پودوں سے باتیں کر کے، کبھی پالتو بلی کے ناز نخرے اُٹھا کر یا پھر پرندوں کی دیکھ بھال کر کے کم کرنے کی کوشش کرتیں۔ ان کے بیٹے ہمیشہ کے لیے ان سے دُور جا چُکے ہیں۔ اس بات کا اندازہ انہیں اُس دِن بہ خوبی ہو گیا تھا، جب بیٹوں نے باری باری اپنی مجبوریوں کا رونا روتے ہوئے اپنے گھر وہیں بسالینے کی اطلاع دی تھی۔ جس رات دوسرے بیٹے نے بھی وہیں شادی رچالینے کی خبر دی، اُس رات وہ تڑپتی بلکتی، جلے پائوں کی بلّی بنی پورے گھر میں پھرتی رہیں۔ رو رو کر اپنی آنکھیں سُجالیں۔ شومئی قسمت کہ اُسی روزفرح کے والد اپنی پھوپھو کی خیریت معلوم کرنے وہاں پہنچے، تو ان کی ابتر حالت دیکھ کر رہا نہ گیا اور منّت سماجت کرکے زبردستی انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئے کہ انھیں اپنی یہ پھپھو بے حد عزیز تھیں۔

متاعِ رنج و ملال اور مختصر سامان کے ساتھ وہ اپنے لاڈلے بھتیجے کے ساتھ آ تو گئیں، لیکن شروع میں گھر کے مکینوں کا رویّہ ان کے ساتھ اَن چاہے اور بِن بلائے مہمان جیسا روکھا اور سرد ہی تھا۔ اللہ بڑا مسبّب الاسباب ہے۔ وہی دِلوں میں چاہتوں کے بیج بوتا ہے، نفرتوں کی کانٹوں بَھری شاخ پر محبّتوں کے پھول کھلا کر اسے خُوب صُورت اور معطّر کردیتا ہے۔آنٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اُن کے اُس گھر میں آتے ہی فرح کے ابو کی کئی سال سے رُکی ترقّی کے آرڈر جاری ہوگئے۔ اورجب چھوٹی موٹی خوشیاں ہمک ہمک کر ان کے گھر کی دہلیز پر آنے لگیں، تو گھر والوں نے ان کے وجود کو اپنے لیے باعثِ خیر و برکت سمجھ کر قبول کر لیا۔ ان کی زندگی میں سُکون اور ٹھہرائو تو آ گیا، لیکن عزّت دینے والے کبھی بھی غم گساری کی حد کو نہ چُھو سکے۔ آنٹی شہلا کی حیثیت گھر میں خیر و برکت اور سلامتی کے لیے رکھی گئی کِسی چیز سے زیادہ نہ تھی۔ ہاں، فرح کے ابّو کو جب بھی وقت ملتا،ان کے پاس بیٹھتے،خیریت اور ضروریات سے متعلق پوچھتے۔ جواب میں وہ ڈھیروں دُعائوں سے نوازتیں۔انہوں نے کبھی بھی اپنی ذات سے خودداری کا زیور الگ نہیں ہونے دیا، اسی لیے کبھی کسی ضرورت کا اظہار نہیں کیا، جو ملا، اُس پر اللہ کا شُکر ادا کیا۔ ہمیشہ سفید اُجلا لباس زیبِ تن کرتیں۔ بڑے سے دوپٹّے سے دھان پان وجود ڈھانپے وہ کوئی پاکیزہ روح ہی لگتیں۔ گرچہ شہلا آنٹی سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ بس چند سالوں کی شناسائی تھی، مگر یہ شناسائی قرابت داری سے بڑھ کر ہوگئی تھی۔ اُن کے ممتا بَھرے رویے میں مجھے اپنی ماں کی جھلک نظر آتی۔ یہی وجہ تھی کہ مَیں اپنی ماں کی کمی پوری کرنے کے لیے آنٹی شہلا سے وقت، بے وقت ملنے چلی آتی۔ ان کے ساتھ جتنا وقت گزرتا، مَیں ان کی دانش مندانہ باتوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتی۔ انہوں نے کبھی بھی کسی کے لیے بدگوئی کی اور نہ ہی کسی کے منفی رویّے کا شکوہ۔ وہ میرے لیے اعتبار و اعتماد کا استعارہ تھیں۔ سو، مَیں بھی اکثر ان کے سامنے اپنا دِل ہلکا کرلیتی تھی۔ تمام تر میڈیکل رپورٹس درست ہونے کے باوجود مَیں اولاد کی نعمت سے محروم تھی، تو میری اس اُداسی اور دِل گرفتگی پر وہ میرا حوصلہ بڑھاتیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتیں۔ یہاں تک کہ تہجد کی نماز میں میرے حق میں اللہ سے دُعائیں کرتیں۔

اپنے انتقال سے ایک دِن پہلے انہوں نےفرح سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مَیں پہنچی تو وہ آنکھیں بند کیے اضطراری کیفیت میں تھیں۔ بیماری نے ان کی حیات کا سارا رس نچوڑ لیا تھا۔ میرے پکارنے پر انہوں نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور لرزتے ہاتھ سے مجھے قریب آنےکو کہا۔وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہہ رہی تھیں ’’تم میری بیٹی جیسی ہو۔ مَیں وہاں جا کر اللہ پاک سے تمہارے لیے دُعا کروں گی۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘ پھران پر نقاہت طاری ہوگئی اوروہ سوگئیں۔ مَیں بہت دیر تک ان کے جاگنے کا انتظار کرتی رہی، وہ نہ اٹھیں تو دُکھی دِل کے ساتھ گھر واپس آگئی، کیوں کہ فرح کا کہنا تھا کہ ’’کئی دِنوں سے اُن کی یہی سوتی جاگتی سی کیفیت تھی، شاید دوا کا اثر ہے۔‘‘ مجھے کیاخبرتھی کہ یہ ان کی زندگی کی آخری رات ہے۔

اُن کی محبّت و شفقت جب یاد آتی ہے، تو پہروں قرار نہیں آتا۔ ایسے میں مَیں قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر انہیں بخشتی ہوں۔ اُس رات بھی مَیں انہیں یاد کرتے کرتے سو گئی، تو خواب میں مجھے ایک بے حد وسیع و عریض سر سبز و شاداب میدان نظر آیا، جہاں ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔ اچانک ایک جانب سے چھوٹے چھوٹے بچّوں کا اک ہجوم امڈ آیا، جو اچھلتے کودتے، اٹکھیلیاں کرتے چلے آرہے تھے۔ پھر میری نظر ایک عورت پر پڑی، جس کے ہاتھ میں چَھڑی تھی اور وہ ان بچّوں کے ساتھ یوں چل رہی تھی، جیسے کوئی چرواہا، کوئی رکھوالا اپنے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے۔ میرے قریب پہنچ کر وہ عورت میری جانب پلٹی،تو وہ آنٹی تھیں۔ اُن کے کپڑے ہمیشہ کی طرح سفید اور اُجلے تھے اور چہرے پر وہی سنجیدگی اچانک وہ بچّوں کے ہجوم میں داخل ہوئیں اور واپس آئیں، تو ساتھ انگلی پکڑے ایک بہت خُوب صُورت بچّہ تھا، جسے انہوں نے میرے حوالے کیا اور بنا کچھ بولے آگے بڑھ گئیں۔ مجھ پر سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ خوشی سے چیخنا چاہتی تھی، لیکن آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اسی کیفیت میں آنکھ کُھلی،تو مَیں سَرتا پا پسینے میں شرابور تھی، میرا دِل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اُس خواب کا مطلب سوچتے سوچتے صُبح ہو گئی۔ اور پھر.....اُن کی موت کے ٹھیک ایک ماہ بعد جب ڈاکٹر نے مجھے ماں بننے کی خوش خبری سُنائی، تو خواب کا مطلب سمجھ آگیا۔ میرا بیٹا اُسی خواب والے بچّے کی طرح بے حد خُوب صُورت تھا۔اس کا لمس پاتے ہی میرے دِل کو جیسے قرار آگیا۔ مَیں آج بھی اپنی قسمت پر بے حد نازاں ہوں کہ خوش نصیبوں ہی کو آنٹی شہلا جیسی بے لوث اور بے غرض محبّت نصیب ہوتی ہے۔

تازہ ترین