سندھ دھرتی جسے امن و آشتی کاگہوارہ کہا جاتا ہے ، گزشتہ چند عشروں سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ یہاں قبائلی تنازعات زندگی کے معمولات کا حصہ بن گئے ہیں اور مختلف قبائل کے درمیان خونی تصادم میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے ۔ جنوبی سندھ میں دو درجن کے لگ بھگ قبائل کے درمیاں تنازعات چل رہے ہیں اور آئے دن ایک دو افراد کا قتل معمول بن چکا ہے۔جہاں ان قبائلی تنازعات میں سینکڑوں انسانوں کی زندگیاں بھینٹ چڑھی ہیں، وہیں جنگ گہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے کاروبار اور بچوں کی تعلیم بھی سخت متاثر ہورہی ہے۔یہاں دیہی علاقوں کی اکثریتی آبادی تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کا شکار ہے۔سماجی شعورکے فقدان کی وجہ سے قبائلی لوگ چھوٹی چھوٹی بات کو اپنی غیرت اور انا ءکا مسئلہ بنالیتے ہیں اور کسی بھی انسان کو معمولی بات پر قتل کرناان کے لیےبڑی بات نہیں ہے۔
جیکب آبادبالائی سندھ کا ایک اہم ضلع ہے جس کی سرحدیں بلوچستان کےصوبے سے ملتی ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کی طرح جیکب آبادمیں بھی مختلف برادریاں اور قبائل آباد ہیں، جن کے درمیان برسہا برس سے تنازعات چل رہے ہیں جو اکثر بڑھ کر خوں ریزی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اب تک ان تنازعات میں درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ کشمور ایٹ کندھ کوٹ، شکارپور اور جیکب آباد اضلاع کے سنگم پر 23 سال قبل بجارانی اور تیغانی قبیلے کے درمیان چوری کی وارات کے وران تصادم شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے قبائلی جھگڑے میں تبدیل ہوگیا۔بجارانی اور تیغانی قبائل دونوں بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔گزشتہ 23سال کے دوران ان دونوں قبائل کے درمیان تصادم میں اب تک 40افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جب کہ تقریباً دو سو افراد زخمی بھی ہوچکے ہیں ۔ دونوں قبائل کے درمیان نہ ختم ہونے والے تنازعے کی وجہ سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کئی قصبے ویران ہو چکے ہیں، کاشت کاری کا کام رک جانے کی وجہ سے زمینیں بنجر ہوگئیں جب کہ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بڑوں کی دیکھا دیکھی ننھے نونہالوں نے بھی کاغذ ، قلم کی بجائے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
ضلع شکارپور کی سرحدکے ساتھ ، دریائے سندھ کے کنارے مشرق کی جانب کچے کے علاقے میں تیغانی قبیلہ آباد ہے جب کہ اسی کے ساتھ دریا کےکنارے بجارانی قبیلہ آبادہے جوکہ کشمور ایٹ کندھ کوٹ کی حدود ہے۔ شمال میں بجارانی قبیلے کے قصبات بھی ہیں جوکہ کچے کا علاقہ ہے۔ وہ ضلع جیکب آباد سے تعلق رکھتے ہیں اسی طرح ان دونوں قبائل کی جنگ میں تینوں اضلاع متاثر ہوئے ہیں ۔باوثوق ذرائع کے مطابق 1996 میں قصبہ محمد عظیم بجارانیمیں تیغانی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ چور ،محمد حاصل بجارانی نامی شخص کے گھر میں گھس گئے۔ اہل خانہ کے جاگنے پر مذکورہ چوروں اورگھر کے مکینوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔ فائرنگ کی آوازوں سے پورا گائوںبیدار ہوگیا، لیکن اس دوران گولی لگنے سے گھر کا مالک محمد حاصل بجارانی ہلاک ہوگیا۔ گائوں والوں نے ایک چور غلام نبی تیغانی کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔مذکورہ واقعے کے بعد دونوں قبائل کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، جس کی وجہ سے خونی تصادم ہوا جس میں راکٹ لانچرز سمیت جدید ترین ہتھیار استعمال کیےگئے، جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں ۔ پولیس نے موقع پرپہنچ کر وہاں امن و امان قائم کرایا لیکن دونوں قبیلوں کے درمیان تصفیہ کرانے میں ناکام رہی اوریک دوسرے کے قصبات پر حملے معمول بن گئے، جس سے کاروبار زندگی تباہ ہوگیااور بچے زیور علم سے محروم رہ گئے۔
دونوں قبائل میں تنازغ ختم کرانے اور علاقے میں امن و امان کی فضا بحال کرانے کے لیے ضلع جیکب آباد کی سیاسی ، سماجی،مذہبی ،قوم پرست جماعتوں اور سول سوسائٹی کے رہنمائوں کی جانب سے کافی کوششیں کی گئی۔ جماعت اسلامی کے رہنما، عبدالحفیظ بجارانی اورجئے سندہ متحدہ محاذ کے ریاض چانڈیو نے’’منتھ میڑ قافلے‘‘ لے کر دونوںمتحارب قبائل کے سرداروں اور فریقین کے پاس جاکر جنگ بندی اور تصفیہ کرنے کی اپیل کی ۔ان اکابرین کی کوششوں سے 25 جنوری 2019 میںشکارپور میں سردار محمد ابراہیم جتوئی ،سردار خان چانڈیو،اور سردار محمد عثمان عالمانی کی سربراہی میں جرگہ کا انعقاد کیا گیاجس میں دونوں قبیلوں کے سرداروں سردار محبوب علی خان بجارانی اور سردار تیغو خان تیغانی نے بھی شرکت کی لیکن تصفیے کی یہ کوشش ناکام ہوگئی اور دونوں فریقین کی بعض شرائط کی وجہ سے مذاکرات میں ڈیڈلاک پیدا ہوگیا۔ ماکرات میں ناکامی کے بعدوونوں متحارب قبائل دوبارہ مورچہ بند ہوگئےاور وہاں ایک مرتبہ بھی جنگ و جدل کی صورت حال ہے، لوگ خوف و ہراس کے عالم میںدوسرے شہروں اور قصبات کی جانب نقل مکانی کررہے ہیں، جب کہ کاروبار زندگی ٹھپ ہوگیا ہے اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔
جیکب آباد کے مولاداد تھانہ کی حدود قصبہ محبت تھہیم میںگزشتہ سال اکتوبر میں زرعی زمین کے تبازعہ پر سید برادری اور قمبرانی برادری کی جانب سےتھہیم برادری کے لوگوں پر حملہ کرکے 4افراد کو قتل کردیا گیاجب کہ قمبرانی برادری کا بھی ایک شخص ہلاک ہوا۔ جس سے علاقے میں صورت انتہائی کشیدہ ہوگئی اور دونوں قبائل مورچہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔واقعے کی اطلاع ملنے پر ڈی ایس پی گڑھی خیرو کی قیادت میں پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی۔اطلاع ملنےپرایس ایس پی ساجد کھوکھر نے بھی بھاری پولیس نفری کے ہمراہ متحارب علاقے میں پہنچ کرصورت حال پر قابو پایا اور بارہ افراد کو حراست میں لے لیا۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں کو گڑھی خیرو تعلقہ اسپتال اور لاڑکانہ اسپتال منتقل کیاگیا جہاں پرزخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک زخمی چل بسا۔ایس ایس پی ساجد کھوکھرنے اس واقعے کے بارے میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چارسو ایکڑ سرکاری زرعی اراضی کے تنازعے کے تصفیے کے لیے تین روز قبل قبائلی سردار منظور خان پنہور کی سربراہی میں جرگہ منعقد ہوا تھاجس میں مذکورہ زمین سومرو، رند اور ڈاہانی قبائل کے درمیان تین حصوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔ جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث مذکورہ واقعہ پیش آیا ہے۔قبائلی تنازعہ کے ایک اور واقعے میں چاچڑ اور سبزوئی قبیلوں کے درمیان ایک بیل کی چوری سے شروع ہونے والا تنازع گزشتہ اٹھارہ برس سے جاری ہے جس میں اب تک دو درجن کے لگ بھگ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
سول سوسائٹی کے مطابق قبائلی تنازعات اور جنگ و جدل کی بنیای وجہ جہالت اور بلوچستان سے جدید اسلحے کی ترسیل ہے جس کی وجہ سے جیکب آباد ضلع میں جدید ہتھیاروں کی بھرمار ہے۔ مختلف قبائل کے لوگ بھاری ہتھیاروں سے لیس ہیں جب کہ بعض علاقے پولیس کے لیے بھی نو گو ایریا بنے ہوئے ہیں۔ سول سوسئا ئٹی کے رہنما اس صورت حال سے سخت دل گرفتہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحارب گروپوں میں مصالحت کرانے کے لیے حکومتی شخصیات اور سیاسی و سماجی تنظیمیں آگے بڑھیں اورتمام قبائلی عمائدین کو ایک میز پر بٹھا کر ان کے آپس کے اختلافات دور کرائیں۔ جیکب آباد سے بلوچستان کی جانب جانے والے راستوں پر پولیس اور رینجرز کی نگرانی سخت کی جائے تاکہ جیکب آباد میں اسلحہ کی ترسیل رو کی جاسکے۔ جیکب آباد کو اسلحہ فری زون بنانے کے لیے متحارب گروپوں کے قبضے سے تمام ہلکے اور بھاری ہتھیار بازیاب کرانے کے لیے آپریشن کیا جائے۔ نئی نسل کے ہاتھوں میں ہتھیاروں کی بجائے کاغذ اورقلم تھمایا جائے۔