• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے 72سال بعد علمی موشگافیوں کے ذریعے پاکستان کی تاریخ بارے تشکیک پیدا کرنا ’’درفنطنیاں‘‘ چھوڑنا اور اپنی خواہشات کو تحقیق کا نام دے کر پیش کرنے کا محرک یا مقصد کیا ہے؟ اگر مقصد پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے تو یاد رکھیں کہ 72سالہ جوان پاکستان آپ کی قلمی جولانیوں سے کمزور نہیں ہوگا، اگر مقصد بھولی بھالی جوان نسلوں کو بدظن یا کنفیوژ کرنا ہے تو یہ مقصد بھی پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔ کیوں؟ یہ ایک الگ موضوع ہے، اگر مقصد نمک حلال کرنا ہے تو ذہن میں رہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے نمک سے کہیں زیادہ حق آپ پر کھیوڑہ کی کان کا ہے جو آپ کو اور آپ کے خاندان کو بہترین نمک فراہم کرتی ہے، اگر مقصد آزادیٔ اظہار کے شوق میں اپنا علمی رعب جمانا ہے تو لگے رہیے۔ میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، آزادیٔ اظہار کے نام پر اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کی کھلی آزادی ہے۔ موقع ملے تو منٹو کا شاندار افسانہ ’’نیا قانون‘‘ پڑھ لیجئے۔

میری محرومی کہ میں کبھی میاں افتخار الدین مرحوم سے نہیں ملا۔ ان کے کئی قریبی اور نظریاتی دوستوں اور کامریڈوں سے ملاقات رہی جن میں میرے محترم مرحوم دوست عبداللہ ملک بھی شامل تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میاں افتخار الدین بیرونِ ملک سے درآمد شدہ قیمتی آفٹر شیو لوشن کی بوتل منہ پر انڈیل کر باہر نکلتے، مزدوروں، غریبوں اور محروم طبقوں کا غم کھاتے، ان کی محرومیوں پر زبان سے آنسو بہاتے، علمی مباحث کرتے اور پاکستان میں کیمونزم کے راستے میں حائل رکاوٹوں کا تجزیہ کرتے دن گزار دیتے ۔ میاں صاحب بڑے زمیندار، بروزن جاگیردار تھے۔ کیا انہوں نے زبانی جمع خرچ کرنے کے علاوہ کبھی ان محروم اور پسے ہوئے طبقوں کی فلاح کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا؟ کبھی نہیں کیونکہ ذہنی عیاشی اور عملی اقدامات میں ایک خلیج حائل ہوتی ہے جو دین مخالف سوشلسٹ لبرل دانشور عبور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ ٹھنڈے ٹھار کمروں، پنج ستارہ ہوٹلوں کی زرق برق تقریبوں میں تو غریب کا غم کھا کرمذہب بیزاری پھیلانے کی سعی کر سکتے ہیں، تاریخ پاکستان بارے بھی شوشے چھوڑ سکتے ہیں، تھوڑا بہت الحاد کا تڑکا بھی لگا سکتے ہیں لیکن انہیں گرمی اس قدر شدید لگتی ہے کہ مزدوروں کو دھوپ میں مٹی، اینٹیں اور سیمنٹ اٹھاتے دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ ذہنی عیاشی کی مہم جوئی میں دانشوری کی دکان خوب چمکتی ہے اور پھر اسی چمک کو سینے پر سجائے انسان قبر میں اتر جاتا ہے۔ سوچنے کی بات اتنی سی ہے کہ مخلوقِ خدا ان کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے محروم و مظلوم طبقوں کے لئے عملی طو ر پر کچھ کیا یعنی ان کے لئے بستیاں بسائیں یا ان کے حقوق کے لئے جدوجہد کی، یہ محروم طبقے ان کے ممنون نہیں ہوتے جو اپنے چہروں پر قیمتی آفٹر شیو لوشن لگا کر اور قیمتی ملبوس زیب تن کر کے محفلوں میں رونق افروز ہوتے اور رٹے ہوئے ڈائیلاگ بول کر چھا جانے کی سعی کرتے ہیں؟ خود کو انقلابی ثابت کرنے کے لئے کچھ غیر معروف انقلابی مصنفین کی کتابوں کے حوالے دینے سے بھی رعب جمتا ہے۔ یہ تکنیک یا طریقۂ واردات بھی خاصا کامیاب رہتا ہے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ یہ الٹرا روشن خیال حضرات صرف اپنے آپ کو سچ کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص جسے مسلمان ہونے پر فخر ہے یا اس کی شخصیت پر دین کی عملداری کا شائبہ ہوتا ہے وہ تھوڑا سا جھوٹا ہوتا اور مذہب کے نام پر جھوٹ پھیلاتا ہے۔ یہ حضرات صرف اپنے آپ کو سچا اور کھرا سمجھتے ہیں۔ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ان کی تحریریں پڑھ رہا ہوں اور ان کے ادھورے سچ کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اپنے مقاصد یا اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے وہ ہمیشہ تحقیق کے نام پر نہایت ہنر مندی سے آدھا سچ بولتے ہیں اور آدھا کھا جاتے ہیں کیونکہ اس نصف سے انہیں یا تو چڑ ہوتی ہے یا اس سے ان کے فلسفے کی نفی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے جن شعبوں یا واقعات سے ان کو نفرت ہے یا جن سے ان کو اسلام کی ’’بو‘‘ آتی ہے ان کو نہایت ہوشیاری سے غلط رنگ دے کر پیش کرتے بلکہ بار بار پیش کرتے اور تاریخ سے انتقام لیتے رہتے ہیں۔ اس سے جہاں ان کی علمیت کا رعب جمتا ہے وہیں کئی معصوم قارئین بھی ہولے ہولے ان کے ہم خیال ہو جاتے ہیں۔ ایسے معصوم حضرات سے مجھے کبھی کبھار پالا پڑتا ہے۔ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے اس معاملے پر رائے قائم کرنے سے پہلے اسے پڑھا، تھوڑی سی تحقیق یا غور کیا؟ ہمیشہ جواب یہی ملتا ہے کہ فلاں عظیم قلمکار نے ایسا لکھا ہے۔ میں نے تو اس پر کچھ پڑھا نہ تحقیق کی ہے۔ گویا الجھانے والوں کا مقصد پورا ہوگیا۔ چند روز قبل مقابلتاً ایک پڑھے لکھے نوجوان سے پالا پڑا، پالا ان معنوں میں کہ وہ ملنے تشریف لائے اور مجھے معمولی سا پریشان کرکے چلے گئے۔ پریشانی اس بات سے ہوئی کہ وہ کچھ نامور قلمکاروں کی تحریروں سے اسلام، پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے ذہنی الجھائو کا شکار ہو چکے تھے۔ خود پڑھنے کی زحمت اٹھائی نہ ان عظیم قلمکاروں کی خود ساختہ سچائیوں کی تصدیق کی تھی۔ میں نے اپنے تئیں انہیں اس علمی انتشار سے نکالنے کی کوشش کی لیکن کامیاب ہوا یا نہیں میرا رب ہی جانتا ہے۔

میں نے زندگی کے سفر میں کئی دین بیزار روشن خیال دانشوروں کو دیکھا اور قدرے قریب سے دیکھا۔ عام طور پر بڑھاپے میں انہیں خدا یاد آگیا تھا۔ نماز بھی ادا کرنے لگے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتے تھے۔ چند ایک صاحبان نے عمرے کی سعادت بھی حاصل کر لی تھی لیکن بعض ایسے راندۂ درگاہ ہوتے ہیں کہ انہیں آخری سانس تک ہدایت نصیب ہوتی ہے نہ توبہ کی توفیق ملتی ہے۔ ہاں یاد آیا، ذکر ہو رہا تھا مشہور کیمونسٹ اور روشن خیال لیڈر میاں افتخارالدین کا۔ ان کے انتقال کے کئی برس بعد 1972-73میں بہ سلسلہ تحقیق مجھے ان کے محل نما گھر جانے اور ان کی بزرگ بیگم صاحبہ سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ جب میں وہاں پہنچا تو بیگم صاحبہ کو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف پایا۔ واہ سبحان اللہ، قدرت کا نظام کہاں کیمونزم کا پرچار اور کہاں قرآن مجید کی تلاوت، بیگم صاحبہ نے مجھے بہ سلسلہ تحقیق لندن جانے کے لئے اسکالر شپ کی بھی آفر کی لیکن میں نے معذرت کرلی۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے اور ان فکری الجھنیں پیدا کرنے والے دانشوروں کو راہِ راست پر ڈالے۔

تازہ ترین