• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سہیل رضا تبسم

ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ،تِل دھرنے تک کی جگہ نہیں تھی ۔ہر جگہ جینز،شارٹس میں ملبوس لڑکے لڑکیاں نظر آرہے تھے۔بیٹھنے کی جگہ ملنا مشکل ہو گئی ۔اسٹیج سج چکا تھا ۔سب کو انتظار تھا کہ کب پروگرام شروع ہو ۔یہ احوال ہے کراچی میں سجنے والے ایک آرٹ پروگرام کا، جسے ایک اسکول نے منعقد کیا تھا۔پروگرام کے آغاز میں ایک سیگمینٹ ’’اسٹینڈ اَپ کامیڈی‘‘ بھی رکھا گیا۔ ’’اسٹینڈ اَپ کامیڈی‘‘ یہ اصطلاح یورپ سے بھارت اور اب آہستہ آہستہ پاکستان کا رُخ کر رہی ہے۔ بالخصوص یونی وَرسٹیز اور کالجز کے پروگرامز میں اسٹینڈ اَپ کامیڈینز کومدعو کرنے کا رواج تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ نسلِ نو مزاح اور تنقیدی جملوں کو خاصا پسند اور انجوائے کرتی ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے، تو اچھا ہی ہے کہ آج کے منتشر اور افراتفری والے دَور میں ہنسنے ہنسانے کے مواقع کم ہی نصیب ہوتے ہیں، ایسے حالات میں چند نوجوان خود پر گزر نے والے مشکل حالات یااپنے ارد گرد کے ماحول کو تنقیدی و مزاحیہ باتوں کا رنگ دے کر جب پیش کرتے ہیں، تو ہر ایک کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہےاور ہال قہقہوں سے گونج اُٹھتا ہے۔ایک وقت تھا، جب ہمارے اسٹیج ڈرامے دنیا بھر میں مشہور تھے، ہماری کامیڈی کا معیار اتنا اعلیٰ تھا کہ اس کے چرچے پڑوسی مُلک بھارت تک میں ہوا کرتے، لیکن بد قسمتی سے بے جا،لغو باتوںاور فحش جملوں کے باعث فن کا یہ شعبہ اب زوال پذیری کا شکار ہے ۔ اسٹیج ڈرامے توآج بھی ہوتے ہیں، لیکن ’’فیملی فرینڈلی‘‘نہیں ہوتے۔گزشتہ چند برسوں میں جب اسٹینڈ اپ کامیڈی کا رجحان پروان چڑھنے لگا، تو دل میں اِک امید بھی جاگی کہ شاید اب پھر سے پاکستان میں معیاری کا میڈی دیکھنے اور سننے کو ملے گی۔ تاہم،یہ اُمید بر نہ آئی۔ جب تک تمیز، تہذیب اور معیاری جملوں تک محدود اسٹینڈ اَپ کامیڈی کی جاتی رہی ، تب تک اس میں کو ئی مضائقہ نہ تھا، لیکن اب اپنی بات کو ’’پُر وزن، مستنداور دل کش ‘‘ بنانے کے لیے فحش گوئی، بے ہودگی اور غیر اخلاقی زبان کا استعمال عام ہو رہا ہے، جو کسی صُورت قابلِ قبول نہیں۔ ہمارے بچّے، نوجوان، قوم کے معمار کس سمت جا رہے ہیں، کس اندھیر نگری کے مسافربن بیٹھے ہیں، فحاشی، عُریانی، بے ہودگی سےکس قدر محظوظ ہورہے ہیں، اس کا اندازہ ہمیں اُس آرٹ پروگرام میں تب ہوا، جب اسٹینڈ اَپ کامیڈین محض اپنی بات میں وزن پیدا کرنے اور حاضرین کو ہنسانے کے لیے مسلسل فحش گوئی کا سہارا لے رہا تھااور وہاں موجود حاضرین، جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی، اس کے جملے خُوب انجوائے کر رہے تھے۔یہ ہمارے لیے نہ صرف لمحۂ فکریہ ، بلکہ مِن حیث القوم پریشان کُن صُورتِ حال بھی ہے۔ہم تو یہ سوچ کروہاں گئے تھے کہ چلو آرٹ اسکول کے زیرِ اہتمام پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے، نوجوانوں کی اکثریت سے ملنے، اُن کے خیالات جاننے کا موقع ملے گا، مگر ہم بہ مشکل پندرہ منٹ ہی وہاں رُک پائے ۔رنج و الم اس بات پر زیادہ تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بیٹیاں نہ صرف اس فحش گو ئی پر قہقہے لگا رہیں تھیں، بلکہ خود بھی حصّہ لے رہیں تھیں۔اور ہم’’پُرانے/دقیانوسی خیالات کے حامل انسان‘‘ یہ سوچنے پر مجبور تھےکہ یہ سب کیا ہورہاہے ؟ہماری نوجوان نسل کس راہ پر چل پڑی ہے؟ ہم ان کی تربیت میں اتنے ناکام کیسے ہوسکتے ہیں؟کیا یہ مُلک اس لیے بنا تھا کہ یہاں بے حیا ئی عام ہو سکے ؟ اتنی قیمتی جانوں کی قربانی اس لیے دی گئی تھی کہ مغرب کی اندھی تقلید میں ہم اپنی روایات، اقدار، تہذیب و تمدّن تک فراموش کر دیں؟ سچ بتاؤں تو دِل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے۔ یقین مانیے کہ ہم ایسا بیج بو رہے ہیں ،جس سے صرف تباہی کی فصل ہی اُگے گی ۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث ِ مبارکہ ہے کہ ’’تم مجھے اپنی شرم گا ہوں اور زبان کی ضمانت دو ،مَیں تمہیں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘ ۔ہم سب جنّت کے طالب ہیں، لیکن ذرا سوچیے کیا ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ ہم جنّت میں جا سکیں، نبیؐ کی ناموس پر جان قربان کرنے کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن اس نبیؐ کی سنّت پر عمل کتنے لوگ کرتے ہیں؟اس ضمن میں خاص طور پروالدین اور اساتذہ پر دُگنی ذمّے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ گھروں اور درس گاہوں میں ایسی تربیت دیں کہ معمارانِ قوم کے دل ایمان کی دولت سےمنوّر ہوجائیں، اُن کی شخصیت سے مشرقی روایات، تہذیب و تمدّن کی عکّاسی ہو۔ بچّوں کی تعلیم پر پانی کی طرح پیسے بہانا کافی نہیں ، نظر رکھنی بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا جیب خرچ اوروقت کہاں، کن لوگوں پر خرچ کر رہے ہیں، اُن کے دوست کون ہیں کہ انسان کی پہچان ہی اس کی صحبت سے ہوتی ہے۔ یاد رہے، بُرائی میں بہت کشش ہے،انسان بالخصوص ٹین ایجرزاُس کی جانب بڑی جلدی راغب ہوتے ہیںاوریہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں سخت سزاؤں اور قوانین کے ذریعے فحاشی، بد اخلاقی کی روک تھام کی کو شش کی گئی ہے ۔قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جا ئے، بیدار ہو جا ئیں، ورنہ دنیا کی تباہی کے ساتھ ساتھ قبر اور آخرت کاعذاب بھی مقدّر بن جائے گا۔

تازہ ترین