• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علم کے لاکھوں متلاشی فیض یاب ہورہے ہیں، سند کسی سے کم نہیں

انسانی شعور میں اضافے کے ساتھ، حصولِ علم کے ذرائع میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے تعلیم صرف مخصوص اداروں تک محدود تھی، لیکن اب اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور آج کا تعلیمی نظریہ یہ ہے کہ آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں، ہزاروں میل دُور بیٹھے بھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں یا اپنی تعلیمی استعداد مزید بڑھا سکتے ہیں۔ اس نظریے کو’’ فاصلاتی نظامِ تعلیم‘‘یا’’ Distance Learning System‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اوپن یونی ورسٹیز اِسی نظریے کے تحت قائم کی جا رہی ہیں، یعنی ایسی یونی ورسٹیز ،جن کے دروازے ہر ایک کے لیے اور ہر جگہ کُھلے ہوں۔ اس نظریے کی ابتدا برطانیہ سے ہوئی اور اب ایسی اوپن یونی ورسٹیز کے طلبہ کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چُکی ہے۔ پاکستان میں 1973ء میں مُلک کی پہلی اوپن یونی ورسٹی قائم کی گئی، جو نہ صرف اندرونِ مُلک، بلکہ بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے مشن پر کام یابی سے گام زَن ہے۔ اس یونی ورسٹی کا دائرۂ کار کیا ہے اور یہ اپنے طلبہ کو کیا سہولتیں فراہم کرتی ہے؟ یہی سب کچھ جاننے کے لیے ہماری علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم سے ایک خصوصی نشست ہوئی، وہ تعلیمی دَورے پر لاہور تشریف لائے تھے۔ پروفیسر ضیاء القیوم کا شمار مُلک کے نام وَر ماہرینِ تعلیم میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل وہ یونی ورسٹی آف گجرات کے وائس چانسلر تھے۔ اُن کے کئی تحقیقی مقالاجات دنیا کے معروف ریسرچ جرنلز میں شایع ہوچُکے ہیں۔نیز، اُن کا کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین میں بھی شمار ہوتا ہے۔ڈاکٹر ضیاء القیوم کے ساتھ ہونے والی نشست کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔

س:ڈاکٹر صاحب فاصلاتی نظامِ تعلیم یا دوسرے الفاظ میں اوپن یونی ورسٹی سے کیا مُراد ہے؟

ج:فاصلاتی نظامِ تعلیم کا تصوّر نیا نہیں، گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف ممالک میں یہ نظام کام یابی سے چل رہا ہے۔ دراصل یہ نظام اُن لوگوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے، جو معاشی اور سماجی مسائل یا دیگر مجبوریوں کی وجہ سے مروّجہ نظامِ تعلیم کے تحت اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، تو ایسے بےشمار افراد ملیں گے، جو کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ درمیان ہی میں چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا پھر سِرے سے تعلیم ہی حاصل نہ کر سکے۔ مثلاً کسی دفتر میں کام کرنے والا ملازم، جو کالج یا یونی ورسٹی نہیں جاسکتا۔ ایسا شخص جس کی عُمر زیادہ ہوگئی ہو، نیز، ایسی بچّیاں جو مالی، سماجی اور آمد ورفت کے مسائل کی وجہ سے کالج یا یونی ورسٹی نہیں جا سکتیں، فاصلاتی نظامِ تعلیم ایسے تمام افراد کو حصولِ تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اور یہ سب افراد گھر بیٹھے یا کچھ مخصوص دنوں میں کلاسز اٹینڈ کرکے اپنی تعلیمی استعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

س: دنیا کے دوسرے مُمالک میں یہ نظام کیسے کام کررہا ہے؟

ج: اس نظام نے برطانیہ میں جنم لیا اور دنیا کی پہلی اوپن یونی ورسٹی بھی وہیں قائم کی گئی، جب کہ پاکستان کی اوپن یونی ورسٹی کو دنیا کی دوسری اوپن یونی ورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 1969 ء میں قائم کی گئی اوپن یونی ورسٹی، اِن دنوں برطانیہ کی سب سے بڑی یونی ورسٹی ہے، جس کے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ کی تعداد 2لاکھ کے قریب ہے۔ نیز، طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے اس کا شمار دنیا کی بڑی یونی ورسٹیز میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 20لاکھ سے زائد طلبہ وہاں سے تعلیم حاصل کرچُکے ہیں۔اس کا مین کیمپس ملٹن کینز میں 48ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔ اکیڈمک اور ریسرچ اسٹاف کی تعداد 1000 سے زائد ہے، جب کہ2500ایڈمنسٹریٹرز ہیں۔ برطانیہ کی 132یونی ورسٹیز اور کالجز میں اوپن یونی ورسٹی کا 43واں نمبر ہے، جب کہ 2018ء کے سروے کے مطابق عالمی سطح پر اسے 498واں درجہ حاصل ہے۔ بھارت کی’’ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونی ورسٹی‘‘ 1985ء میں قائم ہوئی، جہاں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 40لاکھ سے تجاوز کر چُکی ہے۔ اسی طرح کینیڈا کی اوپن یونی ورسٹی سے بھی لاکھوں افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ افریقا اورایشیا کے بہت سے مُمالک میں اب اوپن یونی ورسٹی کا نظریہ مقبول ہورہا ہے اور وہاں اس طرح کی یونی ورسٹیز قائم ہورہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقّی کے ساتھ، لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی بڑھا ہے۔ چوں کہ مروّجہ تعلیمی نظام میں بہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کا فاصلاتی نظامِ تعلیم میں گزر نہیں، تو لوگ اس طرف رجوع کرتے ہیں۔

س: علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا پس منظر کیا ہے؟

ج:۔ یہ یونی ورسٹی 1973 ء میں قائم ہوئی اور اس کا پہلا نام’’ پیپلز اوپن یونی ورسٹی‘‘ تھا۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دَور میں اس کا نام تبدیل کرکے’’ علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی‘‘ رکھ دیا گیا۔ اِن دنوں طلبہ کی تعداد تقریباً سات لاکھ ہے، جبکہ گزشتہ چھے برس میں 20لاکھ سے زائد مرد و خواتین یہاں سے مختلف کورسز کرچُکے ہیں، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ابتدائی دنوں میں تو یونی ورسٹی کی جانب سے بنیادی نوعیت کے کورسز آفر کیے گئے۔ بعدازاں انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی سطح کے پروگرام شروع کر دیے گئے۔ 1980ء کی دہائی میں ایم اے اور ایم ایس سی پروگرامز کا آغاز ہوا، پھر تعلیمی پروگرامز کا دائرہ ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی سطح تک پھیلا دیا گیا۔ آج علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی طلبا و طالبات کی تعداد کے لحاظ سے مُلک کی سب سے بڑی یونی ورسٹی بن چُکی ہے۔

س:آپ کا امتحانی طریقۂ کار کیا ہے؟

ج: یونی ورسٹی کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے، لیکن اس کا دائرۂ کار پورے مُلک میں پھیلا ہوا ہے۔ خیبر سے کراچی تک، سیاچن کی برفانی چوٹیوں سے گوادر اور بدین کے ساحل، قبائلی علاقوں سے چولستان کے صحرائوں تک، علم کے لاکھوں متلاشی اس یونی ورسٹی سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مُلک کے 49بڑے شہروں میں یونی ورسٹی کے علاقائی دفاتر قائم ہیں اور بیش تر شہروں میں یونی ورسٹی کی اپنی عمارتیں ہیں۔نیز، مزید علاقائی دفاتر قائم کیے جارہے ہیں ، تو ان ریجنل دفاتر کو جدید ترین ڈیجیٹل کمیونی کیشن ٹیکنالوجی سے بھی مربوط کیا جارہا ہے۔ ان علاقائی دفاتر میں مقامی اساتذہ کی زیرِ نگرانی امتحانات ہوتے ہیں اور طلبہ کی جوابی کاپیوں کی اسلام آباد کے شعبۂ امتحانات میں جانچ پڑتال کی جاتی ہے، جہاں ایک مرکزی نظام کے تحت اُن کی گریڈنگ ہوتی ہے۔

س:لیکن ہمارے یہاں اوپن یونی ورسٹی کی سند کو کم اہمیت دی جاتی ہے، ایسا کیوں ہے؟

ج: آپ کا یہ تاثر درست ہے ،لیکن اس کی کوئی خاص یا ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی، حالاں کہ اوپن یونی ورسٹی کی اسناد کو وہی اہمیت حاصل ہے، جو کسی بھی ریگولر یونی ورسٹیز کی ڈگریز کو ہے۔ پھر بھی ہم امتحانی نظام میں مزید ایسی تبدیلیاں لارہے ہیں، جن سے اوپن یونی ورسٹی سے متعلق پائے جانے والے منفی تاثر کا تدارک ہو سکے گا۔

س: طلبہ آپ کے کون سے تعلیمی پروگرامز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

ج: جی حصولِ تعلیم سے دِل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ آگاہی بہت ضروری ہے۔ علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کی چار فیکلٹیز ہیں اور فیکلٹی آف سوشل سائنسز ان میں سب سے بڑی ہے، جس کے 16شعبہ جات ہیں۔ ان میں ماس کمیونی کیشن، بزنس ایڈمنسٹریشن، لائبریری سائنس، کامرس، پاکستان اسٹڈیز، ہسٹری، اکنامکس اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ فیکلٹی آف ایجوکیشن میں ٹیچرز ٹریننگ، سیکنڈری ایجوکیشن، ایلیمینٹری ایجوکیشن، سائنس ایجوکیشن اور اسپیشل ایجوکیشن ہے۔ فیکلٹی آف عریبک اینڈ اسلامک اسٹڈیز میں شعبۂ تفسیر، شعبۂ حدیث، شعبۂ عربی اور علومِ اسلامیہ جیسے شعبے کام کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ہم کچھ نئے شعبے بھی شروع کرنے جارہے ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے شعبۂ ابلاغِ عامّہ سے فارغ التحصیل افراد اخبارات، ٹی وی چینلز اور نیوز ایجنسیز میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری یونی ورسٹی سے شایع ہونے والی کُتب مُلک بھر کی جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔نیز، ہمارے طلبہ میں مسلّح افواج کے افسران کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔اوپن یونی ورسٹی کی فیکلٹیز کی تعداد 194ہے۔ ریگولر ملازمین کی تعداد 2058، جب کہ کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔

س: آپ کے ہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو ملازمت کے کس قدر مواقع حاصل ہیں، جب کہ عام ادارے ڈگری کو خاص اہمیت بھی نہیں دیتے؟

ج: دیکھیے، پہلی بات تو یہ ہے کہ ادارے ہماری ڈگری کو اہمیت دیتے ہیں، پھر یہ کہ علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی اکثریت پہلے ہی برسرِ روزگار ہوتی ہے اور وہ محض اپنی تعلیمی استعداد میں اضافے کے لیے ہم سے رجوع کرتے ہیں۔ یعنی وہ ہماری جاری کردہ اسناد کے ذریعے ملازمت حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنی ملازمت میں ترقّی کی منازل طے کرتے ہیں۔ تاہم، ایک بڑی تعداد فریش گریجویٹس کی بھی ہے اور اُنھیں بھی ملازمت کے حصول میں کم ازکم ہماری ڈگری کی بنا پر کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

س:۔ دورانِ ملازمت تعلیم حاصل کرنے والوں کو کیا سہولتیں فراہم کرتے ہیں؟

ج:۔ یونی ورسٹی کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ اُن مَرد و خواتین کو تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں، جو ملازمت یا کسی اور مجبوری کے سبب مروّجہ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ ملازمت پیشہ افراد کی سہولت کی خاطر ورکشاپس اور کلاسز کا اہتمام شام کے اوقات میں کیا جاتا ہے۔ نیز، کلاسز کا سلسلہ ہفتے وار چُھٹیوں کے دَوران بھی جاری رہتا ہے۔ یوں ملازمت چھوڑے بغیر اپنی تعلیمی استعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

س: دیگر یونی ورسٹیز میں تو تعلیم بہت مہنگی ہوچُکی ہے، کیا آپ کے یہاں بھی فیسز زیادہ ہیں؟

ج: نہیں جناب، علّامہ اقبال یونی ورسٹی کی فیسز دیگر جامعات کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔ اس غریب پرور یونی ورسٹی نے اپنے دروازے ہر ایک کے لیے کھول رکھے ہیں۔ یونی ورسٹی انتظامیہ کو اس بات کا احساس ہے کہ بےشمار ذہین طلبا و طالبات تعلیمی وسائل نہ ہونے کے باعث ہی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔لہٰذا، اوپن یونی ورسٹی ان کو بہت کم فیس میں میٹرک سے پی ایچ ڈی تک تعلیم کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ پھر یہ کہ ذہین طلبہ کو اسکالر شپس دی جاتی ہیں، تو نادار اور مستحق طلبہ کی مالی معاونت بھی کی جاتی ہے’’ Earn to learn ‘‘اسکیم کے تحت طلبہ کی ایک محدود تعداد کو یونی ورسٹی میں کام کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرسکیں۔

س: ان تمام اقدامات کے باوجود یونی ورسٹی کے بارے میں عوامی تاثر زیادہ مثبت نہیں۔ اس سلسلے میں آپ کیا کررہے ہیں؟

ج: جی ہاں! مجھے اعتراف ہے کہ بعض اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے یونی ورسٹی کے بارے میں مجموعی عوامی تاثر مجروح ہوا ہے، تاہم اس سلسلے میں اب ہم سخت ترین اقدامات کررہے ہیں۔ ٹیوٹرز، امتحانی عملے کی تعیّناتی، جوابی کاپیوں کی مارکنگ اور گریڈنگ کے معاملات میں شفّافیت لا رہے ہیں۔ اصل میں ادارہ کوئی بھی ہو، بعض لوگ سسٹم میں منفی طرزِ عمل لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اسی خامی کا شکار ہے۔بہرحال، ہم ایسے عناصر کا سدّ ِباب کررہے ہیں اور ساتھ ہی یونی ورسٹی کو مزید انقلابی تبدیلیوں سے ہم کنار کررہے ہیں۔

س:کس نوعیت کی انقلابی تبدیلیاں…؟

ج: یونی ورسٹی کا ایک انقلابی قدم ڈیجیٹل ٹرانس فارمیشن کا نفاذ ہے، جس کے لیے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے۔ تمام شعبہ جات کی تجاویز کی روشنی میں ایک ایسا سافٹ وئیر تشکیل دیا جارہا ہے، جو یونی ورسٹی کا تمام ڈیٹا محفوظ رکھ سکے گا اور تمام تر اُمور اسی پروگرام کے ذریعے مکمل ہوں گے۔ اس نئے پروگرام سے مُلک بھر میں پھیلے لاکھوں طلباء و طالبات کے مسائل حل ہوسکیں گے۔ نیز، ٹیوٹرز کی تعیّناتی کا نیا نظام بھی متعارف کروایا جارہا ہے۔اسی طرح مشقوں کی جانچ پڑتال کے موجودہ نظام میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، اُنہیں بھی دُور کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، بعض ایسے نئے پروگرامز بھی زیرِ غور ہیں، جو جاب مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ہوں گے۔ ترقّی یافتہ ممالک کی بعض یونی ورسٹیز کے ساتھ جوائنٹ ڈگری پروگرام بھی شروع کیا جائے گا، جس سے ہمارے طلبہ بین الاقوامی معیار کی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ پھر یہ کہ نصاب کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔

س: کیا آپ کے مالی وسائل تسلّی بخش ہیں اور حکومت کیا کچھ دیتی ہے؟

ج: حکومت کی طرف سے یونی ورسٹی کو ملنے والا بجٹ تو بہت کم یعنی 4سے 5فی صد ہے، لہٰذا یونی ورسٹی اپنے بجٹ کا بیش تر حصّہ اپنے وسائل سے خود پیدا کرتی ہے۔ظاہر ہے کہ یونی ورسٹی کی آمدنی کا زیادہ تر انحصار طلبہ کی فیسیز پر ہے، اس کے علاوہ، انڈومنٹ فنڈ اور دیگر چند دوسرے ذرائع سے بھی یونی ورسٹی کو آمدنی ہوتی ہے۔اطمینان کی بات یہ ہے کہ یونی ورسٹی کو کبھی مالی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ملازمین کی فلاح و بہبود کا کام بھی اپنے وسائل سے کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین