• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنی سنائی نہیں آنکھوں دیکھی بات کر رہی ہوں۔ اتنی زیادہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھنے پہ اور اپنی کمر میں شدید درد کے بعد ڈرائیور سے پوچھا، بتائو تو سہی آخر یہ کس کا علاقہ ہے۔ ڈرائیور بہت سمجھدار تھا بولا یہ علاقہ ان کا ہے جو پاکستان کے نام پہ ملکوں ملکوں جارہے ہیں۔ یہ بہت گہری بات تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کہا ذرا کھل کے بتائو۔ کہنے لگا جناب پیر و مرشد شاہ محمود قریشی کا علاقہ ہے۔ کیا انکو ترقیاتی فنڈز درکار ہیں۔ ہنس کے بولا مزارات کے والی ہیں۔ انہیں سرکار کے فنڈ کی کیا ضرورت اور پھر بس ایک دبکا ماریں کمشنر کو، وہ لوگ پہلے ہی دل جلے، چھاچھ کو بھی پھونکیں مارکر پی رہے ہیں۔ اتنے ذہین ڈرائیور سے میں اور کیا پوچھتی، البتہ مجھے ڈاکٹر اشرف غنی کی گفتگو یاد آئی جو اردو میں کیے ہوئے سوالات کا انگریزی میں جواب دیتے ہوئے بتارہے تھے کہ ’’ملتان کے مزاروں اور علامہ اقبال کے مزار پر قندھار سے سنگ مرمر آیا تھا۔ میں نے حسرت کے ساتھ سوچا ہمیں تو قندھاری انار بھولتے جارہے ہیں۔ یہ بھی خیال آیا کہ ڈاکٹر اشرف غنی کو ہندوستان کے ساتھ تجارتی قافلوں کو روکے جانے پہ تو دکھ تھا مگر پاکستان کے ساتھ باقاعدہ تجارت کرنے کا انہوں نے کیا سوچا، یہ ذکر ہی نہیں کیا۔ کمال بات تو یہ ہے کہ جب بھارت کرکٹ کھیل رہا تھا تو دیگر مسلمان ٹیمیں دعا کررہی تھیں کہ کس طرح بھارت جیت جائے اور پھر مقابلہ ہندوستان پاکستان کا ہو۔ یہی باتیں امن اور دوستی کی سطح پر کی جائیں تو ہم دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ اور دبئی کے ذریعہ تجارت کی جگہ امرتسر، قصور، نارووال اور سیالکوٹ کی سرحدوں کو دونوں ملک نرم شرائط پر کھول دیں تو یوں فائدہ دونوں ملکوں کا ہو۔ بڑی مشکل تجویز میں دے رہی ہوں کیونکہ اس دفعہ فوج نے پہلی دفعہ بجٹ میں اضافے کا نہیں کہا اور خود فوج کے سربراہ، امن اور ترقی پر زور دے رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ بھارت کے وزیراعظم کے لہجے کو کنٹرول کرنے کے لئے ڈاکٹر امیت شاہ بیٹھے ہیں۔ جانتے بوجھتے بھی کہ نہ پاکستان میں ایک قوم بستی ہے نہ ہندوستان میں۔ البتہ وہ ہندوستانی اور ہم پاکستانی ہیں۔ جو لوگ پچھلی سے پچھلی حکومت کے دور میں ہندوستان پڑھنے کے لئے گئے۔ وہ بھی اسی طرح پریشان ہیں جیسا کہ یورپ میں ہمارے بچے کہ انکو وظیفے کے پیسے مل ہی نہیں رہے۔ پاکستانیوں کے ساتھ بھی ہمارے شبر زیدی صاحب وہ سلوک کررہے ہیں جو ترقی یافتہ ملکوں میں تو ممکن ہے اور ہو بھی رہا ہے، یعنی شناختی کارڈ کے ساتھ این ٹی این نمبر بھی لکھا جائے گا۔ جس ملک میں غریب 25فیصد ہوں اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے، وہاں این ٹی این نمبر تو پیسے والوں کے لئے مناسب اور پھر قوم کو مسلسل ڈراوا دینے سے فائدہ کیا۔ یہ بھی تو سامنے رکھیں کہ زمینداری، وڈیرہ شاہی اور سرداری نظام نے جو کارندے چھوڑ رکھے ہیں۔ وہ نظام تو آپ ہزار سر پٹخ لیں کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا۔ جس طرح عدالتوں میں وکیلوں کے محرر، مقدمہ لمبا کرانے کے لئے، کبھی ادھر سے پیسے پکڑتے ہیں کبھی اُدھر سے۔ یہ کام دفتروں میں کلرک بادشاہ اسی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے تو سیکرٹریٹ کی راہداریوں میں بھٹکتے ہوئے سائلوں کا حال اور کلرکوں کے کمروں میں چپراسیوں کو دونوں ٹانگیں اوپر کر کے سگریٹ پیتا دیکھ لیجئے۔

یہی حال ہمارے سفارت خانوں کا ہے۔ ہر سفارت خانے میں کمرشل قونصلر لگایا جاتا ہے۔ ذرا صرف ایک سال میں انکی کارکردگی کی رپورٹ مانگ لیں۔ اسپین میں تو اردو بولنے پر آپریٹر فون بند کر دیتا ہے۔ سبب پوچھو تو پاکستانیوں کی بداعمالیوں کی داستان شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانیوں سے پوچھو تو وہ سفارت خانوں کے افسروں کی نابکار حرکتوں کی داستان سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ کبھی کسی سفارت خانے سے کوئی رپورٹ آئی کہ ایجنٹوں کے ذریعے، غیرقانونی طور پر پہنچنے والے پاکستانیوں کی کتنی مدد کی یا کسی خیراتی ادارے سے انکی روٹی روزی کا بندوبست کیا۔ کن کو پناہ دینے کے لئے کاوشیں کیں۔ البتہ ہندوستان اور پاکستان میں دونوں ممالک جاسوسی کرنے کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔

ہم دونوں ممالک گزشتہ ستر برس میں نصاب اور میڈیا کے ذریعے نفرتیں پھیلانے کا کام بڑی سرعت سے کرتے رہے۔ یہی صورت افغانستان میں ہے کہ وہ لوگ طالبان سے لیکر افغانستان میں ہر تباہی کا ذمہ دار، پاکستان کو سمجھتے ہیں جبکہ اب تو طورخم بارڈر چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کے اقدامات کئے گئے ہیں۔ یہ نقشہ آپ نے پاکستان اور افغانستان کے کرکٹ میچ کے دوران دیکھ ہی لیا ہوگا۔ کون ہے جو افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرتوں کو ہوا دے رہا ہے اور ہمارا سفارت خانہ اونچی دیواروں میں چھپا بیٹھا رہتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کہہ رہے تھے کہ علامہ اقبال نے اپنا کلام دری زبان میں لکھا ہے۔ ہم تو خیر ہم سہی، ایران والے بھی اسکو فارسی کہتے، پڑھتے اور بلاتے ہیں۔ گویا دری اور فارسی سگی بہنوں کی طرح ہیں۔ اگر یوں ہے تو ہمیں میڈیا کے ذریعے ہی سہی کچھ تو ثقافت سکھائیں۔ مجھے یاد ہے اقبال بانو اور فریدہ خانم، گزشتہ شاہ کے زمانوں میں فارسی غزلیں گانے کے لئے بالخصوص بلائی جاتی تھیں۔ اب صوفی میوزک کا غلغلہ ہے، جو آکسفورڈ میں بھی پڑھائی جارہی ہے، راحت فتح علی خان کو ڈگری بھی ملی ہے۔ کیا ہم افغانستان میں عابدہ پروین کے ذریعے صوفی میوزک نہیں سنوا سکتے ہیں۔ آخر نفرتوں کو ختم کرنے کی کوئی تو تدبیر ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین