• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات، جن میں دفتر خارجہ کے حکام بھی شرکت کر رہے ہیں، نیک فال ہی قرار پائیں گے۔ریجنل پیس انسٹیٹیوٹ (آر پی آئی)کے زیر اہتمام جمعہ کے روز اسلام آباد میں شروع ہونے والے یہ ٹریک ٹو مذاکرات آج (ہفتہ کو)بھی ہوں گے۔ آر پی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کا پہلا راستہ ٹریک ٹو سفارتکاری ہی ہے ، مذاکرات کا دوسرا دور نئی دہلی میں ہو گا ، مذاکرات کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو امن کی جانب لانا ہے۔ مذاکرات میں دونوں ملکوں کے سفرا بھی شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان روزِ اول سے بھارت کے ساتھ خوشگوار ہمسائیگی پر یقین رکھتا ہے اور اس کا ثبوت بابائے قوم محمد علی جناح کا یہ معروف قول ہے کہ ’’پاکستان اور بھارت کے تعلقات کینیڈا اور امریکہ جیسے ہوں گے‘‘۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسی قول کی بنیاد پر استوار کی گئی لیکن افسوس کہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے بعد خوشگوار ہمسائیگی تو دور کی بات دونوں ملکوں میں مخاصمانہ رویوں نے جنم لیا،جن کو ختم کرنے کی پاکستانی کوششوں کو بھارتی انتہا پسند عناصر نے کامیاب نہ ہونے دیا۔اس ضمن میں پاکستان کے اخلاص اور نیک نیتی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا کہ ہمیشہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش اور پہل کی گئی ۔ وزیراعظم عمران خان نے منتخب ہونے کے بعد جو پہلی تقریر کی اس میں بڑے پُرعزم لہجے میں برملا اس بات کا اظہار کیا کہ اگر بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ حکومت اور فوج دونوں خطے میں قیام امن کیلئے بھارت سے بات چیت کے خواہاں ہیں، بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل سے ہمیشہ پہلو تہی کی اورنسبتاً آسان مسائل حل کرنے میں بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔افسوس کہ پاکستان کے اس دوستانہ رویے کے باوجود فروری میں بالا کوٹ کا واقعہ پیش آیا اور معاملات سرد خانے میں چلے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا پہلا راستہ ٹریک ٹو سفارتکاری ہی ہے کہ براہ راست اور علی الاعلان مذاکرات کی راہ اسی طریقہ سے ہموار ہو سکتی ہے، دونوں ملکوں کے چند حلقے ہی کیا، کچھ عالمی قوتیں بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات استوار ہونے کے حق میں نہیں اور ان کے بیانات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان حالات میں اگر ٹریک ٹو سفارتکاری کا عمل شروع ہوا ہے تو امید کی جانا چاہئےکہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر مودی دوبارہ برسراقتدار آ گئے تو دونوں ملکوں میں مذاکرات کا آغاز ہو گا، لازمی بات ہے کہ انہوں نے یہ بیان کسی حقیقی بنیاد پر ہی دیا ہو گا۔ دوسری جانب خبر ہے کہ پاکستان نے بھارت کی جانب سے کشیدہ صورتحال معمول پر نہ آنے تک اپنی فضائی حدود کھولنے کی بھارتی درخواست رد کر دی ہے، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت کو اس سے بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اس سلسلے میں پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت پہلے اپنے لڑاکا طیاروں کو سرحدوںسے واپس بلائے۔ بھارت اگر چاہے تو مراسم کو بہتر بنانے کا یہ بھی ایک اہم موقع ہے ، اسی معاملے پر مذاکرات کا آغاز کر لے۔ مسئلہ کشمیر کا آبرومندانہ اور قابلِ قبول حل یقیناً ناگزیر ہے لیکن اس پر بات چیت کی راہ بلاشبہ آسان مسائل حل کئے جانے سے ہی ہموار ہو گی، لہٰذا اس ضمن میں کی جانے والی ہر کاوش کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ حالیہ مذاکرات میں نوجوانوں کو امن کی طرف لانے کی بات قابلِ تحسین ہے کہ اس سے نئی نسل منافرت سے محبت کی جانب آئے گی۔دونوں ملکوں کے عوام میں کوئی فرق نہیں، جب ان میں قربتیں بڑھیں گی تو نفرتیں خود ہی کافور ہو جائیں گی۔ ٹریک ٹو سفارتکاری ایک احسن عمل ہے اسے جاری رہنا چاہئے، اس سے برصغیر ہی کیا پورے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہو گا۔

تازہ ترین