• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ تاریخی لمحات ہیں… پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری دور میں اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے جارہی ہے… قومی اسمبلی کے اجلاس کا آخری سیشن جاری ہے جو دس فروری تک چلے گا اور ہو سکتا ہے، اسی روز نگران حکومت کے قیام اور الیکشن کے انعقاد کی تاریخ کااعلان بھی ہو جائے … ایک اور تاریخی لمحہ آیا جس میں قومی اسمبلی کے ارکان کا یادگاری فوٹو سیشن ہوا ، کیمرے کی آنکھ نے اسے محفوظ ہی نہیں کیا بلکہ یہ 18 کروڑ عوام نے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں تصاویر کی صورت میں دیکھا بھی ہے۔ عوام کو مبارکباد اس بات پر دینی ہے کہ کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کئے گئے یہ یادگار لمحات آپ کو ہمیشہ یاد رہیں گے کہ ”بدترین جمہوریت کا انتقام“ کیسا ہوتا ہے… کس طرح کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو جاتی ہیں، مہنگائی کا عفریت کیسے کیسے ڈستا ہے… پٹرول ، گیس کا بحران کیا تباہی لاتاہے…لوڈشیڈنگ کا ”سور“ کس طرح ملکی صنعت کو برباد کر دیتا ہے…کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کئے گئے یہ لمحات آپ کو اس لئے بھی یاد رہیں گے کہ پارلیمان کے گیٹ نمبر ایک پر کیسے کیسے دو نمبر لوگ تھے…رینٹل پاور وزیر اعظم سے لیکر حج کرپشن وزیر تک ، سنیاسی وزیر داخلہ کی دہشت گردی کی پیشگوئیوں سے لیکر ریلوے اور پی آئی اے کو دیمک کی طرح چاٹنے والے وزراء تک۔ آپ کو یہ بھی یاد رہے گا کہ کن کن ٹیکس چوروں کے یہ مسکراتے چہرے، بدعنوانی اور کرپشن کے دریا میں اشنان کرنے والے اراکین ، یوٹیلٹی بلوں کے نادہندہ ہیں… لیکن قطعی طور پر مایوس نہیں ہونا، بس یہ چہرے یاد رکھنے ہیں کیونکہ انشاء اللہ الیکشن ہوں گے اور الیکشن کمیشن نے تو تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے46نکات پر مشتمل ایک حتمی ضابطہٴ اخلاق بھی جاری کر دیا ہے… انتخابی اصلاحات کا ترمیمی بل بھی وزارت قانون کو بھجوایا گیا ہے اس کی منظوری کے بعد اب اسکروٹنی 30دن میں ہوگی اور آئین کی دفعات 62،63 پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر شفاف انتخابات کاانعقاد بھی ممکن ہو سکے گا لیکن پاکستانی عوام سے ایک گزارش کرنی ہے کہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے ”بدترین جمہوریت کی بہترین پارلیمنٹ“ کے ارکان کی تصاویر کو اپنے گھر کے گیٹ پر لٹکا کر ضرور رکھیں تاکہ جب آپ ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے نکلیں تو ٹیکس چوروں، قوم کے لیٹروں کے چہرے آپ کو یاد رہیں۔ اگر پھر بھی لیٹرے آپ نے منتخب کئے تو کبھی بھی مثبت تبدیلی اس ملک میں نہیں آسکے گی!
پاکستانی عوام کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ الیکشن سے پہلے کئی ون ایکٹ اور ٹو ایکٹ ڈرامے بھی ہوں گے۔ ایک ڈرامہ صوبہ پنجاب کی تقسیم کا ہے جو صدر کی ہدایتکاری میں جاری ہے۔ ان کے اسٹاف آفیسر فرحت اللہ بابر کو صوبے کی تقسیم کے حوالے سے کمیشن کا سربراہ بنایا گیا جس نے 28 جنوری کو اپنی سفارشات دے دی ہیں اور یہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل وزارت قانون و انصاف کو بھجوا دیا گیا جس پر چھ ارکان کمیشن نے دستخط کئے ہیں ۔ اس کے مطابق پنجاب کو تقسیم کر کے نئے صوبے کا نام بہاولپور جنوبی پنجاب تجویز کیا گیا ہے۔ ( بی جے پی ) نئے مجوزہ صوبے میں قومی اسمبلی کی 59/اور صوبائی اسمبلی کی 124نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ کمیشن کی سفارشات میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ ڈی جی خان ، بہاولپور اور ملتان ڈویژن کے علاوہ ضلع میانوالی اور بھکر پر مشتمل ہوگاجبکہ جھنگ ضلع کو شامل کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا دارالحکومت بہاولپور تجویز کیا گیا ہے جبکہ ملتان اور بہاولپور کو جڑواں شہر قرار دینے کی تجویز بھی ہے… پارلیمانی کمیشن کی سفارشات آنے کے بعد مختلف اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے نہ صرف شدید ردعمل سامنے آرہا ہے بلکہ اس کمیشن کے ارکان جے یو آئی کے مولانا غفور حیدری نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ کمیشن کا مینڈیٹ پنجاب اسمبلی میں صوبوں کے حوالے سے پاس کردہ قرارداد کے مطابق تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اے این پی کے حاجی عدیل نے کہا کہ پہلے اجلاسوں میں صرف ڈی جی خان ، ملتان اور بہاولپور ڈویژن پر بات ہو رہی تھی مگر ضلع میانوالی اور بھکر کو وہاں کے عوام سے پوچھے بغیر شامل کر لیا گیا۔ صوبہ بہاولپور کی بحالی کے حوالے سے تحریک چلانے والے”بہاولپور متحدہ محاذ“ نے ان سفارشات کو نہ صرف مستردکردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ بہاولپور کے عوام کے ساتھ بدترین مذاق ہے جو 750کلو میٹر لمبے صوبے میں رہنے والوں کیلئے وبال جان بن جائے گا کیونکہ میانوالی سے دارالحکومت کا فاصلہ 500کلو میٹر ہے ۔ بہاولپور پنجاب سے کٹ کر کسی صورت جنوبی پنجاب کاحصہ نہیں رہے گا ۔ یہ ایسے وڈیروں کی سازش ہے جن کی نظریں چولستان کی 64 ہزار ایکڑ اراضی پر ہیں ۔ بہاولپور ڈویژن کی تمام بارز نے بھی ان سفارشات کو مسترد کر دیا اُدھر تونسہ اور خانپور میں بی ایس او اور بی این پی نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور کہا کہ راجن پور اورڈی جی خان کو دوبارہ بلوچستان میں شامل کیا جائے۔ میانوالی میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں اور احتجاجی ریلیاں نکالی جاری ہیں اور بڑی مدلل بات سامنے آرہی ہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب ہے جبکہ شمالی پنجاب کے حصے اس میں شامل کئے جارہے ہیں یہ صرف ان اضلاع کے ذخائر پر قبضہ کرنا مقصود ہے ۔ صوبہ بہاولپور کی بحالی کی کور کمیٹی کابھی اجلاس منصورہ میں ڈاکٹر وسیم اختر کی سربراہی میں ہوا جس میں گورنر پنجاب نے بھی شرکت کی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ بہاولپور کی بحالی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے کہا کہ یہ قومی کمیشن ہی نہیں اور اگر یہ بل قومی اسمبلی میں آیا تو نہ صرف اس کی مخالفت کی جائے گی بلکہ آئینی ترمیم لائیں گے جس میں صوبہ ہزارہ بھی شامل ہے۔ میاں نواز شریف نے تو بہت اہم بات کی ہے کہ نفرتوں کی بنیاد پر صوبے کی تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔ پنجاب کو تو کمیشن میں نمائندگی ہی نہیں دی گئی اور پنجاب کی مرضی کے بغیر اس کی جغرافیائی سرحدیں کیسے تبدیل کی جاسکتی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی جمشید دستی نے تو یہ دھمکی دے دی ہے کہ اگر سرائیکی صوبہ نہ دیاگیا تو تحت لاہور کا رخ کریں گے اور بندوق اٹھائیں گے۔
اگر اس تناظر میں صورتحال کاجائزہ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نامکمل کمیشن کے ذریعے ایسی سفارشات صرف ایک ڈرامہ ہے اور حکومت صوبہ بنانے کیلئے سنجیدہ نہیں بلکہ اپنے کالے کرتوت سے عوام کی نظریں ہٹانے کیلئے الیکشن اسٹنٹ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے ۔ اپوزیشن نے تو کمیشن کی قانونی اور آئینی حیثیت پر اعتراضات اٹھا دیئے ہیں اور اطلاعات یہ بھی ہیں کہ وزارت قانون وانصاف نے بھی کمیشن کی سفارشات کو ڈرافٹ کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ اس نامکمل کمیشن نے مشاورت کا عمل قواعد کے تحت مکمل نہیں کیا اور مینڈیٹ سے ہٹتے ہوئے ضلع میانوالی اور بھکر کے عوام سے پوچھا تک نہیں۔ گو یہ کمیشن تو پہلے دن سے متنازع تھا اب تو مزید اس کی اپنی حیثیت مشکوک ہوگئی ہے کیونکہ اس کا مینڈیٹ پنجاب اسمبلی میں پاس کردہ قراردادوں کی روشنی میں تھا اس لئے قومی اسمبلی میں 23ویں آئینی ترمیم کا یہ بل منظور بھی ہو جاتا ہے تو پنجاب اسمبلی اسے مسترد کر سکتی ہے اور آئین کے مطابق صوبے کی اسمبلی کی مرضی کے بغیر کوئی صوبہ نہیں بن سکتا۔ ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ یا اسپیکر قومی اسمبلی کو پارلیمانی قواعد کمیشن قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
تازہ ترین