• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امدادی پروگرام، بنیادی اصلاحات ضروری، قانون سازی کیلئے اپوزیشن کو اعتماد میں لیناہوگا، آئی ایم ایف

اسلام آباد (نمائندہ جنگ، تنویر ہاشمی) پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹیریساڈبن سانچیز نے کہا کہ اقتصادیات میں اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کلیدی اصلاحات کے لئے پالیسی سازی میں بنیادی مثالی تبدیلیاں لانا ہوں گی،حکومت کو قانون سازی کیلئے اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ہوگا،پاکستان کا مالی وصولیوں کا 25فیصد قرض چکانے پر خرچ ہورہا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی کا کہناہےکہ شناختی کارڈ کی شرط ختم نہیں ہوگی، حکومت اور IMF ایک صفحہ پر ، پاک افغان سرحد پر غیر قانونی تجارت روکیں گے۔ سابق وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹرشمشاد اختر نےکہاکہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں تاخیر نے غیر یقینی کو جنم دیا۔ جمعے کو ایس ڈی پی آئی کے تحت سیمینار سے خطاب میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ٹیریساڈبن سانچیز نےکہا کہ پاکستان اپنی مالی وصولیوں کا 25؍ فیصد قرض چکانے پر خرچ کررہاہے جبکہ ریاستی ملکیت میں کاروباری ادارے خسارے میں چل رہے ہیں، سرکاری قرضوں اور افراط زرمیں اضافہ ہورہا ہے، ان مسائل اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے پالیسی سازی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی ریذیڈنٹ نمائندہ نے کہا کہ شرح مبادلہ کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھنے سے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی،پاکستان کو بنیادی اقتصادی اصلاحات لانا ہوں گی، آئی ایم ایف ستمبر کے اواخر میں پیش رفت کا جائزہ لے گا، ان کا یہ بھی کہنا تھا چونکہ حکومت کو قومی اسمبلی میں معمولی اکثریت ہے لہٰذا اسے اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر قانون سازی کرنی ہوگی، اسٹیٹ بینک مہنگائی کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرے، سرکاری ادارے خسارے میں ہیں ، حکومتی قرضوں ، تجارتی خسارےاور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے ،آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے کیلئےپاکستان کو اقدامات کرنا ہونگے، آئی ایم ایف ہر 3ماہ بعد اقدامات کا جائزہ لے گا، انہوں نے کہا کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے مزید قرضے نہیں لے گی، مہنگائی کی شرح زیادہ ہےا ور اسٹیٹ بینک کو مہنگائی سے نمٹنا چاہئے،پاکستان میں تعلیم پر ایک فیصد اور صحت پر دو فیصد بجٹ رکھا جاتا ہے اس کو چارفیصد کرنیکی ضرورت ہے، آئی ایم ایف کے بارے میں نظریات درست نہیں، آئی ایم ایف پاکستان میں منافع کمانے نہیں آتا، جب رکن ممالک مشکل میں ہوں تو پروگرام دیتے ہیں، پاکستان میں بیرونی ادائیگیوں کا مسئلہ ہے ،پاکستان چیلنجنگ صورتحال میں ہے ،پاکستان کا مالی خسارہ بڑ ھ رہاہے ،گردشی قرضے بھی بڑھ رہے ہیں ،پاکستان کا دیگر ممالک کے مقابلے میں ریونیو کم اکٹھا کیا جاتاہے،پاکستان میں ٹیکس کی چھوٹ زیادہ ہیں، توانائی شعبے میں گردشی قرضہ 700 ارب روپے تک پہنچ گیا، پاکستان کو مارکیٹ کے مطابق ایکس چینج ریٹ کی ضرورت ہے،پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اقدامات پر عمل کرنا ہوگااور گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، ریونیو میں بڑھانےکیلئے ایف بی آر کو مضبوط ،ا سٹیٹ بینک کو خود مختار کرناہوگا، ریونیو کے معاملے میں زیادہ وقت نہیں ، پاکستان کوفوری اقدامات کرنا ہونگے ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی نے واضح کیا کہ کمپویٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے کا تاجروں کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا، حکومت کسی احتجاج اور دبائو میں آکر نہیں جھکے گی، ایسا مطالبہ کرنے والے ٹیکس نیٹ سے بچنا چاہتے ہیں، حکومت اور آئی ایم ایف ایک صفحہ پر ہیں، بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے تجویز کردہ اقدامات سے حکومت کو کوئی اختلاف نہیں، دولت کی مساویانہ تقسیم کی جانب پیش رفت کا واحد راستہ ٹیکسیشن ہے۔ افغانستان کے ساتھ اوپن ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ اس ایگریمنٹ کا اسمگلروں نے ناجائز فائدہ اٹھایا جس کے مقامی صنعتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے، پاک افغان سرحد سے غیر قانونی تجارت روکنے کے لئے سخت اقدامات کرنے ہوںگے، حکومت پاکستان سے ایک لاکھ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 60؍ ہزار نے گوشوارے داخل کئے ہیں، انہوں نے کہا کہ بجٹ اقدامات سے تاریخ ساز بنیادی تبدیلی آئے گی، ٹیکس نظام کو خودکار کرنے سے ادارہ جاتی کرپشن کا تدارک ہوگا۔اس موقع پر ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے میں تاخیر نے غیر یقینی کو جنم دیا،پاکستان میں اخراجات زیادہ اور آمدن کم ہے،پاکستان میں سرمایہ کی شرح ضرورت سے خاصی کم ہے،پاکستان میں سرمایہ کاری شرح کم ہوئی ہے،اگر بچت نہیں ہوگی تو سرمایہ کاری نہیں ہوگی، معاشی اصلاحات کے ساتھ اداروں کی اصلاحات کی زیادہ ضرورت ہے، پاکستان میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 18 فیصد تک پہنچ سکتی ہے،شمشاد اختر نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا کم قرضہ لیا، اگرمیں وزیر خزانہ ہوتی تو انہی شرائط اور شرح سود پر یہ قرضہ 6ارب ڈالر سے زیادہ ہوتا۔اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے چیئرمین ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہر دفعہ متنازع رہا ہے ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کہ ملک میں معاشی استحکام کیلئے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے۔

تازہ ترین