ڈرامہ انڈسٹری اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے صرف خوبصورت ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور صلاحیتوں سے مالا مال فنکار نصیب ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک رباب ہاشم بھی ہیں، جو دس سال سے کیمرے کاسامنا کررہی ہیں۔ انھوں نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز 10سال کی عمر میں جیو ٹی وی کے پروگرام ’’جانو جانور‘‘ میں بطور میزبان کیا۔ آجکل وہ جیو ٹی وی کے ہی ڈرامے ’’ میرے محسن‘‘ میں جلوہ گر ہیں۔ اس ڈرامے میں رباب کے کردار کی خاصیت یہ ہے کہ جیسے جیسے ڈرامے کی کہانی آگے بڑھتی جائے گی، ان کے کردار میں تبدیلیاں رونما ہوتی جائیں گی۔ رباب بہت پُرامید ہیں کہ دیگر ڈراموں کی طرح یہ ڈرامہ بھی بہت مقبول ہوگا۔ بقول ان کے،’’ اس ڈرامے کی کہانی منفرد اور حقیقت کے قریب تر ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے رشتے نبھاتی ’عورت‘ مرد کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ آپس کے یہ سارے رشتے جب مرد کی محبت اور توجہ کو بانٹنے سے کتراتے ہیں تو پھر سب کچھ تہس نہس ہونے لگتاہے‘‘۔
اس ڈرامے میں ان کےمقابل سید جبران ہیں اوریہ دونوں پہلے بھی کئی سپرہٹ ڈرامے انڈسٹری کو دے چکے ہیں۔ حالیہ عرصے میں جیو ٹی وی کے زبردست ریٹنگ کے حامل ڈرامے ’کم ظرف ‘ سے بھی رباب نے بہت داد سمیٹی ۔ اس ڈرامے میں رباب ایک خود مختار عورت کے کردا ر میں نظر آئیں،جو ایک ایسی لڑکی کو سپورٹ کرتی ہے جس کا تعلق ایک پسماندہ گھرانے سے ہے اور وہ لڑکی ایک انتہائی کم ظرف انسان سے شادی کرلیتی ہے۔ طبقاتی فرق کی وجہ سے اس کا شوہر اسے قبول نہیں کرپاتا اور اس کی شادی اس کیلئے ذلت بن جاتی ہے۔ رباب اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کیلئے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظلم کا مقابلہ کرتی ہے۔
رباب ہاشم 28نومبر 1992ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے تھیٹر کی ٹریننگ حاصل کرتے ہوئے آنرز اور نجی یونیورسٹی سے بی بی اے کیا۔ جیو ٹی وی پر فنی کیریئر کا آغاز کرنے کےبعد انھوں نے کئی کامیاب ڈراموں میں اداکاری کی۔ وہ جیو سوپرکے اسپورٹس شو ’’کھیلو اور جیتو‘‘ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ٹرانسمیشن کے لیے بھی میزبانی کے فرائض انجام دے چکی ہیں۔
سردیوں کی تعطیلات تھیں، ان چھٹیوں کو بے کار گزارنے کے بجائے 12سالہ رباب گٹار اور میوزک سیکھنے ناپا چلی گئی ۔رباب کا کہنا تھا کہ ’’اس وقت نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا ) نیا نیا وجود میں آیا تھا اور اس میں داخلے کیلئے کم سے کم عمر 18سال تھی اور میں صرف 12 سال کی تھی۔ اداکاری کے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے داخلہ مل گیا اور میں پہلے بیج (Batch) کی سب سے کم عمر طالبہ تھی۔ وہاں میں نے اسٹیج اداکاری میں کیریئر شروع کیا اور جانا کہ آپ کیسے اپنی ایک دنیا خود تخلیق کرسکتے ہیں ‘‘۔
جیو ٹی وی پر دس سال کی عمر میں کام کرنے کےحوالے سے رباب ماضی کے جھروکوں میں جھانکتی ہیں، ’’میں نے دس سال کی عمر میں بچوں کا شوکیا۔ میں نے اس وقت تک اداکاری شروع نہیں کی تھی بلکہ جانتی بھی نہیں تھی کہ اداکا ری کیا ہوتی ہے ۔دراصل بچوں کے شوز دلچسپ اور تفریح سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ میزبانی کرنے کی صلاحیت میرے اندر قدرتی طور پر موجود تھی، باوجود اس کے کہ میں ایک شرمیلی لڑکی تھی، میں کیمرے کا سامنا اعتماد سے کرتی تھی ‘‘۔
اداکاری بطور پیشہ اپنانے کے بارے میں رباب اظہارخیال کرتی ہیں، ’’اداکاری میری پہلی محبت ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں نے اپنی اس محبت کو کتنی دیر سے دریافت کیا، یہ ایک ایسی چیز ہے جو میرے دل کے بہت قریب ہے اور میں اس کی بہت قدر کرتی ہوں ‘‘۔
رباب نے جب ناپا سے گریجویشن مکمل کی تو اس وقت ان کی عمر15سا ل تھی اوروہ کم عمر ترین گریجویٹ تھیں۔ اس کے بعد کی کہانی رباب یوں سناتی ہیں،’’ گریجویشن کرنے کے بعد مجھے اداکاری کی اجازت نہیں ملی اور میں نے کالج میں داخلہ لے لیا کیونکہ میر ے والدین چاہتے تھے کہ میں اپنی پڑھائی پر توجہ دوں۔ خوش قسمتی سے جب میں نے بی بی اے میں داخلہ لیا تو شیڈول زیادہ سخت نہیں تھا اور مجھے اتنا وقت مل گیا کہ میں ایک سال میں ایک پروجیکٹ کرسکوں ‘‘۔
گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بھی ربا ب اپنے اسی شیڈول پر جمی رہیں اور کم لیکن چنیدہ پروجیکٹ کرتی رہیں۔ ڈراموںمیں کیے گئے کرداروں کے حوالے سے رباب کہتی ہیں، ’’بحیثیت ایک اداکارہ مجھے وہ کردار پسندہیں، جو بہت مضبوط ہوں۔ جب آپ ایک مضبوط عورت کا کردار کررہی ہوتی ہیں توآپ کی پرفارمنس میں بہت ورسٹائلٹی آجا تی ہے، لیکن میں رونے دھونے اور بے چارگی والے کرداروں سے بھی لطف اندوز ہوتی ہوں۔ میرے خیال میں کچھ کردار ہٹ کر بھی کرنے چاہئیں، کچھ تجربے کے لیے بھی یعنی وہ کردار جوکسی بھی اداکار کا خواب ہوتے ہیں ‘‘۔
کرداروں کے انتخاب کے بارےمیں رباب لب کشائی کرتی ہیں، ’’میں اپنے لیے کردار کا انتخاب بہت دیکھ بھال کر کرتی ہوں کیونکہ میں سال میں دو تین سے زیادہ پروجیکٹس نہیں کرتی اوراگرآپ پہلے ہی کم کام کررہے ہوں تو آپ کو اچھے اسکرپٹ کا انتخا ب کرنا پڑتاہے۔ جب تک میں کسی چیزکو اچھی طرح سمجھ نہ لوں ، اس کیلئے ہامی نہیں بھرتی۔ میری شاید یہی بات بہت سے لوگوں کو پسند نہیں ہے ‘‘۔