• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جون ایلیا نے کیا خُوب کہا ہے؎’’تم بہت جاذب و جمیل سہی…زندگی جاذب و جمیل نہیں…نہ کرو بحث ہار جاؤ گی…حُسن اتنی بڑی دلیل نہیں…‘‘ شوبز انڈسٹری سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، باکمال اداکارہ رباب ہاشم نےشاید اسی شعر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا کہ وہ خُوب صورتی اور حُسن سے زیادہ صلاحیتوں پر یقین رکھتی ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ ظاہری حُسن ماند پڑ سکتا ہے، صلاحیتیں نہیں۔ رباب نےناپا اکیڈمی سے اداکاری کی تربیت حاصل کی اورنہایت قلیل عرصے میں خود کوایک کام یاب اداکارہ کی حیثیت سےمنوایا۔ان کے زیادہ تر ڈرامے جیو چینل سے نشر ہوئے اور اب وہ حال ہی میں ختم ہونے والے ڈرامے’’کم ظرف‘‘ کے بعد’’میرے محسن‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ ان کے مقبول ڈراموں میں ’’نہ کہو تم میرے نہیں‘‘،’’ ضد ‘‘،’’ تم سے مِل کے‘‘، ’’ پیا مَن بھائے‘‘، ’’عنایہ تمہاری ہوئی ‘‘،’’ عشقاوے‘‘ ’’میرے درد کی تجھے کیا خبر‘‘، ’’ایک تھی مثال‘‘، ’’مَن چلی‘‘ ’’ مرضی ‘‘، ’’منّت‘‘،’’ تمہارے ہیں‘‘،’’ امانت‘‘،’’ محبّت خواب سفر‘‘،’’مَیں ماں نہیں بن سکتی‘‘، ’’عشق نہ کریو‘‘ اور ’’کم ظرف‘‘ شامل ہیں۔نیز،انہوں نے ٹیلی فلمز’’ہنی بمقابلہ منی‘‘، ’’لو جی لَو ہو گیا‘‘ اور ’’سائیاں موٹر والا‘‘ وغیرہ میں بھی خُوب جم کر اداکاری کی۔

گزشتہ دِنوں ہم نے رباب ہاشم سےجنگ، سنڈے میگزین کے مقبول ِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے تفصیلی بات چیت کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

ناپا سے گریجویشن کے وقت عُمر 15 برس تھی
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: خاندان اور ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے ہے۔خود مَیں کلاس وَن سے لے کر گریجویشن تک پوزیشن ہولڈر رہی ۔والد بزنس مین ہیں۔مَیں نے سینٹ پیٹرکس اسکول، کراچی سے میڑک ،جب کہ کالج آف بزنس مینجمنٹ(College of Business Management)سے انٹر اور گریجویشن کیا۔ اب فلم میکنگ میں ماسٹرز کا ارادہ ہے۔دیکھیں اس خواب کو کب تعبیر ملتی ہے۔ تربیت کے معاملے میں امّی کا عمل دخل زیادہ رہا ، زمانے کی ساری اونچ نیچ اُن ہی سے سیکھی ہے۔

س: آپ نے اداکاری کے شعبے میں بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی ؟

ج: جی بالکل،2008ء میں ناپا اکیڈمی(National Academy of Performing Arts ) سے شعبۂ اداکاری میں گریجویشن کی۔تب پرویز مشرف صدر تھے،تو ڈگری ان ہی کے ہاتھوں وصول کی۔مَیں اپنے بیج کی سب سے کم عُمر لڑکی تھی اوریہ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ مجھے مُلک کے نام وَر فن کاروں طلعت حسین، راحت کاظمی، ضیاء محی الدین، انجم ایاز، ارشد محموداور ڈاکٹر انور سجاد(مرحوم)سے اداکاری کی باریکیاں اور اسرار و رموز سیکھنے کا موقع ملا۔

س:کتنے بہن، بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟

ج: ہم دو بہن، بھائی ہیں۔بھائی طلحہ ہاشم مجھ سےپانچ برس بڑے ہیں،ان کی شادی ہوچُکی ہے اور وہ مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔انہوں نے مجھے زندگی کے ہر موڑ خاص طور پر شوبز انڈسٹری میں بہت سپورٹ کیا ہے۔

س:بچپن کیسا گزرا؟

ج: چوں کہ کوئی بہن نہیں تھی اور خاندان میں بھی لڑکیاں کم ہی تھیں، اس لیے لڑکوں کی طرح گزرا۔حد تو یہ کہ بولنے کا انداز بھی لڑکوں جیسا تھا۔

س:بچپن میں زیادہ توجّہ آپ کو ملی یا بھائی کو؟

ج: چھوٹی ہونے کے ناتے زیادہ توجّہ مجھے ہی ملتی تھی۔

س: اداکاری کی دُنیا میں آمد کیسے ہوئی؟

ج:جب مَیں اسکول میں زیرِ تعلیم تھی،تو جیو چینل سے بچّوں کا ایک پروگرام ’’دیکھو، سُنو، سمجھو‘‘شروع ہوا، جس میں دس سے بارہ سال کی عُمر کے بچّے میزبانی کرتے تھے۔ ابّواور امّی کی خواہش تھی کہ مَیں بھی اسی طرح کا کوئی پروگرام کروں۔سو، امّی کے ساتھ اسی پروگرام کے لیے آڈیشن دینے چلی گئی۔ آڈیشن فیصل سیانی صاحب نےلیااور مجھےمنتخب بھی کرلیا۔ یوں پہلی بار اس چمکتی دُنیا میں قدم رکھا اور تعلیم کے ساتھ شوبز کی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں۔دورانِ تعلیم سال میں صرف ایک ہی ڈراماکرتی تھی،باقاعدہ طور پر2014ء سے کام شروع کیا۔

س:خاندان میں کوئی اور اس فیلڈ سے وابستہ ہے؟

ج:نہیں،یہ اعزاز مجھے ہی حاصل ہے۔ مجھ سے قبل خاندان کاکوئی بھی فرداس فیلڈ سے وابستہ نہیں رہا۔

س:پہلا ٹی وی ڈراما کون سا کیا؟

ج: اصل میں مجھےپہلے ڈراموں میں کام کی اجازت نہیں تھی،مگر جب یونی ورسٹی جانا شروع کیا،تو ابّو نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ ایک سیمسٹر میں صرف ایک ہی پراجیکٹ پر کام کرنا ہے،تاکہ پڑھائی کا حرج نہ ہو۔میرا پہلا ڈراما انور مقصود کاتحریر کردہ ’’ہم پہ جو گزرتی ہے‘‘ تھا،جس میں ایک مختصرساکردار ادا کیا، مگر خوشی اس بات کی تھی کہ انور صاحب نے لگ بھگ16برس بعد ٹیلی ویژن کے لیےکوئی ڈراما لکھا تھا اور اسے ڈائریکٹ شاہد شفاعت نے کیا۔

س:شو بز انڈسٹری کو کیسا پایا؟

ج: بہت اچھا۔ دیکھیں،زندگی کے ہر شعبے میںاچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں۔یہ کہنا کہ شوبز انڈسٹری اچھی نہیں،بہت غلط بات ہے۔ ماضی کی نسبت آج لڑکے، لڑکیاں اعلیٰ تعلیم اور اکیڈمیز سے باقاعدہ طور پر تربیت حاصل کرکے ڈراموں ور فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں،بلکہ اب نوجوان میڈیکل، انجینئرنگ اور ایم بی اے کی ڈگریز لے کر بھی شوبزانڈسٹری کواپنا کیریئر بنارہے ہیں۔

س: وہ کون سے ٹی وی ڈرامے ہیں، جو آپ کی پہچان بن گئے؟

ج: جیو سے نشر ہونے والاڈراما ’’پیا مَن بھائے‘‘، جس کی کاسٹ میں سمیع خان اور عُشنا شاہ شامل تھے، مجموعی طور پر بہت کام یاب رہا۔ اس کے بعد ڈراما سیریل ’’عنایہ تمہاری ہوئی‘‘ بھی جیو چینل ہی سے آن ایئرہوا اور بےحدپسند کیاگیا۔تاہم، ’’عشقاوے‘‘ میرا اب تک کا سُپرہٹ ڈراما ہے، جس میں مَیں نے سفینہ کا کردار ادا کیا ۔جیو کا ایک اور ڈراما ’’مرضی‘‘ بھی سراہا گیا۔ یوں کہہ لیں کہ میرا اور جیو کا بہت پُرانا رشتہ ہے،میرےسب سے زیادہ پسند کیے جانے والے ڈرامے جیو ہی سے آن ایئر ہوئے۔اور یوں مجھے جیو کی اسکرین بہت راس آگئی۔

س: بچپن میں اداکارہ بننے کے خواب دیکھتی تھیں یا مستقبل کے کچھ اور ہی ارادے تھے؟

ج: شوبز انڈسٹری سےوابستگی کاپہلے امّی ابّو نے سوچا،بعدمیں مَیں بھی سنجیدہ ہوگئی۔ ویسے مَیں دورانِ تعلیم ہی ٹیلی ویژن کی معروف اسٹار بن چُکی تھی۔

س:جب انڈسٹری سے وابستہ ہوئیں، تو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا؟

ج : سچی بات تو یہ ہے کہ شعبہ خواہ کوئی بھی ہو، آگے کا سفر جاری رکھنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ پھر ان مشکلات، آسانیوں کا کچھ نہ کچھ تعلق ہماری شخصیت سے بھی ہوتا ہے۔ اگر ہم خود مضبوط ہوں، تو مسائل سے نمٹنا نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔

س:جیو چینل سے’’کم ظرف‘‘ڈرامے کے فوراً بعد ہی’’میرے محسن ‘‘شروع ہوا ہے، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: الحمدللہ ’’میرے محسن‘‘ کی ابتدائی اقساط کا بہت اچھا فیڈبیک مل رہا ہے۔ ڈرامے کی کاسٹ میں سیّد جبران، ارم اختر، صبا حمید، گلِ رعنا اور دیگر شامل ہیں۔ اس ڈرامےکی پروموشن ویڈیو بہت عُمدہ بنائی گئی ہے اورشوکت نبیل اور نرمل رائے کی سُریلی آواز میں ٹائٹل سونگ ’’میرے اس درد کی دوا دے‘‘ بھی بہت پسند کیا جارہا ہے۔

س:کس اداکار کے ساتھ زیادہ کام کیا اور کس کے ساتھ جوڑی مقبول ہوئی؟

ج: تقریباً سب ہی کے ساتھ کام کیا ہے۔ ویسے پرستار میری جوڑی احسن خان، سمیع خان، جُنید خان اور سیّد جبران کے ساتھ زیادہ پسندکرتے ہیں۔

س: ٹی وی اسکرین کےبیش تر اداکار، اداکارائیں فلموں کا رُخ کر رہے ہیں، آپ کب سلور اسکرین پر جلوہ گر ہورہی ہیں؟

ج: چوں کہ مَیں اپنی شرائط پر کام کرتی ہوں،تو ایک دو فلموں کے اسکرپٹس میرے پاس آئے، لیکن معیار پر پورے نہیں اُترے، اس لیے منع کر دیا۔ویسے میرے مداح مجھے بہت جلدسلور اسکرین پر دیکھیں گے۔

س:اگر کسی فلم میں آئٹم سونگ کرنا پڑا، تو …؟

ج:آئٹم سونگ تو کسی قیمت پر نہیں کروں گی۔ ایسا نہیں کہ مجھے رقص نہیں آتا،یہ الگ بات ہے کہ کبھی آن اسکرین نہیں کیا۔ہاں، اگر کسی فلم میں ایکٹر کے ساتھ ڈانس کرنا پڑا، تو ضرور کروں گی۔

س:کبھی سینما جا کر کوئی پاکستانی فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا؟

ج:جی بالکل۔ابھی حال ہی میں عیدالفطر پرریلیز کی گئی نیلم منیر کی فلم ’’رانگ نمبرٹو‘‘اور مہوش حیات کی ’’چھلاوہ‘‘ دیکھی۔ اس سے قبل ’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ اور’’ نامعلوم افراد ٹو‘‘ بھی سینما ہی میں دیکھیں۔

س:کس اداکارہ سے متاثر ہیں؟

ج: ویسے توسب ہی بہت اچھا کام کر رہی ہیں،مگر مہوش حیات بہت باصلاحیت ہیں اورماہرہ خان کا تو کسی سے مقابلہ ہی نہیں ہے۔

س:بالی ووڈ میں کام کرنے کی خواہش ہے؟

ج: اگر آفر ہوئی، توسوچ سمجھ کر ضرور کام کروں گی۔

س:کوئی ایسا کردار، جسے ادا کرنے کی خواہش ہو؟

ج: اگرچہ میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ میرا اگلا پراجیکٹ پچھلے سے بالکل مختلف ہو۔تاہم، ایکشن فلم میںکام کرنے کی شدید خواہش ہے۔

س:مطالعے کا شوق ہے؟

ج:جی بالکل، انگریزی فِکشن شوق سے پڑھتی ہوں،جب کہ روسی ادب کا مطالعہ بھی بہت توجّہ سے کیا ہے۔

س:کون کون سے مُمالک گھوم چُکی ہیں؟

ج:گھومنے پھرنےکا شوق کم عُمری ہی سے ہے،اب تک آدھی دُنیا تو گھوم ہی چُکی ہوں۔

س:وہ کون سا مُلک ہے، جہاں رہنا پسند کریں گی؟

ج:مجھے ترکی بہت اچھا لگتا ہے۔اگر کبھی موقع ملا، تو وہیں بس جائوں گی۔

س:سیاست سے دِل چسپی ہے؟

ج: تھوڑی بہت کہہ سکتے ہیں۔ نیوز چینلز وغیرہ دیکھ لیتی ہوں۔

س:وقت کی قدرداں ہیں یا …؟

ج:مَیں نے ہمیشہ وقت کی قدر کی ہے،جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ مَیں شوٹنگ کے لیے ہمیشہ مقررکردہ وقت پر پہنچتی ہوں۔

س: آپ کی صُبح کب ہوتی ہے اور پہلا کام کیا کرتی ہیں؟

ج:صُبح سات بجے اُٹھ کر جِم جانا میری عادت ہے۔

س:شوٹنگزوغیرہ میں بہت مصروف رہتی ہیں، تو اہلِ خانہ اور رشتے داروںکے لیے وقت نکال پاتی ہیں؟

ج:عام طور پر مَیں اتوار کو شوٹنگ نہیںکرتی، تو یہ دِن مکمل طور پر فیملی کے لیے وقف ہے۔ اور جب کسی پراجیکٹ کے دوران بریک آجاتا ہے، تو فیملی کے ساتھ بیرونِ مُلک چلی جاتی ہوں۔

س:مزاج میں غصّے کا عُنصر شامل ہے یا…؟

ج:شارٹ ٹیمپرڈاور بہت منہ پھٹ ہوں۔ اگر کوئی مجھے پسند نہیں آتا، تو اسے صاف کہہ دیتی ہوں اور کوئی اچھا لگے، تو بھی برملا اظہار کرتی ہوں۔

س:کس بات پر غصّہ آتا ہے؟

ج:جب کوئی جھوٹ بولے،تو سخت غصّہ آتا ہےاور خوب کھری کھری سُنا تی ہوں۔

س:شوبز انڈسٹری میں اب جلد شادی کا ٹرینڈ چل پڑا ہے، آپ کا کب تک ارادہ ہے؟

ج:مجھے شادی کی کوئی جلدی نہیں، کم از کم پانچ سال بعد کروں گی۔ ابھی توساری توجّہ کام ہی پر ہے۔

س:گھر میں آپ کے ڈراموں پر تنقید کون کرتا ہے؟

ج:امّی اور بھابھی بہت باریک بینی سے میرے ڈرامے دیکھتی ہیں اور دونوں ہی تنقید بھی کرتی ہیں اور تعریف بھی۔

س:اپنی کوئی عادت جوخود بھی پسند ہو؟

ج:مَیں بہت عبادت گزار ہوں ۔

س:ستاروں پر یقین رکھتی ہیں؟

ج:نہیں، نہیں بھئی،مَیں ان چکروں میں نہیں پڑتی۔

س:مصروفیت کی وجہ سے نیند کتنی ڈسٹرب ہوتی ہے؟

ج:عام طور پر چار، پانچ گھنٹےہی سوپاتی ہوں۔جب شوٹنگ سے رات گئے گھر لوٹتی ہوں، تو نیندسے بےحال ہورہی ہوتی ہے، مگر شوبز کا کام ہی ایسا ہےکہ شوٹنگز کا وقت بدلتا رہتا ہے۔

س:موت سے ڈر لگتا ہے؟

ج:نہیں، بالکل نہیں کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔

س:زندگی میں جو چاہا،مل گیایا کوئی خواہش ادھوری ہے؟

ج:اللہ نے اوقات سے بڑھ کر عطا کیا ہے،اس پرجتنا بھی شُکر ادا کروں،کم ہے۔

س:وہ لمحات جوکبھی نہیں بھلا سکتیں؟

ج:بہت سارے ہیں۔ مَیں نے جب ناپا اکیڈمی سے گریجویشن کی، تو صرف پندرہ برس کی تھی، جب کہ دوسرے طلبہ اٹھارہ برس سے زیادہ عُمر کے تھے۔ مَیں نےکم عُمری ہی میں بہت کچھ حاصل کیا ہے،تو یہ سب کیسے بھلا سکتی ہوں۔

س:کوئی ایسی شخصیت، جو بہت یاد آتی ہو؟

ج:میرے اساتذہ اور ضیاء محی الدین صاحب۔

س:گھر میں کس کا حُکم چلتا ہے؟

ج:ہمارےگھر میں کوئی اسٹار نہیں ، سوا ئےامی کے، تو اُن ہی کا حکم چلتا ہے۔

س:سچ سچ بتائیں، کبھی کسی سے محبّت ہوئی؟

ج:کم عُمری میں لگتا تھا کہ یہ روگ اچھا ہوگا، مگر بعد میں سوچ بدل گئی۔

س:زندگی میں عشق کتنا ضروری ہے؟

ج:میں سمجھتی ہوں کہ ہر ایک کو ایک بار یہ تجربہ ضرور کرنا چاہیے۔

س: شاپنگ یا پھر کسی اور کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں، تو کیا لوگ پہچان لیتے ہیں اورتب کیا نظر اندازکرکے آگے بڑھ جاتی ہیں یا پھر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتی ہیں؟

ج:جی بالکل ،لوگ پہچان لیتے ہیں اور مَیں اپنے مدّاحوں سےخوش اخلاقی ہی سےپیش آتی ہوں۔

س:خواب دیکھتی ہیں؟

ج:سوتے میں جو خواب دیکھتی ہوں، وہ اکثر یاد نہیں رہتے، لیکن جاگتی آنکھوں سے دیکھے خواب یاد رہتےہیں۔

س:خود کو آنے والے چندبرسوں میں کہاں دیکھ رہی ہیں؟

ج:بہت زیادہ شہرت کا لالچ نہیں، اس لیے اس طرف کبھی دھیان نہیں دیا۔

جنگ:دولت یا شہرت کس کے پیچھے بھاگتی ہیں؟

ج:دونوں ہی کے پیچھے نہیں بھاگتی کہ یہ تو نصیب سے ملتی ہیں۔

س:شاپنگ کرنا کیسا لگتاہے؟

ج:بالکل پسند نہیں کہ میری زیادہ تر شاپنگ امّی ہی کرتی ہیں۔

س:اگربن بلائے مہمان گھر آ جائیں، تو کیسا رویّہ ہوتا ہے؟

ج:امّی ہمیشہ گھر آئے مہمان کو عزّت دیتی ہیں اور مَیں نے بھی اُن سے یہی سیکھا ہے۔

س:گھر میں کون سی زبان بولتی ہیں؟

ج:گھر میں تو اُردو ہی بولتی ہوں، مگر جب باہر ہوں، تو زیادہ تر انگریزی بولتی ہوں۔

س:اپنے پرستاروں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

ج:ہرحال میں اللہ کا شُکر ادا کریں۔

سونم کپور اور کریتی سین کی ہم شکل!!

شوبز انڈسٹری کے دوست اور مداح مجھے کبھی سونم کپور سے ملاتے ہیں،تو کوئی کہتا ہے کہ تم بالی ووڈ اداکارہ کریتی سین کی ہم شکل ہو،توکوئی حریم فاروق کی بھی ہم شکل قرار دیتا ہے،لیکن مَیں سب سے یہی کہتی ہوں کہ یہ صرف میک اپ آرٹسٹ کا کمال ہے کہ وہ مجھے جس فن کارہ کا لُک دیتا ہے، مَیں ویسی ہی لگنے لگتی ہوں۔ اس لیے مجھے رباب ہی رہنے دیں، تو زیادہ بہتر ہے۔

تازہ ترین