• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر ڈیل نہیں ایل این جی ٹرمینل شاہد خاقان کی گرفتاری کی بنیاد

اسلام آباد (انصار عباسی)قومی احتساب بیورو (نیب) نے شاہد خاقان عباسی کو حکومت سے حکومت کی سطح پر انتظامات کے تحت پی ایس او اور قطر گیس کے درمیان ایل این جی خریداری معاہدے پر نہیں بلکہ ایل این جی ری گیسیفکیشن ٹرمنل کنٹریکٹ کی مد میں گرفتار کیا ہے۔ یہ معاہدہ بولی اور ٹینڈر عمل کے ذریعہ سوئی سدرن گیس اور اینگرو ایلنجی کے درمیان ہوا تھا۔ سابق وزیراعظم نے نیب کے استفسار پر آخری چار سوالات کے جوابات نہیں دیئے۔ دی نیوز کے پاس نیب کی جانب سے گرفتاری کی بنیاد اور الزامات پر شاہد خاقان عباسی کے جوابات کی نقل موجود ہے جو سابق وزیراعظم کے قریبی ذریعہ سے حاصل ہوئی جس نے ریمانڈ کے لئے احتساب عدالت آمد پر ان سے ملاقات کی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے نیب کی جانب سے گرفتاری کی بنیاد اور شاہد خاقان عباسی کے ترتیب وار جوابات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔ نیب دستاویز کے مطابق: ’’جیسا کہ آپ شاہد خاقان عباسی احتساب آرڈیننس کی مختلف دفعات کے تحت کرپشن اور کرپٹ طریقوں کے مرتکب ہوئے۔ پورٹ قاسم پر ایل این جی سیل ایگریمنٹ کے ذریعہ گراں شرح پر ایل این جی ٹرمنل ایوارڈ کئے جانے کی تحقیقات کے نتیجے میں مذکورہ جرم کے ارتکاب کے حوالے سے خاطرخواہ مواد اور شہادتیں دستیاب ہیں۔ نیب کے نوٹس میں شاہد خاقان کی گرفتاری پر مزید کہا گیا ہے کہ (a) تحقیقات سے معلوم ہوا کہ آپ نے سابق وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل کی حیثیت سے میسرز کیو ای ڈی کنسلٹنٹ کے انٹرنیشنل کنسلٹنٹ کی حیثیت سے انتخاب میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ جواب میں کہا گیا کہ (a) اوّل کیو ای ڈی کنسلٹنٹس کی یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت اس کے پاکستان میں توانائی کے شعبے کے لئے اس کے خود خریداری عمل کے تحت خدمات حاصل کی گئیں۔ دُوسرے یو ایس ایڈ نے ہی اپنے فنڈز سے مشاورت کے لئے مکمل ادائیگی کی۔ تیسرے وزارت پٹرولیم کو کنسلٹنٹ کے انتخاب میں کوئی اختیار نہ تھا۔ چوتھے وزارت یا ایس ایس جی سی کی جانب سے کوئی ادائیگی نہیں کی گئی، پانچویں پیپرا یا حکومت پاکستان کے کوئی قواعد و ضوابط اس پر لاگو نہیں ہوئے۔ (b): نیب کا استفسار تھا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ آپ نے سابق وزیر پٹرولیم کی حیثیت سے ایل این جی ٹرمنل۔ ایک کے قیام میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایل این سی سے متعلقہ سرگرمیاں ایس ایس جی سی ایل کے بجائےانٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز (آئی ایس جی ایس) کو تفویض کیں جو 2006ء میں پالیسی کے تحت درحقیقت ایل این جی کی خریداری ایجنسی ہے۔ اس بنیاد کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی کا جواب تھا کہ آئی ایس جی ایس 100 فیصد حکومت پاکستان کا ملکیتی ادارہ ہے۔ اسے بڑے ٹھیکوں کے لئے مذاکرات کا وسیع تجربہ حاصل ہے جیسا کہ تاپی اور پاک۔ ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے معاہدے ہیں۔ اس سے قبل ایس ایس جی سی 2004ء میں ایل این جی ٹرمنل کے قیام کی پانچ کوششوں میں ناکام رہی۔ اسے ان معاہدوں کے لئے مطلوبہ صلاحیت اور مہارت حاصل نہیں۔ آئی ایس جی ایس کو اس عمل میں شامل کرنے کی وزارت، ایس ایس جی ایس بورڈ اور آئی ایس جی ایس بورڈ سب ہی نے منظوری دی۔ایس ایس جی سی بورڈ کی منظوری کے بعد ایس ایس جی سی اور اینگرو میں ایل این جی سروسز ایگریمنٹ (ایل ایس اے) ہوا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی اور کابینہ سے بھی منظوری لی گئی۔ واضح رہے کہ ایس ایس جی سی اپنے آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ساتھ ایس ای سی پی سے رجسٹرڈ کمپنی ہے۔ (سی): نیب کے ہاتھوں گرفتاری کی تیسری وجہ۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ میوریک ایڈوائزری کو کیو ای ڈی کنسلٹنٹ سے جوڑنے کے لئے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ اس پر بھی شاہد خاقان عباسی کا جواب مذکورہ بالا ہی تھا۔ کیونکہ کنسلٹنٹ کی پروکیورمنٹ/ سلیکشن بھی یو ایس ایڈ ہی نے کی تھی۔ حکومت یا کوئی سرکاری ادارہ ملوث نہ تھا۔ (d) نیب کے ہاتھوں گرفتاری کی وجہ۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ آپ نے بدنیتی سے وزیر کی حیثیت سے دیگر ملزمان کی ملی بھگت سے میسرز ای ای ٹی پی ایل کے حق میں مشاورتی عمل میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ جس پر شاہد خاقان عباسی کا جواب تھا کہ ایل ایس اے دستاویز ٹینڈر/ بڈڈاکومنٹ کا حصہ ہے۔ تمام بولی دہندگان اسی دستاویز کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی ایل ایس اے پورٹ قاسم پر ٹرمنل کے لئے ایس ایس جی سی اور اینگرو کے درمیان کنٹریکٹ تھا۔ جو 5 سال اوپر فعال نہیں رہا تھا۔ (ای): گرفتاری کے لئے نیب کی بنیاد۔ کالعدم وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل، آئی ایس جی ایس اور ایس ایس جی سی ایل کے ریکارڈ کے مطابق پہلے سال کیلئے 272479 ڈالرز کے گراں کیپاسٹی چارجز مقرر کئے گئے۔ دوسرے سال سے 15 سال کے لئے 228016 ڈالرز کیپاسٹی چارجز رہے جیسا کہ ای ای ٹی پی ایل سے بولی میں تھا۔ جو کسی منصفانہ جواز کے بغیر واحد بولی دہندہ تھا۔ اس پر شاہد خاقان عباسی کا جواب تھا کہ چارجز طے شدہ نہیں تھے۔ بولی عمل کے دوسرے مرحلے میں دو بولی دہندگان نے حصہ لیا۔ ایک بولی دہند تیکنیکی مرحلے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جس نے کوئی شکایت بھی نہیں کی۔ مالی بولیاں دوسرے مرحلے میں کھولی گئیں جو پیپرا رولز کے مطابق ہے۔ (f): گرفتاری کی بنیاد۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ آپ نے شریک ملزمان کی ملی بھگت سے ایس ایس جی سی ایل پی جی ٹرمنل کو ایل این جی ٹرمنل میں تبدیل کرنے کی کوششوں کو روکنے کیلئے پورٹ قاسم اتھارٹی کے کیمیکل زون میں ایل این جی ٹرمنل قائم کرنے کی اجازت دی اور فروری تا جولائی 2015ء شاہد مظفر الاسلام کو قائم مقام منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا۔ شاہد خاقان عباسی کا جواب: ایس ایس جی سی ایل پی جی ٹرمنل میں تبدیلی ناقص عمل تھا جسے تمام صنعتی ماہرین نے مسترد کیا۔ ایل پی جی اور ایل این جی ٹرمنلز کچھ بھی قدر مشترک نہیں ہوتا۔ مذکورہ تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں تھا بلکہ پاکستان ایک اچھے ایل پی جی ٹرمنل سے محروم ہو جاتا۔ یہ ایل پی جی ٹرمنل بھی ریکوڈک کی طرح بین الاقوامی مقدمہ بازی کی نذر تھا۔ پورٹ قاسم نے مذکورہ تبدیلی کی منظوری نہیں دی تھی۔ تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کے ہاتھوں اپنی گرفتاری کی آخری چار وجوہات کا بوجوہ کوئی جواب نہیں دیا۔ (g): آپ نے جان بوجھ کر بدنیتی سے ایک ارب 54 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کے بھاری نقصان کو روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جو نیب آرڈیننس کے مختلف دفعات کی خلاف ورزی ہے۔ (h) جو شہادتیں اکٹھا کی گئیں وہ کمیشن کے جرم کا آپ سے تعلق جوڑتی ہیں۔ (j) آپ کی طرف سے متعلقہ شہادتوں کو ضائع کرنے یا چھپانے کا خدشہ ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ نیب نے 2018-16ء میں اینگرو۔ ایس ایس جی سی ٹرمنل کنٹریکٹ کی نکوائری کی تھی جو تحقیقات کے بعد بند کر دی گئی۔ ان کے مطابق انہوں نے مذکورہ انکوائری میں رضاکارانہ شرکت کی تھی جب وہ وزیر پٹرولیم تھے۔ 

تازہ ترین