• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاٹا کے نام سے معروف صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع کے لوگ گزشتہ روز اپنی تاریخ میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کے لئے آزادانہ جمہوری انتخابات کے تجربے سے گزرے۔ قومی اسمبلی کے لئے انتخابات یہاں پہلے بھی ہوتے رہے لیکن ان میں عام آدمی کی شرکت عملاً ناممکن ہوتی تھی اور قبائلی عمائدین ہی منتخب ایوانوں میں اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ تاہم یہ امر انتہائی خوشگوار ہے کہ اب ان علاقوں کے باسی بھی ملک کے باقی حصوں کے لوگوں کے مساوی مرتبے اور حقوق و مراعات کے حقدار ہیں۔ یہ تاریخ ساز پیش رفت ایک سال قبل ان علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیے جانے کے مستحسن پارلیمانی فیصلے کے نتیجے میں ممکن ہوئی جبکہ اس سے پہلے قیام پاکستان کے باوجود سات دہائیوں تک ان اضلاع میں صدیوں پرانا قبائلی نظام نافذ رہا جس کی وجہ سے یہ خطہ زندگی کے تمام ہی شعبوں میں ملک کے دوسرے حصوں سے بہت پیچھے رہ گیا لیکن صوبے میں شمولیت کے باعث یہاں برپا ہونے والے تازہ انتخابی معرکے میں سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ اور آزاد امیدواروں کی حیثیت سے ہر عاقل و بالغ شخص کے لئے ان میں بحیثیت امیدوار حصہ لینے کے دروازے کھل گئے اور سات اضلاع کی 16جنرل نشستوں پرکل 281امیدواروں میں مقابلہ ہوا۔ ان میں سب سے بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی تھی جبکہ سیاسی جماعتوں میں سے تحریک انصاف نے16، جے یو آئی ف نے15، اے این پی نے14،جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے13،13نیز مسلم لیگ(ن) اور قومی وطن پارٹی نے 3,3امیدوار میدان میں اتارے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق انتخابی عمل میں عام لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے شرکت کی۔ حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے صبح سویرے ہی لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ نوجوان اور بزرگ ہی نہیں بیمار اور معذور افراد بھی قومی فرض کی ادائیگی کے لئے پولنگ اسٹیشن آئے۔ قبائلی رسم و رواج کے باعث خواتین اگرچہ گھروں سے کم ہی نکلتی ہیں لیکن اس الیکشن میں ان کی بڑی تعداد بھی ووٹ دینے کے لئے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچی۔ ان سطور کی اشاعت تک الیکشن کمیشن نے 16نشستوں میں سے 14حلقوں کے نتائج کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق آزاد امیدواروں نے 5نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے 5اور جے یو آئی (ف) نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی، ایک ایک نشست جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے حصے میں آئی۔دو نشستوں کا نتیجہ آنا ابھی باقی ہے۔جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو برتری حاصل ہے لہٰذا مناسب ہوگا کہ اس تنظیم کو جمہوری عمل کے ذریعے قومی دھارے میں شمولیت کے تمام مواقع فراہم کیے جائیں، افہام و تفہیم کا راستہ اپناکر غلط فہمیاں دور کی جائیں اور جائز شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری قومی اسمبلی کے جس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے، اس صوبائی الیکشن میں ان کے علاقے سے ان کے حریف آزاد امیدوار کا بھاری تعداد میں ووٹ لے کر کامیاب ہو جانا ایک بڑا اَپ سیٹ قرار دیا جارہا ہے جسے حکمراں جماعت کے لئے لائق توجہ ہونا چاہئے۔ یہ بات بہت اطمینان بخش ہے کہ سیکورٹی کے مثالی انتظامات، پولنگ اسٹیشنوں کے باہر اور اندر پر فوجی جوانوں کی موجودگی اور سی سی ٹی وی کیمروں کے اہتمام ساتھ انتخابات قطعی پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے اور کسی بھی حلقے میں دھونس دھاندلی اور ہنگامہ آرائی کی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ قبائلی علاقوں نے پچھلے دو عشروں میں دہشت گردی کا جو عذاب جھیلا ہے اور پھر اس کے خاتمے کے لئے فوجی آپریشن کے دوران ملک وقوم کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں، اس کے بعد ضروری ہے کہ اب ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، منتخب نمائندوں کے ذریعے پارلیمانی اداروں میں ان کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور ان کی تعمیر و ترقی کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کم سے کم وقت میں عمل میں لائے جائیں۔

تازہ ترین