متحدہ عرب امارات میں مختلف ممالک سے درآمد کئے گئے آم سارا سال دستیاب ہوتے ہیں۔ دیکھنے اور کہنے میں یہ’’ آم‘‘تو ہوتے ہیں لیکن ان میں نہ مہک اور نہ ہی ذائقہ ہوتا ہے۔یہاں مئی کے آغاز سے غیرملکی یہ پوچھنا شروع کردیتے ہیں کہ پاکستانی آم کب آرہے ہیں۔ ہر قوم کے باشندے پاکستانی آموں کا انتظار کرتے ہیں۔ پاکستانی آم کا ذائقہ، خوشبو اور قیمت کے اعتبار سے کوئی ثانی نہیں۔چند سال پہلے تک یو اے ای میں برآمد کئے گئے پاکستانی آموں کی پیکنگ اور کوالٹی معیاری نہیں تھی۔ لکڑی کی پیٹیاں استعمال کی جاتی تھیں کچھ سالوں سے اس میں بہت بہتری آئی ہے اگر امارات میں پاکستانی آموں کی مانگ ہے تو اس میں ایکسپورٹ پروموشن بیورو آف پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہاں کے پاکستانی تاجر مسائل اور مشکلات سے گزر کر آم درآمد کرتے ہیں۔ پاکستان میں قدم قدم پرمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دبئی فروٹ اینڈ ویجی ٹیبل مارکیٹ گلف میں بڑی منڈی ہے چار پانچ پاکستانی تاجر بذریعہ بحری جہاز آم درآمد کرتے ہیں۔ جب کہ بذریعہ ہوائی جہاز بھی بڑی مقدار میں پاکستانی آم یو اے ای مارکیٹ میں آتا ہے۔ ان تاجروں کا کہنا ہے۔ ہم مشکلات سے گزکر اپنی کوششوں سے آم درآمد کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ہمیں کوئی رعایت نہیں ملتی، بلکہ پورٹ اور ائرپورٹس پر بلاوجہ تنگ کیا جاتا ہے حکومت پاکستان کے اس قدم کی ہم حمایت کرتے ہیں کہ مقررہ تاریخ سے پہلے آم درآمد کرنے کی اجازت نہیں دیتے اس کی وجہ سے آم تیاری کے بعد ہی مارکیٹ میں آتا ہے۔ اب جب کہ مارکیٹ میں پاکستانی آموں کی دھوم اور مانگ ہے۔
قونصلیٹ پاکستان نے بھی گزشتہ دنوںدبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں تین روزہ ’’مینگو فیسٹیول‘‘ کا استعمال کیا۔ چھےسالوں کے طویل وقفے کے بعد قونصل جنرل احمد امجد علی اور ٹریڈ قونصلر ڈاکٹر ناصر خان کی کوششوں سے فیسٹیول کا انعقاد ہوا۔ نمائش اپنے انتظام و انصرام کے اعتبار سے خوب سے خوب تر تھی۔ 19 آم کی قسموں کو بڑی ترتیب سے سجایا گیا تھا۔ ہال میں آم کی خوشبو مہک رہی تھی۔ افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی قونصل جنرل احمد امجد علی تھے۔ 30 ممالک کے سفارت کاروں، 12 فارن بزنس کونسل کے عہدے داروں، ممتاز پاکستانی تاجروں، شخصیات اور مقامی افراد نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ جو آم کی قسمیں فیسٹیول میں رکھی گئی تھیں ان میں دوسہری، انور رٹول، سنارا، لنگڑا، صالح بھائی، کالا چونسہ، موسمی و سفید چونسہ، فجری، گولڈن، الفانسو، طوطا پری، سندھڑی، نیلم، تیموریہ، لال بادشاہ اور دیسی آم شامل تھے۔ نہ صرف آم نمائش کے لیے رکھے گئے تھے بلکہ آم سے تیار جوسز، شیک، جام، اچار، مربے اسکوائش، کیک، سلاد، سویٹ ڈشز، مینگو لسی، آئس کریم وغیرہ بھی رکھے گئے تھے۔ عالمی شہرت یافتہ شیفس نے موقعے پر ہی 70 ڈشیں بھی تیار کیں۔ مہمانوں کی تواضح مختلف انواع کے آم اور ڈشز سے کی گئی جسے بے حد سراہا گیا۔
اس موقعے پر قونصل جنرل احمد امجد علی نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مینگو فیسٹیول کا مقصد پاکستانی آم کی ورائٹی کو سفارت کاروں اور امارات میں رہنے والے باشندوں کو متعارف کروانا ہے۔ ہمیں مقامی لوگوں کو یہ بھی بتانا ہے کہ پاکستان میں 250 سے زائد اقسام کے آم ہوتے ہیں۔ پہلی دفعہ بڑے پیمانے پر نمائش کی گئی ہے اس سے پہلے میں نے برطانیہ اور کویت میں ایسی نمائشوں کا اہتمام کیا تھا۔ جس کے بہترین نتائج نکلے تھے۔ بحیثیت قونصل جنرل میرا فرض ہے کہ پاکستانی آم کو سفارت کاروں میں متعارف کروائوں۔ اس سے پاکستانی آم کی برآمدات میں اضافہ اور زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ پاکستانی آم اپنے ذائقے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ اب ہم یہاں کینو اور چاول کی نمائشوں کا بھی اہتمام کرنے جارہے ہیں۔
ٹریڈ قونصلر ڈاکٹر ناصر خان نے کہا کہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ پھلوں کے بادشاہ آم کا فیسٹیول منا رہے ہیں۔ ہم اسے پرموٹ کیوں نہ کریں یہ ہمارا قومی پھل ہے۔ ہمیں چاہیےآم کے ذریعے اپنی سفارت کاری، دوستی اور برآمدات میں اضافہ کریں۔ یو اے ای بڑی مارکیٹ ہے۔ قونصل جنرل احمد امجد علی کی کوششوں سے اس کا انعقاد ہوا۔ ہمارا آم دیگر ممالک کے آموں سے بہترین اور ذائقہ دار ہے۔پاکستان کی ذرخیز مٹی اور پانی کی وجہ سے ذائقہ میں لاجواب ہے۔
نمائش کا وزٹ کرنے والے شرکاء نے قونصلیٹ کی کوششوں کو سراہا اور کہا آم کی وجہ سے نہ صرف ہماری برآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے سفارت کاری اور دوستی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ایسی نمائشوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔