• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ایئر پورٹ بمقابلہ دنیا کے ایئر پورٹس

ماضی کی باتیں چھوڑیں، پاکستان اور خاص کر اسلام آباد کے نئے ائرپورٹ بمقابلہ سنگاپور، استنبول، اور دبئی ائرپورٹ پرواضح طور پر باتیں کر لیں۔ ان تمام مذکورہ ایئر پورٹس پر مسافروں کے لئے برابر برابرکم از کم چھ لفٹیں لگی ہوئی ہیں۔ ہر لفٹ میں20افراد آسکتے ہیں۔ جبکہ ہمارے نئے ائرپورٹ پر جو لفٹ لگی ہوئی ہے اس میں صرف دو افراد آ سکتے ہیں۔ مسافروں کے 500 لوگوں کے ہال میں صرف دو باتھ روم ہیں۔ اس ہال میں نہ پینے کا پانی ،چائے ،کافی یا چپس وغیرہ میں سے کچھ بھی تو نہیں۔ مسافروں کے سارے راستے اونچے نیچے شیشوں کے ساتھ بھاں بھاں کر رہے ہیں کہ نہ کہیں شیلٹر ہے۔ نہ کوئی اشتہار، نہ پاکستان کے سیاحتی مقام کی تصویریں، نہ پاکستان کرافٹ کی کوئی شاپ، نہ کتابوں کا کوئی اسٹال، صرف گرائونڈ فلور پر 300روپے کاچائے کا کپ 400روپے کا کافی کا کپ اور اگر کچھ کھانا ہو تو اپنی جیب دیکھ لیں۔ جہاں سامان آتا ہے وہاں ٹرک آرٹ سے اس قدر بھدے طریقے سے دیواریں بھری ہیں کہ آنکھیں بند کرنے کو جی کرتا ہے۔ کہنے کو بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ نہ ڈیوٹی فری دکانیں ہیں ،نہ مٹھائی اور پرفیوم کی ، کراچی ایئر پورٹ اور لاہور ایئر پورٹ کی طرح مسافروں کےلئے تفریح اور ڈرنکس کے کارنرنہیں بنے ہوئے ۔ ٹرانسپورٹ کاانتظام ہے ہی نہیں، ہزاروں میں ٹیکسی ملتی ہے۔ اب جا کر کرنسی ایکسچینج کا کائونٹر بنا ہے۔ مسافروں کے جانے کے لئے ایک مستطیل نما لائونج بنا دیا ہے، دیواریں خالی ہیں، کچھ نہیں تو مختلف ایئرلائنوں کے پبلسٹی پوسٹر ہی لگا دیں کچھ نہیں ہے تو ہمارے فوٹو گرافر دوست سمیع الرحمان کی پاکستان بھر کی کھینچی ہوئی اور انعام پانے والی تصاویر خرید کر لگادیں یا اس کو ٹھیکہ دے دیں کہ وہ ائرپورٹ کو سجا دے۔

دبئی ائرپورٹ پر پہلے صرف بین الاقوامی برانڈ کی دکانیں اور سونے کے مراکز ہوتے تھے۔ اب انہوں نے بھی اپنی کرافٹ، کپڑے عطر اور طرح طرح کے حقے، پیچوان، کفتان اور عورتوں کے چغے رکھے ہوئے ہیں۔ اب تو مغربی لباس بھی بنا رہے ہیں۔

سنگا پور ایئرپورٹ پر آپ گھنٹوں بیٹھیں،اتنے کھیل، لوازمات ،دکانیں اور پھر مقامی کرافٹ بازار کے علاوہ بچوں کے کھیلنے کیلئے الگ ایک پورا ایپرن، جگہ جگہ خود کار ورزشی کرسیاں موجود ہیں، مجال ہے کہیں کوئی نمکو کا خالی تھیلا پڑا ملے۔

استنبول کا نیا ایئرپورٹ بھی بے پناہ خوبصورت اور دنیا بھر کی دلچسپیوں سے بھرپور ،دنیا بھر کے کھانوں کی اقسام، ڈرنکس اور کرافٹ کے علاوہ کتابوں کو کمپیوٹر پر بھی پڑھنے کا انتظام اور ساری دنیا کے کمپیوٹر گیمز بھی موجود ہیں۔ پورے وقت ٹرکش میوزک اور کھانوں کی خوشبو میں قہقہے شامل ہوتے ہیں تو ایک دفعہ تو مڑ کر مسکراتے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ویسے وہ بھی مسلم ملک ہے۔ انڈیا میں دلی، بمبئی، کلکتہ، مدراس، اجمیر اور آگرہ کے ایئرپورٹ پر سموسوں، پکوڑوں ،دہی بڑوں، ڈوسا کے علاوہ بریانی اور مغربی کھانوں کے سینکڑوں کاونٹر اور کرافٹ اور میوزک سینٹرز ہیں۔

اب دو حرف نئی حکومت نے ان گیارہ ماہ میں اس ایئرپورٹ کیلئے ٹرانسپورٹ تک کا تو انتظام نہیں کیا ہے۔ جس کا جی چاہے آپ کے سوٹ کیس کیلئے بھاگتا ہے اور 500روپے مانگتا ہے۔ اب دیکھیں پشاور اور کوئٹہ ایئرپورٹ ،بالکل بسوں کے اڈے لگتے ہیں۔ جبکہ اب بسوں والوں نے بھی کھانے پینے کے اسٹال لگائے ہوئے ہیں۔ کوئی گفٹ شاپ نہیں ہے۔ کوئی بچوں کے کھیلنے کیلئے جگہ نہیں بنی ہوئی۔ کسی ماں کو بچے کیلئے دودھ چاہئے، وہ نہیں ہے۔

اسلام آباد سے ائرپورٹ تک کا فاصلہ چالیس کلومیٹر ہے۔اب اس راستے میں نظر آنے والے منظر ملاحظہ فرمائیں۔ ادھوری پڑی ہوئی میٹرو کے کہیں جنگلے، کہیں ٹوٹی ہوئی سڑکیں،کہیں بنے بنائے ہوٹل اور ریسٹورنٹ گرے ہوئے۔ یہی حال شادی ہالوں کا بھی ہے۔ چونکہ پیسے نہیں اس لئے میٹرو کچھوے کی چال بھی نہیں چل رہی اس لئے لوگوں کو اتنی مہنگی ٹیکسیاں کرکے آنا پڑتا ہے۔ یہ وقت کا ضیاع اور پیسے کا بھی۔ کہ جہاز موجود ہی نہیں۔ آجکل تو یہ بہت عام ہے کہ زیادہ تر جہازوں کو حاجیوں کو لانے لیجانے میں لگا کر کبھی ویت نام تو کبھی جنوبی کوریا سے کرائے پر جہاز معہ غیر ملکی عملے کے لینا پڑتا ہے۔

یوں تو ساری دنیا میں ایئرپورٹس شہر سے دور ہی ہوتے ہیں۔ لندن یا نیویارک یا میلبرن ایئرپورٹس کم از کم 90کلو میٹر دور ہیں۔ مگر ایئر پورٹس پر ہر طرح کی سہولتیں کہ کوئی 5ڈالر خرچ کرنا چاہے تو کوئی50ڈالر، ہر طرح کی چیزیں دستیاب ہیں۔ سادگی والی حکومت اگر ایک ماڈرن کھوکھا کھول دے۔ بس دال+روٹی دستیاب ہو۔ ہر ایسی مزیدار جیسی لاہور کے دال چاول والوں کے پاس ہوتی ہے۔ پھردیکھیں ایئرپورٹ کی رونقیں۔ لوگ میاں جی کی دال بھول گئے ہیں جب سے وہ دال ڈونگوں اور ہوٹل کے ایئرکنڈیشنڈ ہال میں دستیاب ہے۔ مزا تو جب تھا جب اسٹیل کی تھالی میں دال، چھوٹی ہنڈیا میں اچار اور دیسی گھی میں تندوری پراٹھا ملتا تھا۔ بالکل اسی طرح کہ اب یوں تو دلی میں بھی اور لندن کی گلیوں میں آپ کو ٹکا ٹک مل جاتا ہے مگر جو مزا لکشمی چوک میں آتا ہے،اسکا کوئی جواب نہیں، مجھے یادہے سنگا پور سے میرے دوست کی فیملی آئی،ہوٹل میں ٹھہری ،وہاں ویجیٹیرین ہونے کے ناتے انہیں صرف ماش کی دال ملتی تھی۔ وہ گھبرائے میرے پاس آئےکہ خدا کے لئے ہمیں سبزیاں ور دوسری دالیں کھلائیں۔نئے ایئرپورٹ پر کیا کچھ چاہئے۔ آپ بھی یہی سوچتے ہیں نا۔

تازہ ترین