• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دو روز سے ڈیلس میں ہوں، ڈیلس کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے دور دراز علاقوں سے لوگ یہاں تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کے آس پاس کی بستیوں کو شامل کر لیا جائے تو یہاں سوا لاکھ پاکستانی بستے ہیں۔ میں جب سے امریکہ آ جا رہا ہوں، ڈیلس پہلی مرتبہ آیا ہوں، اگرچہ یہاں آنے کا مقصد ایک مشاعرہ ہے مگر یہاں لوگ عمران خان کے کامیاب جلسے کی باتیں کررہے ہیں۔ اردو کی نامور شاعرہ نوشی گیلانی کی باتوں سے بھی جلسے کی رونقوں کی خوشبو آتی ہے۔


ڈیلس کی ادب بستی کے تین مہمان نوشی گیلانی، وصی شاہ اور یہ خاکسار تو کیا، اس بستی کو بسانے والے مبشر وڑائچ، طارق ہاشمی اور غزالہ حبیب بھی موضوعات سخن سے ہوتے ہوئے کوچۂ سیاست کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ موضوع عمران خان کا ایرینا میں ہونے والا تازہ ترین جلسہ ہے۔ نوشی گیلانی آسٹریلیا میں محبت کی اسیر ہونے سے پہلے سولہ برس امریکہ میں رہیں۔ ان کی وابستگی ڈیموکریٹس کے ساتھ تھی لہٰذا انہیں امریکہ میں ہونے والے جلسوں، ان میں آنے والے لوگوں کی تعداد کا بخوبی علم ہے۔ اسی علم کی بنیاد پر نوشی گیلانی بتانے لگیں کہ’’امریکہ کے صدارتی الیکشنوں میں بھی جس جلسے میں ہزار دو ہزار لوگ شریک ہوں، اسے بہت بڑا جلسہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کا ماضی قریب میں سب سے بڑا جلسہ بل کلنٹن کا تھا، اس جلسے میں پانچ ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔ اس جلسے کو تاریخی کہا گیا تھا مگر آفرین ہے عمران خان پر اس نے تو تیس ہزار افراد جمع کردئیے۔ امریکی حیران ہیں یہ کیسے ہو گیا جو کام امریکی سیاستدان نہیں کر سکتے، وہ پاکستان سے آکر عمران خان نے کر دکھایا۔ امریکہ میں اس روز سے آج تک کیپٹل ون ایرینا کی باتیں ہورہی ہیں۔ اس جلسے کو امریکی لوگ مدتوں یاد رکھیں گے‘‘۔ ابھی نوشی گیلانی کی باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ طارق ہاشمی اور مبشر وڑائچ نے جذباتی انداز میں بولنا شروع کردیا۔ پتا چلا کہ امریکہ میں لوگ اتنے فارغ نہیں ہوتے کہ جلسوں کا ایندھن بن سکیں، یہاں تو دو سو افراد کو اکٹھا کرنا بھی مشکل کام ہے۔ مشینی زندگی کے لوگ ہر وقت مشینوں کی طرح کام میں لگے رہتے ہیں۔ امریکہ کی سیاسی تاریخ میں یہ انقلابی لمحات تھے جب انسانوں کے سمندر نے کیپٹل ایرینا کو بھردیا، ورنہ امریکہ میں اس طرح کے اسٹیڈیم سیاستدان نہیں بھر سکتے۔ اس طرح کے مناظر تو اس وقت ہوتے ہیں جب کوئی بڑا راک اسٹار آرہا ہو۔ یہ کیسا جلسہ تھا کہ لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کے کیپٹل ایرینا پہنچ گئے۔ امریکہ کے دور دراز علاقوں اور کینیڈا سے اپنے خرچ پر آنے والوں نے تاریخ رقم کردی۔

پاکستان میں تو آج کل اور طرح کی سیاسی بحث ہو رہی ہو گی مگر امریکہ میں ہنوز عمران خان کے جلسے پر تبصرے جاری ہیں۔ یہاں دنیا بھر سے مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں اور وہ سب حیران ہیں کہ آخر اتنا بڑا جلسہ کیسے ہو گیا، کیسے لوگ جلسے میں آگئے۔ لوگوں کی حیرت ایک طرف امریکی سیاستدان بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے اتنا بڑا جلسہ کبھی دیکھا ہی نہیں۔ امریکہ میں بسنے والوں کو امریکہ ہی سے غرض ہوتی ہے ان کے زیادہ موازنے بھی اپنے مابین ہی ہوتے ہیں، لہٰذا جب امریکی شہر میں انہوں نے اتنا بڑا جلسہ دیکھا تو وہ عمران خان کے گرویدہ ہوگئے۔ پاکستان میں کچھ سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ عمران خان کو ایسی تقریر نہیں کرنا چاہئے تھی یعنی بار بار کرپٹ سیاستدانوں پر تنقید نہیں کرنا چاہئے تھی مگر یہاں امریکہ میں بسنے والے جتنے بھی پاکستانیوں سے بات ہوئی ہے ان کا خیال ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زبان سے ہم یہی سننا چاہتے تھے، ہمیں کرپشن سے نفرت ہے، ہم کرپٹ سیاستدانوں کو پسند نہیں کرتے، لہٰذا عمران خان نے جو کہا درست کہا۔ یہاں امریکہ میں میری بات کچھ ایسے لوگوں سے بھی ہوئی جو سیاسی نظریات کے اعتبار سے تحریک انصاف کے مخالف ہیں، جو اس جلسے میں شریک بھی نہیں ہوئے تھے مگر سوچ ان کی بھی یہی ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کا علاج ہونا چاہئے۔ ان کے نزدیک تو کرپٹ سیاستدان قیدیوں کو کسی بھی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہئے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں ایک سوچ عام پائی جاتی ہے کہ پاکستان کے پیچھے رہ جانے میں سارا کردار پاکستان پر مسلط رہنے والے کرپٹ ٹولے کا ہے۔

دورۂ امریکہ سے چند روز پہلے میں چین سے ہو کر آیا تھا، وہاں بھی کرپشن کے خلاف مضبوط آوازیں ہیں بلکہ وہاں تو کرپشن کرنے والے کو موت کی وادی میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ عمران خان نے ایرینا جلسے میں چین کی مثال بھی دی تھی کہ کس طرح چین نے اپنے سینکڑوں کرپٹ وزیروں کو سزائے موت دی۔ امریکی قیادت بھی کرپشن کے خلاف ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت دنیا میں کرپشن کے خلاف ہر جگہ سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، لوگ کرپشن کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

کچھ روز پہلے تک میں چین میں تھا، جہاں گرم قہوہ ملتا تھا، جہاں نارمل پانی بھی قریباً گرم ہی ہوتا تھا، چین کے ہوٹلوں اور ہالوں میں درجہ حرارت زیادہ ٹھنڈا نہیں ہونے دیا جاتا مگر یہاں امریکہ میں ٹھنڈے یخ مشروبات میسر ہیں، نارمل پانی بھی غالباً برف سے برآمد ہوتا ہے، ہوٹلوں اور ہالوں کو یخ رکھا جاتا ہے۔ درجہ حرارت کو مناسب رکھنے کے اعتبار سے چین کہیں اچھا ہے۔ اکتیس جولائی کو ڈیلس سے نیویارک چلا جائوں گا، ڈیلس نے صرف ایک احسان بڑا شاندار کیا ہے، اس نے وصی شاہ سے خوب ملاپ کروایا ہے، وصی شاہ جتنا اچھا شاعر ہے، اس سے کہیں اچھا انسان ہے، اس کے طور طریقوں میں اعلیٰ تہذیب بولتی ہے، اس کی روز مرہ کیفیات میں تربیت کا فقدان نظر نہیں آتا۔ سفر کا ثمر تو ہوتا ہے، ڈیلس کے سفر کا شاندار ثمر وصی شاہ ہے، چلو آج اسی کے شعر پر اختتام کرتے ہیں کہ؎

خوب رکھا ہے رفاقت کا بھرم اس نے وصیؔ

کٹ چکے ہاتھ تو پھر ہاتھ ملانے آئے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین