• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار  … سیمسن جاوید
گذشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اور ایم این اے عامر نوید جیوا لندن تشریف لائے تونجی مصروفیت کی وجہ سے میری ان سے ملاقات نہ ہوسکی ۔ میں نے فون کے ذریعے ان سے رابطہ کیا توانہوں نے اپنا لندن اور لندن کے قریبی شہروں کے وزٹ کاشیڈول مجھے بتایا۔ لہٰذا فون پر ہی ان سے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان سے جب بھی کوئی اقلیتی ایم این اے یا ایم پی اے بیرون ملک آتا ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ اقلیتوں سے کوئی امتیاز ی سلوک روا نہیں رکھا جاتا ۔ہمارا پاکستانی میڈیا بھی ان الفاظ کو ہائی لائٹ کرتا ہے جبکہ پاکستان میں رہنے والی اقلیت سے منسلک ہندو یا مسیحیوں کی سوشل میڈیا پر پوسٹوں کو پڑھتے ہیں تو ان پوسٹوں سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں اقلیت ہوناایک جرم بن کر رہ گیا ہے۔ اس سلسلے میںآپ کی کیا رائے ہے۔چندلمحوں کے توقف سے انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت میں مصروف ہوںاور میںآپ کو دس منٹ کے بعد فون کرتا ہوں۔مگر میں ان کے فون کا انتظار ہی کرتا رہ گیااور وہ پاکستان بھی چلے گئے۔جانے سے پہلے جناب عامر نوید جیوا جون باسکوکے پروگرام میں مدعو تھے ۔ مجھے اْس پروگر م کو سننے کا موقع مل گیا۔میرے لئے دلچسپ بات یہ تھی کہ جب باسکو صاحب نے ان سے اقلیتوں کے لئے مختص ملازمتوں کے 5 فیصد کوٹہ کے بارے میں پوچھا کہ 5 فیصد کوٹہ کہاں تک مسیحیوں میں بیروزگاری کے خاتمے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔خصوصاً گریڈ 14 اور اس سے اوپر والے گریڈ کے لئے ۔پہلے تو انہوں نے 5 فیصد کوٹہ کے اجراء کے لئے اپنے سیاسی قائد وفاقی وزیر شہباز بھٹی شہید کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے ساتھ ا نہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ ہر سال 5 فیصد کوٹہ خالی رہ جاتا ہے اس لئے کہ ہمارے نوجوان میرٹ پر پورا نہیں اترتے جس کے لئے ہم حکومت کو موردِالزام نہیں ٹھہرا سکتے۔قارئین ! اس سے پہلے کہ اس پر کوئی تبصرہ کیا جائے ۔ پانچ فیصد کوٹہ کے اجرا ء کی کوششوں میں اگر ہم سابق ایم این اے آسیہ ناصر کا ذکر نہ کریں تو بڑی زیادتی ہوگی۔ جنہوں نے 2003 میں اس کام کیلئے لابنگ کی اور باقاعدہ مہم کا آغازبھی کیا۔2018 میںآسیہ ناصر نے میڈیکل اور ا نجیئرنگ کالجز میں پانچ فیصد کوٹہ کے اجراء کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو بل پیش کیا کہ چونکہ مسیحی کمیونٹی معاشی مسائل کی وجہ سے میرٹ پر پورا نہیں اترتی توجس طرح صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں رورل ائر یا اور مختلف پست کمیونٹیز کے لئے کوٹہ مختص ہے۔اسی طرح مسیحی کمیونٹی کے لئے کوٹہ مخصوص کیا جائے تاکہ اقلتیں کوٹہ سے استفادہ کرسکیں۔مگر یہ بل مارچ 2018 میں قومی اسمبلی کی سٹیڈنگ کمیٹی برائے وفاقی ایجوکیشن نے یہ کہہ کر ریجیکٹ کر دیا کہ داخلہ میرٹ کی بنیادوں پرہی ہونا چاہئے۔محترمہ آسیہ ناصر نے اسمبلی کے فلور پر جوش سے کہا تھا کہ اگر حکومت مسیحیوں کے بچوں کے لئے کچھ نہیں کر سکتی تو وہ تو اس حق سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔اور آج وہ دیس بدیس جاتی ہیں تاکہ سٹوڈنٹس کی ہائر ایجوکیشن کے لئے سکالر شپ فراہم کئے جائیں۔ شہباز بھٹی شہید 2008 میں حکومت میں آئے۔ چونکہ اقلیتوں کے پانچ فیصدملازمتوں کا کوٹہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے ایگزیکٹیو آرڈرزاور کابینہ کی منظور ی کے بعد اقلیتوں کے لئے الاٹ کردیا جس کا براہ راست کریڈٹ شہباز بھٹی شہید کو چلا گیا حالانکہ انہوں نے ہمیشہ بلاسفمی لاء 295Cہی کی بات کی۔جب اقلیتوں کے لئے پانچ فیصدکوٹہ منظور ہوا توبہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی تھی کہ کوٹہ کی وجہ سے نوجوان میرٹ کو چھوڑ کر اقلیتی کوٹے پر اکتفا کرنا شروع کردیں گے اور مقابلے کا رحجان ختم ہو جائے گا۔ ان کی سوچ اپنی جگہ درست صحیح مگرمیرٹ کا فائدہ صرف ایک ہی طبقہ حاصل کر سکتا ہے جو معاشی طور پرمستحکم ہے او ر اپنے بچوں کو اچھے سکولوں میں پڑھا رہا ہے۔ اس بات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ مشنری سکول قومی تحویل میں لینے سے مسیحیوں کو تعلیمی میدان میں نا قابل تلافی نقصان ہوا اور اسی وجہ سے ملازمتیں حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔چونکہ مسیحیوں کی تقریباً 90 فیصد آبادی غریب ہونے کی وجہ سے مشنری سکولوں میں زیر تعلیم تھی ۔ان بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بالکل رک گیا۔ 10 فیصد جو انگلش میڈیا یا کسی دوسرے اعلیٰ سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔یہ قلیل تعداد ہی میدان میں رہ گئی۔ اور 5 فیصد ملازمتوں کاکوٹہ ہمارے اقلیتی نمائندوں کے اپنے لالچ کی خاطر مستحق نوجوانوں کو جانے کی بجائے فروخت ہوتارہا۔جسے بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے کیونکہ کرتا اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوگا۔نیز ہائر ایجوکیشن،ہائرایجوکیشن سکالر شپ اور ملازمتوں میں کوئی کوٹہ نہیں۔صوبہ بلوچستان کے میڈیکل کالج اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک اقلیتی نشست ہے ۔ جس کی وجہ سے بھی میڈیکل اور انجیئرنگ اور ہائی پوسٹوں پر مسیحیوں کی تعداد بہت ہی قلیل ہے ۔اس کے علاوہ اقلیتی ایم این اے یا ایم پی اپنے زور پر صوبہ پنجاب میں اقلیتی میڈیکل سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ مڈل کلاس مسیحی طبقہ نے اپنی مدد آ پ کے تحت ذریعہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور آج مسیحیوں کی تعلیمی صورت حال کافی حوصلہ افزاہے ۔ اس بڑے حساس ایشو پر راولپنڈی ڈایوسیس نے پری ڈیبیٹ کا سلسلہ شروع کیاجس میں ہائر پوسٹوں پر فائزماہرین کو خصوصی طور پرمدعو کیا گیا تھا۔جس کی مکمل رپورٹ ابھی آنے والی تھی۔ 5 فیصد کوٹہ پْر نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟یہ جاننے کے لئے میں نے بہت سے دوست صحافی اور انٹکچول سے رائے لی۔ لاہور سے زاہدنذیر بھٹی ،آصف عقیل جو ہائر ایجوکیشن کے سکالرشپ ،میڈیکل کالجز اور انجیئرنگ یونیورسٹیز میں اقلیتوں کے لئے کوٹہ سسٹم کے اجراء کے لئے کوشاں ہیں۔اس کے علاوہ اکثریت کا یہ جواب تھا کہ ہمارے 90 فیصد نوجوان میرٹ پرپورا نہیں اترتےجس کی بڑی وجہ کمیونٹی کی معاشی حالت بہتر نہ ہونا بھی ہے۔انگلینڈ نے پاکستان کے پروموشن کے لئے 30 فیصد اور دوسرے تیرقی یافتہ ممالک کے لئے 60% مقر ر کیا ہوا۔ 5 فیصد ایسے ہیں جن کو معلومات حاصل نہیں ہوتی۔5 فیصد جو بالکل دلچسپی نہیں لیتے۔ اس کے علاوہ مسیحیوں کا کوئی ادارہ نہیں جو اس سلسلے میں مسیحی بچوں کوباہم معلومات اور گائیڈ لائن دینے کااہتمام کرے۔ لاہور ہی سے ایک صحافی اور بہت سے دوسرے مدیر اور ماہر ین تعلیم کا خیال ہے کہ ملازمتوں میں اقلیتی کوٹہ پْرنہ ہونے کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔1- ادارے مینارٹی کوٹہ کو اپنے اشتہارات میں مناسب طریقے سے واضح نہیں کرتے جس کی وجہ سے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان ملازمتوں کی صحیح طرح آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔2- اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے آگاہی مہم چلانے کی اشد ضرورت ہے کہ انہیں کس طرح ملازمت کا علم ہو سکے کہ کس محکمے میں کتنی ملازمتیں موجود ہیں یا کوئی اسامی خالی ہوئی ہے۔(اس کے علاوہ جب ملازمت کا اشتہار شائع ہو تو انہیں یہ بھی پتا ہونا چاہئیے کہ وہ ایک درخواست اوپن میرٹ پر جبکہ دوسری اقلیتی کوٹے پر جمع کروائیں)3-اقلیتوں خصوصا مسیحی افراد تعلیمی ادارے قومیائے(نیشنلائزڈ) ہونے کی وجہ سے ایک بڑی تعداد میں تعلیمی معیار سے بھی پیچھے رہ گئے ۔(اس کے لئے ضروری ہے کہ ہائیر ایجوکیشن میں اقلیتی بچوں کے لئے دس فیصد کوٹہ مختص کیا جائے)۔مسلم افراد یا بچوں کے لئے حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر 20. نمبر اضافی بھی مہیا کئے جاتے ہیں اس کی بنیاد پر بھی اقلیتی بچوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ 4-اس سارے معاملے میں آگاہی مہم چلانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ بہت سے لوگ بر وقت خالی اسامی کی اطلاع نہ ملنے کے باعث لاعلمی میں اس موقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔5-اقلیتی بچے والدین کی غربت کے باعث اس طرح سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے جس طرح معاشرے کے دوسرے طبقات یا افراد حاصل کرتے ہیں۔ ایک قابل ذکر اور اچھی خبر یہ ہے کہ راولپنڈی کاتھولک ڈایوسیس کے آرچ بشپ جوزف ارشد نے مسیحی نوجوانوں کو سول سروس کی تیاری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلہ میں ماہرین کی مدد سے خصوصی پروگرام کا انعقاد جلد کیا جائے گا۔ نوجوانوں کو سول سروس کے امتحانات میں شرکت کی ترغیب دینے اورمقابلے کے امتحانات کی تیاری کیلئے مشاورتی اجلاس میں نوجوانوں کو مدعو کیا جائے گا۔اس بات کا بندوبست کیا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ مسیحی نوجوانوں کو ماہراورمعروف پروفیسرز اور حاضر سروس اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس مقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کروائیں گے۔یقیناً اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے اور اس کی مدد سے مسیحی نوجوان مقابلہ کا امتحان پاس کرکے اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہوسکیں گے۔یہ مسیحی نوجوانوں کے روشن مستقبل کی جانب ایک عمدہ کوشش ہوگی جس کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔ اس کے ساتھ اس کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے دوسرے چرچز اورفلاحی اداروں کو بھی سامنے آنا ہوگا اور پھر وہ دن دور نہیں جب مسیحی مختص کوٹہ کے علاوہ میرٹ پر بھی ہونگے ۔یوں کمیونٹی ترقی کرے گی اور اسکی بہت سی مشکلات اور مسائل بھی ختم ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مسیحی اداروں سے بھی پر زور درخواست ہے ۔کہ ان مسیحی بچوں کو سکول فیس ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے سکولوں سے نکال دینے کی بجائے انہیں خصوصی رعایت دی جائے تاکہ وہ بھی تعلیم حاصل کرکے قوم اور اپنے خاندان کی ترقی کا باعث بنیں اور تعلیمی میدان میں کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں۔
تازہ ترین