• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمراں جماعت کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کے حوالے سے واویلا مچایا جا رہا ہے اور ایک کے بعد حکمراں جماعت کا دوسرا لیڈر بغیر کسی ثبوت کے یہ الزام عائد کر رہا ہے ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پی پی کی پارٹی پالیسی کا حصہ ہے۔ حکومت اپنی مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن میں تاخیر کے شوشے کو حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ دوران حکومت اپنی خراب کارکردگی پر پردہ ڈال سکے۔
گزشتہ ہفتے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عام انتخابات کو دو سال تک کے لئے ملتوی کرنے کے لئے سازش کی جارہی ہے تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس سازش کے پیچھے کون ہے ۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کی حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر کے ایک ہی جھٹکے میں الیکشن کے التوا کی نام نہاد سازش کی ایسی تمام افواہوں کا خاتمہ کر سکتی ہے لیکن دوسری جانب یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ حکمراں جماعت الیکشن کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر کر کے عام انتخابات کے التوا کے حوالے سے سازش کو مزید بھڑکائے گی ۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی انتخابات کے ملتوی کرائے جانے کے حوالے سے اسی طرح کا بیان دیا جو کہ ان کے چند دنوں قبل دیئے گئے بیان کی نفی کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عدلیہ، فوج اور سیاسی جماعتیں جمہوریت کی حامی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا ہے کہ کچھ نامعلوم ”جمہوریت دشمن طاقتیں“ جمہوریت کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔حکمراں جماعت کے لیڈرز کیوں مسلسل سازشوں کا تذکرہ کررہے ہیں؟ کیا یہ ان کی عادت بن چکی ہے؟ انہیں کسی قسم کا خوف لاحق ہے ؟ خود ساختہ بنائے گئے دشمنوں پر حملہ آور ہونے کے لئے یاپھر ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس طرح کی بیانات دیتے ہیں؟ کیا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے یا یہ ان تمام خدشات کا مجموعہ ہے؟
ان سوالوں کے جواب میں حکومت کے حامی یہ جواز پیش کریں گے کہ ان کی پارٹی کا موقف تاریخی تجربے کی بنا پر درست ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ تاریخ میں دوسری مرتبہ پی پی پی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ۔ پہلی جمہوری حکومت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی تھی جس کے بعد انہوں نے 1977ء میں پارلیمانی انتخابات کرائے تھے۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں پی پی پی کے لیڈر عوام میں الیکشن کے التوا کے حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ اس سے یہ تاثر مزید واضح ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ خوف سے نہیں بلکہ نہایت ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے میڈیا میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت کی ناکامیوں پر سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ٹی وی پر آنے والے ٹاک شوز ہیں، جس میں بحث و مباحثے کے ذریعے اپوزیشن کو الجھانے کی کوشش کی جائے اور روزانہ ایک نئی سازش کی ہیڈ لائن سامنے آئے۔ اس تمام تر کھیل کی وجہ حکومت پر عوام کی جانب سے بڑھتا ہوا پریشر ہے کہ حکومت نے اپنے دور اقتدار کے دوران عوام کو کیا دیا۔
الیکشن کے قریب آتے ہی موجودہ حکومت نے اپنے خلاف ہونے والے مارچ کو کیش کرانے کی کوشش کی اور ووٹروں کو اپنے دور حکومت کی کامیابیاں گنوانا شروع کردیں تاکہ کسی طرح سے انہیں مجبور کیا جا سکے کہ ان کی حکومت کو دوبارہ اقتدار میں آنے کے لئے ووٹ دیا جائے۔ تاہم حکومت کے پاس اپنے دور اقتدار کی کامیابیاں گنوانے کے لئے بہت کچھ نہیں ہے اس لئے ایسا لگتا ہے کہ پی پی عہدیداروں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ”سازشوں“ کے خلاف اپنی پوری توانائی کو خرچ کیا جائے۔ اسی طرح مختلف محاذوں پر حکومت نے یہی رویہ اختیار کیا ہوا ہے کہ کس طرح عوامی ایجنڈے، کمزور طرز حکمرانی، بڑھتی ہوئی کرپشن، بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ، امن و امان کی خراب صورتحال ، فرقہ وارانہ تشدد کی لہر اور بجلی کے سنگین بحران جیسے عوامی مسائل سے ان کی توجہ ہٹائی جاسکے۔
عوامی توجہ کو اصل بحرانوں سے ہٹانے کی حالیہ ایک مثال حکومت کی جانب سے پنجاب میں نیا”بہاولپور جنوبی صوبہ“ بنانے کے حوالے سے تشکیل دیا جانے والا پارلیمانی کمیشن ہے جسے اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور اس کمیشن میں پنجاب کی نمائندگی موجود نہیں ہے اور اس کا مقصد الیکشن سے کچھ بڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔
یہ کمیشن پنجاب اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کی بھی نفی کرتا ہے جس میں نئے صوبے کے قیام کی حمایت کی گئی تھی تاہم یہ صوبہ نسلی بنیاد پر نہ ہو تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے کمیشن کے قیام سے سیاسی طور پر اس قرارداد کا جواب دیا گیا ہے جس نے جنوبی پنجاب میں احتجاج کو بھڑکا دیا ہے جہاں پیپلزپارٹی انتخابی عمل میں اپنے جیتنے کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ نے پارلیمانی کمیشن کی قانونی حیثیت پر اعتراض کرتے ہوئے اس تنازع کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے مطابق موجودہ اسمبلیوں کے پاس نئے صوبے بنانے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کے مطابق الیکشن کے قریب آتے ہی اس طرح کی تجویز کے ذریعے سے آئندہ الیکشن میں اپنے مقاصد حاصل کرنا ہے۔ اس تنازع کے سامنے آنے کے بعد ملک کو درپیش مسائل پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں جبکہ پارلیمینٹ اور میڈیا میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے بحث ومباحثے ہو رہے ہیں اور اس کی وجہ سے اہم سیاستدانوں کی عوامی مسائل کی طرف توجہ کم ہوئی ہے۔
اسی طرح الیکشن میں جانے سے قبل دو بڑی سیاسی جماعتیں سیاسی غلبہ حاصل کرنے کے لئے کیا ایک دوسرے کے منتخب نمائندوں کو توڑ رہی ہیں اور اس طرح کی ڈیلنگ کرتے ہوئے عوامی پالیسی کے ایشوز پر پارٹی کی پوزیشن برقرار رکھنا لازم نہیں۔ ایک دوسرے کے افراد کو توڑنے کی سیاست اور خفیہ مذاکرات کو عوامی مسائل پر فوقیت حاصل ہے ۔ پنجاب میں حال ہی میں کھوسہ خاندان نے ذاتیات کی سیاست کی ایک بدترین مثال قائم کی، جو کہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔کھوسہ اور ان کے بیٹے نے آئندہ انتخابات میں بالترتیب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن ) کے ٹکٹوں سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی توڑ جوڑ کے عمل سے بااثر مقامی افراد کو الیکشن سے قبل ان کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے بھرپور توجہ دی جارہی ہے اور اسے الیکشن سے قبل اشرافیہ کے درمیان سخت مقابلہ قرار دیا جارہا ہے جس کا کچھ نہ کچھ اثر لوگوں کے مسائل اور ان کے تحفظات پر بھی ہو گا۔
یہ عمل اس وقت بھی شروع ہوسکتا ہے جب سیاسی جماعتوں پر اپنا اپنا مینو فیسٹو اور پروگرام پیش کرنا واجب ہو جائے لیکن ایک ایسے وقت میں جب بڑھتے ہوئے مسائل کے حل کے لئے آوازیں بلند کی جارہی ہیں موجودہ ملکی سیاست میں اب تک پالیسی ایشوز کے حوالے سے غفلت دیکھنے میں آرہی ہے۔
مزید براں یہ کہ بڑی جماعتوں میں اثرو رسوخ رکھنے والے امیدواروں کو عام انتخابات میں جیتنے کے لئے انٹرنیشنل پبلک انسٹی ٹیوٹ میں ایک پول میں کئے گئے سوالوں کے جوابات دینا ہوں گے۔ انٹرنیشنل پبلک انسٹی ٹیوٹ کے سروے میں پنجاب کے لوگوں سے سوال کیا گیا کہ وہ کسی امیدوار کو ووٹ دینے سے قبل کس چیز کو مدنظر رکھیں گے تو 40فیصد لوگوں نے جواب دیا کہ اس امیدوارکو ووٹ دیں گے جس کی پارٹی ایشوز پر سیاست کرے گی۔ 20فیصد لوگوں نے اپنی سیاسی جماعت کو و وٹ دینے کے حق میں ووٹ دیا، 11فیصد لوگوں نے برادری سسٹم کے تحت ووٹ دینے کی حمایت کی جبکہ 20فیصد لوگوں نے کسی کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی تاہم ان کا خیال تھا کہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں ووٹر کی چوائس سے زیادہ ایشوز اہم ہیں۔ سیاسی قائدین اپنی مہم کے حوالے سے حکمت عملی بناتے اور محتاط رہتے ہوئے اس سروے سے اخذ کئے جانے والے نتیجے سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی طرح سروے کے مطابق 87فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے ۔ 70فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ سال ان کی ذاتی معاشی حالت بدتر ہوگئی ہے۔ جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو65فیصد لوگوں کا جواب تھا کہ اقتصادیات ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بجلی کی بندش سب سے بڑے مسائل ہیں ۔ امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور کرپشن کو پاکستان کے معاشی مسئلے کی جڑ قرار دیا گیا جبکہ 65فیصد لوگوں نے نئے صوبوں کی مخالف کی۔ سروے میں سیاسی جماعتوں سے لوگوں کی توقعات کے بارے میں بھی پوچھا گیا،74فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندرونی الیکشن منعقد کرانا چاہئیں،88فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ الیکشن ٹکٹ نوجوان امیدواروں کو دیا جائے۔ سروے میں صحت کے ناقص انتظام اور تعلیم کو عوام کی سب سے بڑی پریشانی قرار دیا گیا ۔سروے میں صرف ان باتوں کی تصدیق کی گئی ہے جو عوام اپنے حکمرانوں سے چاہتے ہیں جن میں بہتر طرز حکومت اور ملک کی معاشی ترقی ، توانائی کے بحران کا خاتمہ اور سیکورٹی کے معاملات میں بہتری شامل ہیں جو کہ شہریوں پر ایک بوجھ بنا ہوا ہے۔ یہ تمام مسائل لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک عام آدمی پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جمہوریت کے خلاف سازشوں سے کس طرح نمٹنے کیلئے کیا تدابیر اختیار کی جائیں اور نہ ہی ایسے لوگوں کی جانب سے نئے صوبوں کے وعدوں سے جن سے پہلے سے موجود صوبے ہی نہیں چل پا رہے ہیں ۔مزید یہ کہ مگرمچھ کی طرح روزانہ آنسو بہانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور حکومت کی ساکھ کا اندازہ الیکشن والے دن ہوگا نہ کہ ان کے خیالی پلاؤ سے۔
تازہ ترین