• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی ایک لوک کہانی اور اس پر لکھا گیا لوک گیت

عبدالغفور کھتری

کسی علاقے میں مقیم آبادی کی ایک بڑی تعداد کے ذہنوں کو متاثر کرنے والا کوئی انوکھا واقع یا کوئی دلدوز سانحہ ان کے ذہنوں سے بآسانی محو نہیں ہوتا۔ وہ واقعہ باعث افتخار ہو تو فخریہ انداز میں اور قابل افسوس ہو تو غمناک انداز میں وہ اسے بیان کرتے رہتے ہیں۔ پھر وقت کی لے پر چلتے چلتے وہ لوک کہانی یا لوک گیت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

بارہویں صدی عیسوی میں کراچی کی حدود گلبائی کے قریب وقوع پذیر ہونے والا ’مورڑو‘ کا واقعہ آج بھی لوک ادب کی زینت ہے۔

اسی طرح آج سے ایک سو سال قبل کراچی ہی میں رونما ہونے والا ایک واقعہ کراچی کے لوک ورثے کا ایک حصہ ہے۔ چونکہ اس واقعے کو گزرے صرف سو سال ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کے تما م کردار، مقام اور وقوع پذیر ہونے کی تاریخیں اپنی صحیح حالت میں کراچی کی تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

واقعات کے مطابق 1886ء میں انگلینڈ میں تیار کردہ ’’واٹرنا‘‘ نامی بحری جہاز، نہر سوئز کی بندش کی بناء پر افریقہ کا طویل چکر کاٹ کر کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پہنچ کر یہاں لنگر انداز ہوا۔ یہاں سے اس کے پہلے تجارتی سفر پر روانگی کےلئے تیاریاں مکمل تھیں۔

سمندر میں چلنے والے دیگر جہازوں کی بہ نسبت ٹیکنالوجی کی بناء پر یہ انیسویں صدی کا ایک عجوبہ تھا۔25000ہارس پاور کے انجن اور آٹھ پنکھوں کی مدد سے چلنے والا یہ جہاز 600میٹر طویل اور 150فٹ چوڑا تھا۔

مائیکل فیڈ نامی ایک انگریز انجینئر نے اس وقت مقناطیس کے ذریعے بجلی بنانے کا تجربہ اس جہاز کو روشن کرنےکےلئے کیا تو سیکڑوں بلبوں کی بدولت بقعہ ٔ نور بنے اس جہاز کو الیکٹرک سے ناواقف مقامی لوگوں نے ’واٹرنا‘ کی بجائے ’بجلی‘ کا نام دیا اور جہازراں کمپنی کے بمبئی اور کراچی کےلئے مقررہ ایجنٹ ’حاجی قاسم آگبوٹ والے‘ کو لاعلمی کی بنا پر مذکورہ جہاز کی ملکیت کی ’سند‘ بھی عطا کر دی۔ یوں یہ جہاز ’حاجی قاسم کی بجلی‘ سے معروف ہو گیا۔

کراچی سے مانڈوی کچھ، دوارکا، پور بندر، مانگرول اور بھائونگر تک کے روٹ پر اپنے پہلے سفر کےلئے روانہ ہونے پر 1400مسافروں کی گنجائش رکھنے والا ’واٹرنا‘ تقریباً ہائوس فل ہی تھا۔ دراصل ان دنو ں بمبئی، سندھ، کچھ اور کاٹھیاواڑ میں ہیضہ، طاعون اور قحط کی وجہ سے تین سال بہت المناک گزرے اور اب آسودگی ملنے پر ملتوی شدہ شادیاں اور دیگر کاموں کے حوالے سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کراچی سے بمبئی، کچھ اور کاٹھیاواڑ جانا چاہ رہی تھی۔

جہاز میں سوار ہونے والوں میں 18راجکمار (مہاراجوں کے بیٹے) تھے، جو بغرض ِ شادی کچھ، کاٹھیاواڑ اور بمبئی جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک ہزار کے قریب باراتی تھے اور کراچی کے بمبئی سے ملحق ہونے کی وجہ سے400 طالب علم میٹرک کے امتحان دینے بمبئی جا رہے تھے۔

جمعرات 5نومبر 1886ء کو تقریباً 1400ہنستے مسکراتے لوگوں کو لے کر ’واٹرنا‘ اپنے پہلے یا شاید آخری سفر کیلئے کراچی کی بندرگاہ سے روانہ ہو گیا۔

آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جہاز کے گجرات کی بندرگاہ، بندر، پہنچتے پہنچتے سمندر نے طوفانی کیفیت اختیار کر لی۔ پور بندر میں جہازراں کمپنی کے مقرر کردہ ایجنٹ نے جہاز کے کپتان کو طوفان تھمنے تک مزید آگے جانے کے بجائے بمبئی جانے کی ہدایت کی، مگر ضدی کپتان نے ایجنٹ کی ہدایت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھا اور پور بندر سے مانگرول کی طرف روانہ ہو گیا۔ سمندری کی تیز و تند لہروں میں یہ جہاز کھلونے کی طرح ہچکولے کھانے لگا۔ پوربندر سے نکلنے کے بعد یہ جہاز نہ مانگرول پہنچا اور نہ ا س کی کوئی خبر ملی۔

طوفانی سمندر کی بے رحم لہروں نے ’واٹرنا‘ کو نگل لیا۔ میٹرک کا امتحان دے کر کامیابی کی صورت میں اگلی کلاسوں کی درجہ بہ درجہ منزلیں سر کرتے ایک کامیاب زندگی کا خواب دیکھنے والے طالب علم اور سر پر سہرا سجنے کی خواہش رکھنے والے راجکمار اور ان کی خوشیوں میں ساتھ دینے والے باراتی۔ سب کے سب نہ جانے کہاں گم ہو گئے۔ یہ معمہ آج تک حل نہ ہو سکا۔

اس اندوہناک حادثے سے سندھ، کچھ، کاٹھیاواڑ اور بمبئی کے ہزاروں لواحقین سکتے میں آگئے، وہ آج تک اس سانحے کو نہیں بھولے۔ اپنے لوک گیتوں میں آج بھی وہ اس سانحے کو اس طرح یاد کرتے ہیں۔‘‘

گجراتی سے ترجمہ:

حاجی قاسم تیری بجلی بیری ہوئی

بیچ سمندر میں بیری ہوئی

ناخدا تو نے بات نہ مانی ’پنل کی

نہ رکھا پاس تو نے اندیشہ ٔ مہارائو

تو ہوا فقط اپنی انا کا اسیر

تیرا سفینہ ہوا بیری بیچ منجھدار

کتنی حسیں صورتیں تہہ آب ہو گئیں

کتنی مسرتیں غم میں پنہاں ہو گئیں

کتنی آشائوں کے دیپ بھج گئے

حاجی قاسم تیری بجلی بیری ہوئی

بیچ سمندر میں بیری ہوئی

’’کراچی کی کہانی تاریخ کی زبانی‘‘ سے ماخوذ

مصنف ،عبدالغفور کھتری

تازہ ترین