• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاں! لگتا ہے اس بار خزاں قدرے طویل ہو گئی ہے۔ اداسی کا موسم قدرے لمبا اور کٹھن ہو گیا ہے۔ ہر سال پت جھڑ آتی ہے اور ایک ماہ میں گزر جاتی ہے۔ پھر جھڑے ہوئے پتوں کی جگہ خوبصورت، سرسبز اور معصوم سے شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شگوفے رنگ برنگ پھول، سرسبز پتے اور لہراتی ٹہنیاں بن جاتے ہیں۔ شگوفے پھوٹتے ہیں تو اپنے ساتھ خوشبو لاتے ہیں۔ دو تین ہفتوں کی مہمان یہ خوشبو ہر جگہ ہمارا استقبال کرتی ہے۔ جس صحن میں درخت کھڑا ہو، اس صحن میں ہلکی ہلکی سی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ یہ ایک طرح سے اللہ پاک کا انعام ہوتا ہے اپنی افضل ترین مخلوق انسان کے لئے کہ چند ہفتوں کے لئے اُسے مفت خوشبو مہیا کر دی جاتی ہے جسے غریب امیر سبھی سونگھتے اور شکر ادا کئے بغیر گزر جاتے ہیں۔

 صدیوں سے یہی طریق اور یہی چلن رہا ہے لیکن اس بار اداس موسم قدرے طویل ہو گیا ہے اور فضا کی خوشبو پر خدشات اور بے یقینی کے سائے پھیل گئے ہیں۔میں سیاسی محاذ آرائی، تنائو، دھڑے بندی اور نفرت کی لکیر سے اندیشوں میں مبتلا ہوتا ہوں نہ خوفزدہ کیونکہ میں ذوالفقار علی بھٹو کا تقریباً پانچ سالہ دور حکومت بھگت چکا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں اس قدر خوفناک تقسیم اور انتقامی جذبہ نہیں دیکھا جتنا اُس دور میں دیکھنا نصیب ہوا۔ اپنے جیالے کارکنوں کو بھٹو صاحب نے جوش و خروش، جذبے اور نفرت کے اس قدر طاقتور ٹیکے لگا دیئے تھے کہ وہ اپنے نظریاتی مخالفین اور دائیں بازو کی پہچان والوں کی زبانیں کھینچ لینا چاہتے تھے اور انگلیاں کاٹ دینا چاہتے تھے۔ گلیوں، بازاروں، مجلسوں اور مذاکروں میں بائیں بازو کے علمبردار جیالے دانشور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو یوں نفرت سے دیکھتے جیسے کچا ہی کھا جائیں گے۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کے لئے آج کی مانند جیلوں کے دروازے اس وقت بھی کھلے تھے اور جعلی مقدمات بھی گھڑے گئے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عدلیہ آزاد نہیں تھی اور جج بھی جیالا پن سے خوفزدہ اور سہمے رہتے تھے۔ بھٹو صاحب کی تمام تر ذہانت، فطانت، غریبوں اور محروم طبقوں میں آزادی اور برابری کا احساس اجاگر کرنے کے کارناموں کے باوجود ان کے دور کی پہچان اختلاف رائے کو دبانا اور پارٹی کے اندر اختلاف کرنے والوں کو جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر، خورشید حسن میر، حنیف رامے وغیرہ وغیرہ بنانا تھا۔ بیچارے ایم این اے سلیمان کو ہتھکڑیاں پہنا کر بمعہ بیگم صاحبہ برہنہ پائوں گلیوں میں کھینچا گیا اور جب ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اعتزاز احسن پنجاب کی وزارت سے استعفیٰ دے کر گھر پہنچے تو پولیس یا کسی اور سرکاری ادارے نہیں بلکہ جیالے کارکن پتھروں کنکروں سے ٹرک بھر کر نعرے لگاتے ان کے گھر پر حملہ آور ہو گئے۔ مرحوم چوہدری محمد احسن علیگ ریٹائرڈ پی سی ایس اور عاشقِ اقبال و جناح کے گھر پر پتھروں کی بارش کر دی گئی۔ شنید ہے کہ چند ایک گمراہ پتھر اُن کے پڑوسیوں کی کھڑکیوں پر بھی لگے جو جیالوں سے خوفزدہ ہو کر کمروں میں بند ہو گئے۔ ایک ایسا پڑوسی بھی تھا جس کے گھر پر چند پتھر گرے تو وہ چھت پر پہنچ کر اس منظر سے محظوظ ہونے لگا۔ پتھروں کو بھول کر وہ جیالوں کے جوش و خروش اور جذبے سے اس قدر متاثر ہوا کہ ہوا میں بازو لہرانے لگا۔ پھر اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھا ایاک نعبد و ایاک نستعین پڑھا اور دعا کی کہ اے کاش مجھے بھی ایسے شعلہ جوالا کارکن مل جائیں تو میں سب کو سیدھا کر دوں۔ شاید وہ لمحہ قبولیت دعا کا تھا۔ قبولیت کے لمحے دعا تو قبول ہو جاتی ہے لیکن اسے تکمیل کے لئے کئی برسوں کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ دعا اپنے وقت پر رنگ لاتی اور حقیقت بن کر چھا جاتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر علم نہیں نہ ہی میں اس کا عینی شاہد ہوں لیکن لاہوری حلقوں سے کشید ہوتے ہوئے یہ خبر مجھ تک بھی پہنچی کہ جیالوں کے جوش اور جذبے سے متاثر ہو کر ہوا میں بازو لہرانے والا بانکا نوجوان عمران خان تھا جس کے مقدر میں پاکستان کے لئے کرکٹ کا عالمی کپ جیت کر قومی ہیرو بننا لکھا تھا۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس کی مثال کبھی دہائیوں اور کبھی صدیوں میں ملتی ہے۔ قومی ہیرو کو جب قوم کندھوں پر اٹھا لیتی، دل میں بٹھا لیتی اور آنکھوں میں سجا لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو دنیا کا نہ سہی لیکن اس قوم کا عقل مند ترین انسان سمجھنے لگتا ہے۔ ہیرو یکسو اور نشانے باز ہوتا ہے۔ اسے جو بھی ٹارگٹ دیا جائے وہ پورے خلوص اور یکسوئی سے اس پر عمل کرتا اور ہر قیمت پر اپنے عمل کو نتیجہ خیز بناتا ہے۔ ہیرو کی آن، بان، شان، ہر مخالفت اور ہر ایسے لائحہ عمل کو بلڈوز کرتی چلی جاتی ہے جو اس کی یکسوئی، عقل کل اور مشن کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب نہایت ذہین سیاستدان اور اعلیٰ درجے کی بصیرت کے مالک تھے لیکن وہ ہرگز نہ سمجھ سکے کہ اختلاف رائے، اپوزیشن، تنقید، آزادیٔ اظہار اور شہری آزادیوں کو کچل کر یا دبا کر وہ خود اپنے ہاتھوں سے اُس جمہوریت کو دفن کر رہے تھے جس کی لہر پر سوار ہو کر وہ اقتدار میں آئے تھے۔ اقتدار اور طاقت کے نشے میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ سیاستدانوں کی اصل طاقت ووٹ ہوتی ہے اور اسی طاقت کے سامنے بے بس ہو کر یحییٰ خان نے انہیں اقتدار منتقل کیا تھا ورنہ یحییٰ خان اقتدار سے الگ ہونے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتا تھا اور اس نے نیا آئین بھی جاری کر دیا تھا۔ ووٹ کی طاقت، برداشت، ہم آہنگی، حزب مخالف کو احساس شرکت دینے، آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت اور پارلیمان کو طاقتور بنانے سے پھوٹتی ہے۔ حسن کارکردگی اور ووٹروں کا اطمینان ووٹ کی روح ہوتے ہیں۔ اگر عوام زندگی کے مسائل کی چکی میں پس رہے ہوں تو ووٹ کی طاقت یرقان زدہ ہو جاتی ہے۔ بھٹو صاحب کا مائنڈ سیٹ بھی ہیرو کا مائنڈ سیٹ تھا جس نے ان کو اس قدر تنہا کر دیا کہ جب مخالف تحریک چلی تو وہ تنہا تھے اور جب اُن کی حکومت تحلیل کر دی گئی تو وہ مزید تنہا ہو چکے تھے۔ سچی بات ہے کہ مجھے مخالفین کو گالیاں دینے اور دھمکیاں دینے سے حیرت نہیں ہوتی البتہ موسم کی بے یقینی، روز افزوں مہنگائی، بے روزگاری، سیاسی تنائو، نفرت کی پھیلتی خلیج، کارکردگی کا نوحہ، دہشت گردی کی شروعات اور زندگی کی سختیوں میں ہر روز اضافے سے خوف آتا ہے کیونکہ میں ان کا انجام دیکھ چکا ہوں۔ تاریخ کی بری عادت ہے کہ وہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔

تازہ ترین